اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 181

May 28, 2019 | 02:14 PM

اے حمید

میں جھک کر بڑی احتیاط سے چلتا ہوا طاق کے نیچے جھاڑیوں میں پہنچ گیا۔ میرا پاﺅں ایک پتھر سے ٹکرایا تو پتھر اپنی جگہ سے لڑھک کر ایک دوسرے پتھر سے جا ٹکرایا۔ اس سے آواز پیدا ہوئی۔ اندر سے کسی نے کہا ”دیکھو وہی خنزیر کہیں پھر نہ آگیا ہو۔ اسے مار ڈالو۔“
میں نے تیزی سے اپنے آپ کو جھاڑیوں میں چھپالیا۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ میں بھاگ کر سامنے والے درختوں میں چلا جاتا۔ کوٹھری کا دروازہی کھلا اور ایک نیزہ بردار سپاہی جس نے پرانے قلعے کے محافظوں کا لباس پہن رکھا تھا باہر نکلا اور سیدھا اس طرف آگیا جہاں میں جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ یہ اس شخص کی خوش قسمتی تھی کہ وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ہی رہا۔ ورنہ میرے ہاتھوں اس کی موت یقینی تھی۔ اس نے جھاڑیوں میں نیزہ چلانا اور فرضی خنزیر کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ وہیں دو چار جھاڑیوں میں نیزہ مارنے کے بعد جب وہاں سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا تو واپس کوٹھری میں چلا گیا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 180 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”پھر بھاگ گیا۔ اب کے آیا تو اس کا کام تمام کر ڈالوں گا۔“ اس نے اندر جاتے ہی اپنے ساتھی سے کہا میں نے آہستہ سے اپنا سر اونچا کیا۔ میرے سر کے بال اوپر وہ طاق تھا جس کی سلاخوں میں سے شمع کی دھیمی دھیمی سی روشنی باہر آرہی تھی۔ میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی آنکھیں طاق کی سلاخوں کے ساتھ لگادیں۔ کوٹھری میں ایک گول میز کے سامنے ایک سیاہ فام حبشی تلوار میز پر رکھے مشروب سے دل بہلا رہا تھا۔ اس کے سامنے طشت میں پکائے ہوئے پرندے کے گوشت کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ کونے میں شمع روشن تھی۔ حبشی کا ساتھی، نیزہ میز سے لگا کر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا اور مشروب پینے لگا۔ حبشی نے ترنگ میں آکر اپنی گردن کو لہرایا اور بولا ” اس شاہی رقاصہ کا تو رقص ہونا چاہیے تھا مگر آقائے شرطوم اسے اذیت دے رہا ہے۔ وہ اس سے کیا معلوم کرنا چاہتا ہے؟“
اس کا ساتھی بولا ”کوئی خفیہ راز معلوم کرنا چاہتا ہوگا۔ مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔ لگتا ہے وہ اسے مار کر ہی دم لے گا۔ وہ اسے ہمارے حوالے کیوں نہیں کردیتا۔“
حبشی میز پر مکا مار کر غرایا ”تم کون ہو اس حسین رقاصہ کو اپنے پاس رکھنے والے؟“ پھر سر پیچھے ڈال کر بولا ”لیکن وہ ہماری قسمت میں نہیں ہے۔ ایک مدت کے بعد ایک حسین عورت اس منحوس قلعے میں آئی تھی وہ بھی ظالم شرطوم کے ہتھے چڑھ گئی۔“
شرطوم اسی جلاد کا نام تھا۔ جس کے قبضے میں طرسومہ تھی۔ یہ دونوں محافظ طرسومہ کی ہی بات کررہے تھے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ جلاد شرطوم طرسومہ پر کس لئے ظلم ڈھا رہا ہے لیکن میں جانتا تھا۔ اب مجھے یہ اطلاع چاہیے تھی کہ اس تہہ خانے کو کون سا راستہ جاتا ہے جہاں شرطوم طرسومہ کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنارہا ہے۔ ان دونوں کی گفتگو سے مجھے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قلعے کے جلاد شرطوم نے طرسومہ کو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور سوائے ان دونوں محافظوں کے اس منحوس قلعے میں اور کسی کو خبر نہیں ہے کہ طرسومہ اس جگہ قید ہے گویا یہ دونوں محافظ بھی شرطوم کے رازدار تھے لیکن طرسومہ کے اغوا کی حد تک۔ اس راز کو یہ محافظ بھی نہیں جانتے تھے کہ جلاد شرطوم، طرسومہ کو اذیت دے کر اس سے میری خفیہ یا غیبی طاقت کا اسرار معلوم کرنا چاہتا ہے۔
مجھے وہاں طاق کی سلاخوں کے پیچھے جھاڑیوں کے اندھیرے میں کھڑے کھڑے خاصا وقت گزر گیا مگر ان کی باتوں سے یہ پتہ نہ چل سکا کہ طرسومہ کس تہہ خانے میں بند ہے اور اس تہہ خانے کو کون سا راستہ جاتا ہے؟ میری بائیں جانب چٹانوں کے دامن میں پرانے قلعے کی ڈراﺅنی عمارت کھڑی تھی مگر میں کوئی غیر ذمہ دارانہ قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ مبادا طرسومہ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے۔ میں زیادہ دیر وہاں کھڑا ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ میں واپس جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ حبشی نے دونوں ٹانگیں میز پر پھیلاتے ہوئے طشت کو نیچے پھینک دیا اور اپنے ساتھی سے بولا
”رقاصہ کے تہہ خانے میں جاکر دیکھو۔ اگر جلاد طرشوم اپنے کمرے میں بدمت ہو کر سوچکا ہو تو م جھے خبر دو۔ ہم رقاصہ کا رقص دیکھیں گے۔“
ساتھی محافظ سپاہی بولا ”مگر رقاصہ کے پاﺅں میں زنجیر پڑی ہے۔“
”ہم زنجیر تھوڑی دیر کے لئے اتار دیں گے۔ تم جاﺅ اور اعتراض مت کرو۔ جاﺅ۔“
محافظ سپاہی نے باہر کا رخ کیا تو میں جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوگیا۔ میرا مسئلہ بہت حد تک حل ہوگیا تھا۔ محافظ سپاہی کو طرسومہ کے تہہ خانے میں جانے کا حکم صد تھا۔ جونہی محافظ سپاہی کوٹھری سے نکل کر قلعے کی عمارت کی طرف بڑھا میں نے اس کا پیچھا شروع کردیا۔ اس شخص کا پیچھا کرنے سے م جھے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوسکتا تھا کہ طرسومہ کس جگہ پر قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہی ہے۔ محافظ سپاہی بلوط کے درختوں کے بیچ میں سے ہوتے ہوئے ایک ویران راستے پر آگے جارہا تھا۔ میں کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ پرانے بوسیدہ قلعے کا ایک بے ڈھنگا سا بڑا دروازہ تھا جو بند تھا اور باہر کوئی پہرے دار بھ ی نہیں تھا۔ یہاں دیوار کے طاق میں کوئی مشعل بھی نہیں جل رہی تھی۔ محافظ سپاہی قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ ایک جگہ رک گیا۔ میں بھی ایک مٹی کے تودے کی اوٹ میں چھپ کر اس کی حرکات کا جائزہ لینے لگا۔ اندھیرے میں مجھے عام انسانوں سے زیادہ نظر آرہا تھا۔ یہاں پتھروں کے درمیان ایک چھوٹا سا طاق بنا ہوا تھا۔ محافظ سپاہی اس طاق میں داخل ہوگیا۔ میں نے تھوڑا سا توقف کیا اور پھر تودے کے پیچھے سے نکل کر طاق کے پاس آگیا۔ یہ تنگ راستہ پتھر کی دو بڑی سلوں کو کھسکا کر بنایا گیا تھا۔ اس کی دوسری جانب اندھیرا تھا۔ میں بھی طاق میں اتر گیا۔ میرے پاﺅں زینے کے پتھر پر پڑے۔ زینہ نیچے جانے کی بجائے دیوار کے پہلو کی طرف ڈھلائی شکل میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ نصف دائرے کا چکر کاٹ کر زینہ ایک دروازے کے آگے جاکر ختم ہوگیا۔ یہ دروازہ لوہے کی سلاخوں کا تھا اور اندر کی جانب کھٹکا لگا تھا۔ محافظ سپاہی اس کھٹکے کو جاتے ہوئے بند کرگیا تھا۔
میں نے سلاخوں میں ہاتھ ڈال کر کھٹکا کھول دیا۔ عام طور پر یہاں تالا لگایا جاتا ہو گا۔ آگے پھر ایک اندھیرے راہ داری آگئی۔ میں بڑی احتیاط سے قدم اٹھاتا آگے بڑھا۔ راہ داری میں ایک جگہ سے روشنی آتی دکھائی دی۔ میں قریب گیا تو دیکھا کہ ایک تہہ خانے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہے۔ اندر موم بتی روشن ہے اور محافظ سپاہی فرش پر جھکا ایک عورت کو ہوش میں لانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ وہ بول رہا تھا ”ہوش میں آﺅ، ہم تمہارا رقص دیکھیں گے۔“ یہ طرسومہ تھی۔ میں نے موم بتی کی روشنی میں اسے پہچان لیا تھا۔ سپاہی کا نیزہ اس کے قریب ہی فروش پر پڑا تھا۔ یہ بڑا نادر موقع تھا۔ میں نے باہر کھڑے کھڑے دیوار کے ساتھ لگ کر پاﺅں سے کھٹ کھٹ کی تو محافظ سپاہی نے چونک کر آواز کر دی۔
”کون ہے؟“
میں خاموش کھڑا سپاہی کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ دوسری بار پاﺅں کے کھٹ کھٹ کرنے سے سپاہی نیزہ ہاتھ میں لئے تہہ خانے کی کوٹھری سے باہر نکلا ہی تھا کہ میں نے اسے وہیں دبوچ لیا۔ وہ پوری طرح میری گرفت میں تھا اور میں نے اس کا منہ بند کررھا تھا تاکہ وہ آواز دے کر کسی کو اپنی مدد کے لئے نہ بلا سکے۔ میرا شکنجہ اس قدر مضبوط اور ناقابل شکست تھا کہ محافظ سپاہی کی آنکھیں باہر نکل آئی۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ جب وہ بے ہوش ہوگیا تو میں نے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر اس کی مشکیں کسیں او رکوٹھری میں کھینچ کر کونے میں ڈال دیا۔ اب میں طرسومہ کی طرف بڑھا۔ وہ نیم بے ہوش پڑی تھی۔ میں نے جلدی جلدی اس کے پاﺅں کی زنجیر جو آدھی کھل چکی تھی اس کے پاﺅں سے اتاردی اور اسے ہوش میں لانے کی ترکیبیں کرنے لگا۔ طرسومہ کا جسم ٹھنڈا تھا اور آنکھوں کے قریب رخسار پر زخم کا نشان تھا جس میں سے خون رس رس کر جم گیا تھا۔
میں نے اسے آہستہ آہستہ آوازیں دیں تو وہ ہوش میں آگئی۔ موم بتی کی روشنی میں میری صورت دیکھ کر وہ رونے لگی۔ میں نے اسے تسلی دی اور ساری صورتحال سے باخبر کیا۔ طرسومہ کے جسم میں ایک نئی طاقت آگئی۔ وہ اٹھ بیٹھی مگر کمزوری کے باعث وہ لڑکھڑا سی گئی۔ میں نے اسے سہارا دے کر تہہ خانے کی کوٹھری سے باہر نکالا۔ ہم تاریک راہ داری سے گزرنے لگے۔ ابھی میں دیوار سے مؒحق زینے کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اوپر سے ایک بھاری بھرک آدمی کو اترتے دیکھا۔ جس کی کمر کے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔ میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ شرطوم جلاد تھا۔ طرسومہ کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی کہ خاموش رہے۔ شرطوم جلاد ایک جنگلی بھینسے کی طرح زینے پر پاﺅں جماتا نیچے اتررہا تھا۔ وہ آخری زینے پر تھا کہ طرسومہ کے حلق سے ایک ہلکی سی ہچکی نکل گئی۔ اس آواز کے ساتھ ہی شرطوم جلاد کے قدم وہیں رک گئے۔ اس نے تلوار کھینچ لی اور گرجا
” کون ہے؟“(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 182 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں