کیا ہمیں لی کوان یو،جیسا حکمران نصیب ہوگا؟

Aug 28, 2024

عمران امین

   

لی کوان یو16ستمبر 1923ء کو سنگاپور کے ایک امیر چینی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ریفلز کالج، سنگاپوراور فٹز ویلیم کالج کیمبرج، انگلینڈ سے تعلیم حاصل کی۔ 1950ء میں مڈل ٹیمپل کے بیرسٹر بن گئے۔ اس کے بعد وہ سنگاپور واپس آئے اور اپنے وطن سے نوآبادیاتی حکمرانی چھڑوانے کے لیے مہم چلانا شروع کی۔لی  جدید سنگاپور کے بانی کہلاتے ہیں کیونکہ اُن کی قیادت میں ملک میں اہم اور انقلابی اقتصادی اور سماجی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے جدید دنیا میں سنگاپور کو دنیا کی عظیم اقتصادی کامیابی کی کہانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔لی کوان یو کے کامیاب سیاسی نظریات کو بنانے میں کئی عوامل کارفرما رہے۔ انہیں محنت کش طبقے کی جدوجہد سے روشناس کرانے اور سماجی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے میں 1955ء میں قانون ساز کونسل کے انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے اور لیبر یونینوں کے قانونی مشیر کے طور پر کام کرنے کے فیصلے نے اہم کردار ادا کیا۔ سنگاپور کے باشندوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بطور وزیر اعظم  اُن کی پالیسیوں کو  محنت کش طبقے کی جدوجہد سے اُن کی وابستگی نے کافی متاثر کیا۔ سنگاپور پر جب جاپان کا قبضہ تھا تب لی کوان یو نے جاپانیوں کے لیے ایڈمنسٹریشن آفیسر کے طور پر کام کیا۔اس تجربے نے اُن میں عملیت پسندی اور مصیبت کے وقت موافقت کی اہمیت کو ابھارا۔ دوسری جنگ عظیم کے تجربات سے لی کوان یو نے سیکھا کہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کسی بھی قوم کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے اور قوموں کواپنی بقا کے لیے خود پر انحصار کرنا چاہیے۔ لی کا ماننا تھا کہ ایک مضبوط خارجہ پالیسی ہی کسی بھی ملک کی بقا کو یقینی بنا سکتی ہے۔ سنگاپور کے پہلے وزیراعظم لی کوان یو نے 1959ء سے 1990ء تک خدمات سر انجام دیں اگر ہم بطور وزیر اعظم لی کوان یو کی اہم کامیابیوں اور اقدامات کا جائزہ لیں تو قومی سطح پر لی کوان یو کی حکومت نے تیزی سے صنعت کاری، شہری آباد کاری اور جدید انفراسٹرکچر پر توجہ دی جس کی وجہ سے تیز رفتار اقتصادی،معاشی ور صنعتی ترقی ہوئی۔ اُنہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنے ملک کی طرف راغب کیا جس سے کاروبار بڑھا نیز تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں سنگاپورجلد ہی ایک ہائی ٹیک معیشت میں تبدیل ہوگیا۔ لی نے لوگوں کو سستی رہائش فراہم کرنے کے لیے ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ (HDB) متعارف کرایا جس کی وجہ سے معیار زندگی میں نمایاں بہتری ہوئی۔ لی نے کثیر النسل ملک میں نسلی ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دیا۔ اُنہوں نے نسلی تعصب کو ختم کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں بنائیں جن کی وجہ سے ملک میں آباد تمام گروہوں کے لیے مساوی مواقع اور نمائندگی کو یقینی بنایاگیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر لی کوان یو نے سنگاپور میں بسنے والے افراد کو ایک قابل احترام اور بااثر قوم کے طور پر پیش کیا جبکہ پڑوسی ممالک بالخصوص ملائیشیا کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (ASEAN) کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لی کوان یو کی حکومت نے عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر توجہ دی۔جس سے سنگاپور بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنااور یوں خطے میں ایک بڑے معاشی کھلاڑی کے طور پر ابھرا۔لی نے معاشی ترقی کو آگے بڑھانے میں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا جس کے نتیجے میں جلد ہی ایک اعلیٰ ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت پیدا ہوئی۔لی نے بدعنوانی سے نمٹنے اور مکمل خاتمے کے لیے اقدامات متعارف کرانے کے  بعد ایک صاف ستھری اور موثر حکومت قائم کی۔مجموعی طور پر لی کوان یو کی قیادت اور وژن نے سنگاپور میں بسنے والوں کو ایک جدید،خوشحال اور باعزت قوم میں تبدیل کیا۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی بات نہیں تھی کہ لی کوان یو کے اقتدار میں آنے سے پہلے سنگاپور میں سب اچھا تھا،ہر طرف امن تھا،خوشحالی تھی اور لوگ مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔وہ بس اقتدار پر بیٹھا اور اُس نے ساری کامیابی آسانی سے حاصل کر لی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لی کوان یو کو بطور وزیر اعظم مختلف محاذوں پر چیلنجزدرپیش تھے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لی کو شدید معاشی مسائل کے ساتھ ایک نوخیز قوم وراثت  میں ملی تھی جس کو  بڑے پیمانے پر بے روزگاری، مکانات کی قلت اور قدرتی وسائل کی کمی کا سامنا تھا۔ابتدا میں لی کوان یو کی حکومت کو پریس پر پابندی اور اپوزیشن جماعتوں پر سخت کنٹرول کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیاجبکہ لی کا خیال تھا کہ استحکام برقرار رکھنے اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی رٹ قائم رکھناضروری ہوتا ہے۔لی کو ملک کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کیمونسٹ مخالف سکیورٹی آپریشن کولڈ اسٹور بھی کرنا پڑا۔ یہ سچ ہے کہ لی کوان یو کی قیادت نے سنگاپور کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے کویکسر تبدیل کر دیا تھا۔ اُس کے موثر اقدامات نے ملک کے نظام میں موجودکمزوریوں کو دور کیا سنگاپور میں رہنے والے افراد میں قومی اتحاد کے احساس کو فروغ دیا اور ملکی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھایا۔ آج سنگاپور جہاں کھڑا ہے دراصل لی کوان یو کے وژن کے ثبوت کے طور پر کھڑا ہے۔

آج پاکستان معاشی طور پر بد حالی کا شکار ہے جبکہ سیاسی انتشاربھی عروج پر ہے۔یاد رکھیں! سیاسی عدم استحکام کسی قوم کے پہلے سے درپیش چیلنجز کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔اس وقت پاکستان میں بڑھتی ہوئی تفرقہ انگیز بیان بازی،گالی گلوچ، بدعنوانی اور بداعتمادی معاشرے کے تانے بانے کو ختم کر رہی ہے۔معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایسے پرآشوب دور میں رہنماء کا کردار سب سے اہم ہو جاتا ہے۔آج ہمیں ایک ایسے رہنماء کی ضرورت ہے جو ملک کی سلامتی اور امن کی بحالی کے لیے کام کرے۔ لوگوں کو ایسا شخص چاہیے جو اُن کی جدوجہد میں شامل ہو اور اُن کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ٹھوس پالیسیاں اختیارکرے۔ اقتصادی بحالی، نئے روزگار  اور سماجی بہبود کے پروگراموں کو ترجیح دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ترقی کے فوائد نچلی سطح تک پہنچیں گے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم، لی کوان یو جیسے مدبر اور زیرک حکمران کی تلاش میں ہے جو اس قوم کو جوڑے اور باہمی نفرت کی فضا کو محبت میں بدل دے۔جوملک میں ہونے والی نا انصافی،بد عنوانی، تفرقہ بازی،اقرباء پروری، رشوت ستانی اور بدامنی کا خاتمہ کر سکے۔یہ حقیقت ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے کر اور اتحاد کو فروغ دے کر ایک مستحکم اورخوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے مگر شرط وہی ”کیا ہمیں لی کوان یو، جیسا حکمران نصیب ہوگا“؟۔

مزیدخبریں