شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 69

May 28, 2017 | 01:53 PM

شاہد نذیر چودھری

کارپٹ پر بیٹھ کر کام کرتے ہوئے شخص نے عینک لگا رکھی تھی۔ عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی متحرک آنکھوں سے ذہانت سے بھری ہوئی معاملہ فہمی ٹپک رہی تھی۔ کھردرے ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہوں نے زندگی بھر مشکل کام کیے ہیں۔ وہ جب وہاں سے اٹھے تو معلوم ہوا کہ دراز قد آدمی ہیں اور بدن قامت کے اعتبار سے متناسب ہے۔ چہرے پر اطمینان تھا۔ پیشانی کشادہ تھی۔ پیچھے سے بال سلامت اور مائل بہ درازی تھے۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ان کا تعلق ضرور کسی گاؤں سے ہے اور انہیں بچپن اور لڑکپن میں گاؤں کی صاف ستھری ہوا اور بکریوں کا دودھ میسر آیا ہے۔

شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانوادہ وشاہیہ کی خدمات۔۔۔قسط نمبر68 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

میں جب ان کا انٹرویو لینے کے لیے دفتر سے نکل رہا تھا تومیں نے اپنے ایک اخبار کے ساتھی سے ان کے متعلق پوچھا تو اس کے چہرے پرکوئی اچھے تاثرات نہیں آئے تھے اور اس نے اپنی چند لفظی گفتگو میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس شخص کے انٹرویو کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس اخبار نویس سے زیادہ یقین مجھے ظفر بھائی (ظفر تنویر) پر تھا جنہوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ میں ان کا بہت احترام کرتاہوں کیونکہ انہوں نے تما م زندگی رات کی شفٹ میں کام کیا ہے اور دن کو اسلام کی تبلیغ کی ہے۔ پھر بھی میرا خیال تھا کہ پیر توپیر ہوتے ہیں۔ مریدوں کے نذرانوں پر اونچے اونچے محل تعمیر کرنے والے ، بقول اقبال
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
لیکن یہ شخصیت ویسی نہیں تھی ۔پھر انکے ساتھ گفتگو سے اس بات کا احساس بھی ہوا ہے کہ پیر صاحب خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ فارسی اور پنجابی زبان میں شعر بھی کہتے ہیں۔ فارسی سے تو میری کچھ زیادہ شد بدنہیں ہے مگر پنجابی زبان کے اسرار و رموز جاننے کا تو مجھے بھی دعویٰ ہے۔ سو میں نے انکی پنجابی شاعری میں دلچسپی لی اور وہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے ان کی پنجابی شاعری کے اردو زبان میں منظوم تراجم بھی کیے۔
پیر صاحب سے دوسری ملاقات ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہوئی۔ میں نے پیر صاحب کو اس مشاعرہ کی صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے قبول کرلی۔مشاعرہ سے دو دن پہلے مجھے پیر صاحب کا فون آیا کہ میں مشاعرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دوستوں نے اس مشاعرہ کو ایک سیاسی ایشو بنا لیا ہے کیونکہ کچھ دنوں کے بعد برطانیہ میں نیشنل اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ دوستوں کا یہ خیال ہے کہ یہ مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور وہاں لیبر پارٹی کے امیدوار مارشا سنگھ سے میری ملاقات ہونی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کا اپناکیا خیال ہے ‘‘ انہوں نے کہا’’ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ سب غلط فہمی ہے مگر وقت کم ہے اور میں یہ غلط فہمی دورنہیں کر سکتا۔ اس لیے مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ میں مشاعرہ میں نہ آؤں تاکہ کسی دوست کا دل نہ دکھے‘میں شاعر ہوں مجھے مشاعرہ میں شریک ہونا اچھا لگتا ہے لیکن کیا میں دوستوں کے لیے اتنی قربانی نہیں دے سکتا ‘‘اور مجھے پیر صاحب اور زیادہ بڑے آدمی محسوس ہوئے۔
پیر صاحب سے تیسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نماز کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری فلم بنا رہا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں پیرصاحب سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے بریڈ فورڈ کے تمام علمائے کرام کو کہا کہ مجھے اس ڈاکومینٹری کے سلسلے میں جس قسم کی کوئی مدد کی ضرورت پڑے، وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کریں اوریوں پیر صاحب کے تعاون سے میں وہ ڈاکومینٹری بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس ڈاکومینٹری کا انتساب بھی میں نے پیر صاحب کے نام کیا تھا۔
پیر صاحب سے چوتھی ملاقات ان دنوں ہوئی جب پاکستان کے ممتاز موسیقار میاں شہریار بریڈ فورڈ میں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں جب پیر صاحب کا عارفانہ کلام سنایا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کلام کا ایک آڈیو کیسٹ تیار کرنا چاہتا ہوں سو اس کے لیے پیر صاحب کی اجازت ضروری تھی۔ میں انہیں ساتھ لے کر پیر صاحب کے پاس گیا۔ پیر صاحب نے بڑی خوش دلی سے اس بات کی اجازت دی ۔ پیر صاحب کے عارفانہ کلام پر مشتمل وہ کیسٹ تیار ہو چکا ہے جس میں پاکستان کے نامور گلوکاروں نے پیر صاحب کے کلام کو ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس کے بعد اتفاقاً میری رہائش گاہ تبدیل ہوگئی اور میں نے پیر صاحب کے ساتھ والی گلی میں رہنا شروع کر دیا۔یوں پیر صاحب سے ملاقات کا سلسلہ اور بڑھتا چلا گیا۔ میں جس قدر پیر صاحب کے قریب ہوتا گیا وہ مجھے اس قدر زیادہ اچھے لگنے لگے وگرنہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی شخصیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس کے ظاہر و باطن کے تضادات دکھائی دینے لگتے ہیں اور آدمی اس سے متفر ہوتا چلا جاتا ہے۔
سچ کہتا ہوں مجھے پیر صاحب کے ماضی میں جھانکنے کا موقع ملا تو مجھے اس شخصیت کو زندگی میں اپنا رہنما ماننے میں کوئی تردو نہیں ہوا۔ ان کی زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کا ہر سانس اللہ کے نام کی روشنی سے بھرا ہوا ہے اور محمد ؐ کے لفظ کی رفعتوں سے سرفراز ہے۔ جوانی سے بڑھاپے تک ایک اضطراب افزا تسلسل کے ساتھ وہ دیار مغرب میں دین مصطفی ؐ کی ترویج کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور کبھی تھک کر نہیں بیٹھے، کبھی سستائے نہیں کبھی اپنے پاؤں کے تلوؤں سے خار چننے کے لیے کسی درخت کے نیچے نہیں رکے۔ مشرق کی تپتی ہوئی دھوپ ہو یا مغرب کی جمتی ہوئی برفاب ہوا، ان کا سفر جاری ہے۔(جاری ہے )

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں