روحانی خلاء کی تکمیل

Feb 28, 2018

ڈاکٹر نعمان نیئر کلاچوی

خدا بیزار معاشروں سے جو روحانی امراض ہم تک پہنچے ہیں ان میں "Depression" ذہنی تناؤ ، " Stress" ذہنی دباؤ، " Tension" ذہنی کشیدگی، " Anxiety" ذہنی اضطراب اور " Emptiness" یعنی ذہنی خلاء آج ہمارے معاشرے میں بھی عام ہو چکے ہیں یہاں پر ایک نکتہ یاد رہے کہ میں نے اْردو اصطلاح "ذہن" اس لئے استعمال کی تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے نہیں تو ذہن کی جگہ موزوں اصطلاح روح ہی ہے مذکورہ بالا تمام بیماریاں آج ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہیں دو میں سے ہر تیسرا بندہ ان پانچ بیماریوں میں سے لاشعوری پر خود کو کسی ایک بیماری کا حامل سمجھتا ہے بلکہ ذرا تفنن سے کام لیا جائے تو اس میں اپنی سماجی برتری سمجھتا ہے کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک بیماری کا شکار ہو گیا ہے اس کے برعکس جو لوگ پرسکون اور اپنے حالات سے مطمئن رہتے ہیں اْنہیں احمق اور ناخواندہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ آج دنیا خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کر چکی ہے مگر اس کے باوجود بھی اپنے لئے حقیقی اطمینان کے ذرائع نہ پیدا کر سکی یورپ میں لوگ روحانی اطمینان حاصل کرنے کے لئے Alcohol and Narcotics استعمال کرتے ہیں دنیا کے پانچ ممالک جہاں نشہ آور ادویات اور الکوحل کا استعمال عام ہو چکا ہے ان میں پہلے نمبر پر نیوزی لینڈ دوسرے نمبر پر آئس لینڈ تیسرے نمبر پر رشیا چوتھے نمبر پر سکاٹ لینڈ اور پانچویں نمبر برازیل ہے اب یہ کہنے کی قطعاً گنجائش موجود نہیں کہ یہ تمام ممالک پڑھے لکھے یا ترقی یافتہ نہیں ہیں یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نشہ لینا جرم ہے بھی یا نہیں کیونکہ سیکولر سٹیٹ میں تو اچھے یا برے کا فیصلہ عوام کرتے ہیں سیکولر سٹیٹ کی عوام چاہے جس اخلاقی قباحت کو اپنی ضرورت قرار دے کر اس پر عمل شروع کر دے بہرحال قوانینِ فطرت کے لحاظ سے وہ قبیح ہی رہے گی اس ضمن میں ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا اخلاقی پیراڈائم انسان خود بنا سکتے ہیں یعنی کیا انسان اچھائی اور برائی کے پیرامیٹرز خود ترتیب دے سکتا ہے سادہ جواب یہ ہے کہ بالکل بھی نہیں بے شک دنیائے فلسفہ کا معتبر دانشور کانٹ اس پر مْہر ثبت کیوں نہ کر چکا ہو درحقیقت اچھائی اور برائی کا شعور انسان کے اندر فی نفسہ یعنی built۔in ہے جس کی رہنمائی کے لئے خدا نے وحی کا سلسلہ جاری کیا اگر وحی کی روشنی سے انسان اپنے ضمیر کو محروم کر دے تو بالیقین وہ برائی و ذلالت کی گہری کھائی میں جا گرے گا اگر اس میں کسی کو شک ہو تو وہ تاریخِ دنیا کا مطالعہ کرکے اس اَمر کی تصدیق کر سکتا ہے کہ انسان جب بھی وحی سے دور ہوا اس کا حال تباہ ہوا پس حقیقی دانش وہ ہے جس میں وحی کا نور شامل ہو اس مقام پر اقبال کا ایک بند ذہن میں محوِ گردش ہے


اِک دانشِ نورانی اِک دانشِ برہانی
ہے دانشِ برہانی حیرت کی فراوانی
خدا جسے آپ بے شک کسی بھی زبان میں پکار لیں دراصل انسان کی حتمی علت حتمی اطمینان اور حتمی ضرورت ہے آج تشکیک اور الحاد نے انسان سے اس کا حقیقی سکون چھین کر اسے دشتِ اذیت میں اکیلا چھوڑ دیا جہاں پر وہ کسی کو اپنا یارو مددگار نہیں پاتا آج سے بیس سال پہلے یہ مسائل یورپ میں تھے مگر اب ہمارا معاشرہ بھی انہی مسائل کی لپیٹ میں آ چکا ہے یہاں بھی اب غیر ضروری معلومات کے بے ہنگم اژدہام نے انسان کو اپنی ذات اور خدا سے بے بہرہ کر دیا ہے راقم الحروف انہی وادیوں میں ایک زمانہ تک محوِ سفر رہا مگر یقین جانیں سوائے حیرت و اذیت کے کچھ ہاتھ نہ لگ سکا ایمان جو انسان کا حقیقی سرمایہ ہے دراصل انسان سے خدا کی سب سے آسان ترین ڈیمانڈ ہے اسی کا اعلی ترین درجہ عشق ہے عشق دراصل وہ مقام ہے جہاں انسان روحانی طور پر مکمل ہو جاتا ہے اور خدا کا حقیقی قرب پا لیتا ہے حضرت سلطان باھو سے بڑھ کون اس مقام کو بیان کر سکتا ہے

ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ھو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ھو
جس منزل تے عشق پچاوے ایمان خبر نہ کوئی ھو
میرا عشق سلامت رکھیں باھو ایمان دیاں در وہی ھو
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان مختارِ مطلق ہے اور قرآن اس اختیار کو بہت منطقی اسلوب سے بیان کرتا ہے "فمن شاء فلیومن ومن شاء من یکفر" پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کر لے" آیت کے عمومی اثر سے معلوم ہوا کہ خدا انسان کو اختیار دینے کے بعد اسکے اعمال میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہمیں ظلم و زیادتی نظر آ رہی ہے خدا بیزار ذہن اکثر یہ اعتراض کر لیتے ہیں کہ اگر یہ کائنات خدا کے حیطہِ نگاہ میں ہوتی تو کبھی ناانصافی و معاشی تفریق نظر نہ آتی حالانکہ یہ ذہن اس اساسی نکتہ پر غور نہیں کرتے کہ خدا نے انسان کو اختیار دیا ہے اور جب اختیار مل گیا تو انسان اچھائی اور برائی دونوں پر کامل دسترس رکھ چکا پس وہ چاہے تو نیکی اختیار کرے چاہے تو بدی البتہ حتمی فلاح صرف بھلائی کے حامل ہی کے حق میں آتی ہے خدا انسان کے ارادہ و اختیار میں اس لئے مخل نہیں ہوتا تاکہ انسان اپنی مکمل ذمہ داری کے ساتھ حق اور باطل پر عمل پیرا ہو سکے ہاں خدا نے وحی کے ذریعے انسان کو صحیح اور غلط راستوں کا ادراک دے دیا پس جو لوگ خدا کی مقرر کی گئی حدود میں رہ کر اپنے ارادہ و اختیار کا استعمال کرتے ہیں تو خدا انہیں حقیقی راحت سے ہمکنار کرتا ہے چنانچہ سورہ یونس کی آیات ستاون اور اٹھاون میں ارشاد ہے "اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور ایمان والوں کے لئے رحمت ہے، اے محمدؐ! آپ فرما دیجئے کہ آپ کو اللہ کے اس انعام اور فضل پر خوش ہونا چاہئے یہ اس سے بہت بہتر ہے جو کچھ تم جمع کر رہے ہو" چنانچہ خدا نے وحی کو حقیقی سکون کا وسیلہ قرار دے دیا۔

مزیدخبریں