فرشتوں نے اپنا کام جیسے ہی ختم کیا نتیجہ سامنے آگیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑا مکمل طور پر جھک گیا تھا۔ اس نے ظلم و ناانصافی اور رشوت سے جو کچھ حرام کمایا تھا اور لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی تھیں وہ اس کے سارے نیک اعمال پر غالب آگئیں۔ یہ دیکھ کر وہ شخص چیخنے چلانے لگا اور رحم کی درخواست کرنے لگا۔ ارشاد ہوا:
’’جن لوگوں سے تو رشوت لیتا اور انھیں تنگ کرتا تھا کبھی ان پر تجھے رحم آیا۔ دیکھ تیری کمائی آج تیرے کچھ کام نہ آئی۔ تیرا انجام جہنم ہے۔ پھر ایک فرشتے نے اس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمادیا۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے۔۔۔قسط نمبر41 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
وہ شخص چیخ چیخ کر کہنے لگا:
’’میں نے اپنے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب میں نے اپنی بیوی بچوں کے لیے کیا تھا۔ اللہ کے واسطے مجھے چھوڑدو۔ میرے بیوی بچوں کو پکڑو۔‘‘
فرشتوں نے جواب دیا:
’’تیرے بیوی بچوں کا حساب بھی ہوجائے گا پہلے تو تو چل۔‘‘
پھر دونوں فرشتے اسے مارتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا شخص پولیس کا ایک سینئر افسر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب ہی نہیں کیا۔ اس کے ساتھ آنے والے فرشتے سے پوچھا کہ اس کے نامۂ اعمال میں کیا درج ہے۔ اس کے جواب میں فرشتے نے اس کی ساری زندگی کے جرائم بیان کردیے۔ جن میں بے گناہ لوگوں پر ظلم، بعض معصوموں کا قتل، جوئے اور بدکاری کے اڈوں کی سرپرستی، بدکاری اور شراب نوشی، رشوت اور عیاشی جیسے سنگین جرائم شامل تھے۔ جبکہ نیکیوں میں صرف عید کی وہ نمازیں تھیں جو حالت مجبوری میں حکمرانوں کے ساتھ عید گاہ میں ادا کی جاتی تھیں۔
پوچھا گیا:
’’تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے۔‘‘
اس نے کہا:
’’پروردگار! میرے حالات ہی ایسے تھے۔ ہر طرف رشوت کا ماحول تھا۔ میں یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا مگر افسران کا دباؤ اور ماحول کے جبر کی بنا پر مجبور ہوگیا۔‘‘
انتہائی سخت آواز میں کہا گیا:
’’تو تم مجبور ہوگئے تھے؟‘‘
پھر حکم ہوا کہ اس کے ماتحت کام کرنے والے ایک جونیئر افسر کو پیش کیا جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک انتہائی خوش شکل شخص بہت اعلیٰ اور نفیس لباس زیب تن کیے ہوئے حاضر ہوا۔ اس سے پوچھا گیا:
’’میرے بندے تو نے بھی اسی شخص کے ساتھ کام کیاتھا۔ پھر ماحول سے مجبور ہوکر ظلم اور رشوت کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’میرے رب مجھے آج کے دن تیرے حضور پیش ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے میں نے کبھی رشوت نہیں لی۔ جب ساتھ کام کرنے والوں نے مجھے مجبور کیا تو میں نے صاف انکار کردیا۔ میں نے ساری عمر بہت غربت کی زندگی گزاری لیکن کبھی پیسے لے کر انصاف کا خون نہیں کیا۔‘‘
جواب ملا :
’’ہاں! اسی کا بدلہ ہے کہ تیرے بہت کم عمل کو میں نے بہت زیادہ قبول کیا ہے اور تجھے ہمیشہ رہنے والی جنت کی سرفرازی نصیب کی ہے۔‘‘
پھر دوسرے پولیس والے سے کہا گیا:
’’تیرے پاس انتخاب یہ نہیں تھا کہ تو رشوت، ظلم اور زیادتی کے راستے پرچل کر امیر ہوجائے یا ایماندار بن کر غربت کی زندگی گزارے۔ تیر ے پاس انتخاب یہ تھا کہ انصاف کرکے جنت میں جائے یا پھر ظلم کرے اورجہنم میں جائے۔ سو تو نے جہنم کو پسند کرلیا۔ یہی ہمیشہ کے لیے تیرا بدلہ ہے۔‘‘
وہ پولیس والا ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگا:
’’پروردگار! مجھے شیطان نے گمراہ کیا تھا۔‘‘
جواب ملا:
’’نہیں! اصل میں تو خود ایک شیطان تھا۔ حالانکہ تو میرے سامنے ایک معمولی چیونٹی سے زیادہ بے بس تھا۔ اے بے وقعت انسان! جس وقت تو انسانوں پر ظلم کرتا تھا اس وقت بھی تو میرے سامنے ہوتا تھا، لیکن میں نے تجھے مہلت دی۔ تو نے اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تو نے یہ سمجھا تھا کہ تجھے میرے حضور پیش نہیں ہونا۔ دیکھ تیرا گمان غلط ثابت ہوا۔‘‘
اِدھر غیض و غضب کے یہ الفاظ بلند ہورہے تھے، اُدھر میدان حشر کے بائیں جانب سے جہنم کے شعلوں کے بھڑکنے کی آوازیں تیز ہورہی تھیں۔ ان آوازوں نے ہر دل کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ہر شخص پر سخت ہول کا عالم طاری تھا۔ کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ لوگوں کے چہرے بالکل سیاہ پڑچکے تھے۔ دل کی دھڑکنیں اتنی تیز تھیں کہ گویا دل سینہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ مگر آج کوئی جائے فرار نہ تھی۔ ایک مجرم کا فیصلہ ہورہا تھا اور دیگر مجرموں کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وقت کے فرعون، طاقتور ہستیاں، جابر حکمران، بے انتہا دولت کے خزانوں کے مالک، مشہور ترین سیلیبریٹی، انتہائی اثر و رسوخ والے لوگ، سب معمولی غلاموں بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح بے بسی سے کھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر تھے اور آج انھیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔
پھر اس کا اعمال نامہ تولا گیا جس میں حسب توقع الٹے ہاتھ کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ فرشتے نے آگے بڑھ کر نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمانا چاہا، مگر اس نے ڈر کے مارے ہاتھ پیچھے کرلیا۔ فرشتے کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت تھی۔ فرشتے نے اس کے ہاتھ پیچھے ہی کی سمت باندھ کر ان بندھے ہوئے ہاتھوں میں سے الٹے ہاتھ میں نامۂ اعمال تھمادیا۔ پھر دونوں فرشتے اسے مارتے پیٹے ان شعلوں کی طرف بڑھ گئے جہاں بدترین انجام اس کا منتظر تھا۔(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔