خبردار! عزت کرنا آپ کو مہنگا پڑ سکتا ہے

May 28, 2022

ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


 عزت بھی عجیب چیز ہے گذرے وقتوں میں معاشرے میں اگر کوئی کسی کی عزت نہیں کرتاتھاتو اُس کی اپنی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی تھی اور عزت کرنے سے عزت بڑھتی تھی۔اب بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ عزت کرنے سے عزت گھٹتی ہے۔ بندہ کسی غلط بندے کی عزت کربیٹھتا ہے تو اپنی نظر میں بندے کی عزت گھٹ جاتی ہے۔بزرگوں کے زمانے میں ضرب المثل ہوتی تھی کہ عزت کرو اور عزت کراؤ مگر آج کے دور میں بعض اوقات لگتا ہے محاورہ بدل گیا ہے اورآج کل کا مروجہ کلیہ یہ ہے کہ ”عزت کرو اور اپنی عزت گنواؤ“۔اگر آپ کسی ایسے آدمی کی عزت کرنا شروع کر دیں جو خود کوخود بھی عزت کے قابل نہیں سمجھتا تو وہ یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ ایسے آدمی کی کیا عزت کرنی، جو میرے جیسے آدمی کی عزت کر رہا ہے۔ پھر یہی سوچ کروہ آپ کی عزت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔پہلے آپ کسی کی عزت نہیں کرتے تھے تو وہ پریشان ہوتا تھا۔اب آپ اگر کسی کی عزت کرتے ہیں تو بعض اوقات وہ آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیتا ہے۔

دیہاتی آدمی اگرشہر بھی آجائیں تو دیہات سے آنے والے ہر آدمی کی عزت کرتے ہیں ایسے ہی ایک دیہاتی کو اُس کے شہری دوست نے کہا کہ تم تو ہرآدمی کو بہت عزت دیتے ہو، میں تو نہیں دیتا۔جس پر دیہاتی نے اُسے کہا بندہ دوسرے کو وہی چیز دے سکتا ہے جو اُس کے پاس ہو،مگراب معاشرے میں بعض اوقات یہ اُلٹا رواج چل پڑا ہے جس کی بندہ عزت کرے، وہ خود کو تو قابل عزت سمجھے نہ سمجھے، بندہ کو بے عزت کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ میں نے عزت کرنے کے معاملے میں ایک ڈرائیور کو بڑا سمجھدار پایا جو لوگوں کے ساتھ بڑی تہذیب اور شائستگی سے بات کرتا تھا۔ میں نے اُس سے کہا کہ آپ کا رویہ روایتی ڈرائیوروں سے بڑا مختلف ہے ایسا کیوں ہے؟اُس نے جواب دیاکہ میں نے زندگی میں یہ بات سیکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو عزت دے،بندے کی عزت اس کی عزت کرنے میں ہوتی ہے ورنہ اس آدمی کی عزت تو ویسی ہی رہتی ہے اور عزت نہ کرنے والا خود بے عزت ہو جاتاہے۔بد قسمتی سے کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے کا چلن یہ ہوگیا ہے کہ جو آدمی کسی کو جتنا نقصان پہنچا سکتا ہے اُس کی اتنی ہی زیادہ عزت کی جاتی ہے۔عام مروجہ چلن یہ ہے کہ کسی کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کرو اور کسی کی اچھائی دیکھ کر اُس کوزیادہ وقعت نہ دو۔

 اچھا آدمی تو اچھا ہی رہے گا بھلے آپ اُس کی عزت کرو یا نہ کرو۔اس لئے اُس کی عزت کرنا اتنا ضروری نہیں۔ میں نے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ دوسروں کو وہ کام کبھی نہیں کہنا چاہئے جو بندہ خود نہ کرتا ہو اسی لئے جوبندہ خود اپنی عزت نہ کرتا ہواُس کو کسی دوسرے سے بھی اپنی عزت کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بندے کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کون سا آدمی اپنی عزت کرتا ہے؟اُسی کی عزت کرنی چاہئے۔اگر کوئی آدمی اپنی عزت خودنہ کرتاہو تو اس کی عزت کرنے سے اس کو فرق نہیں پڑتا۔البتہ آپ کو فرق ضرور پڑ سکتا ہے اور بعض اوقات کسی کی عزت کر نے سے آپ کی نظر میں اپنی عزت کم ہو جاتی ہے۔شیخ سعدی ایک دعوت میں عام لباس میں چلے گئے تھے اور جا کے بہت پچھتائے تھے۔ پھر اچھا لباس پہن کے گئے تو ان کی بڑی عزت ہوئی تو انہوں نے کھانااپنے لباس کوکھلاناشروع کر دیا۔ایسے ہی مجھے بھی بعض اوقات لگتا ہے کہ اب ہمارے ہاں انسان کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہ گئی۔ہاں اگر بندے کے ساتھ کوئی سابقہ، لاحقہ لگاتو پھر اس کو معزز سمجھا جاتا ہے۔انسان بذات خود شاید اب ہمارے معاشرے میں عزت کے قابل نہیں گردانا جاتا اور ہمارے ہاں عزت کے معیار بہت ہی عجیب قسم کے ہو گئے ہیں۔فیض صاحب نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں پتھر باندھ دیے جاتے ہیں اور کتے آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔

ایسے ہی میرے خیال میں بعض اوقات معاشرے میں، جن باتوں کی وجہ سے آدمی کی عزت ہونی چاہئے، ان باتوں کی وجہ سے آدمی کوکمزورسمجھا جانے لگتا ہے اور جن باتوں کی وجہ سے معاشرے کو بندے کے بارے میں اپنا رویہ سخت کرنا چاہیے،ان باتوں کی وجہ سے بندے کی عزت ہونے لگتی ہے۔ایک شاعر نے کہا تھاکہ غلامی میں قوموں کا ضمیر بدل جاتا ہے اور جو بُراہواُسی کو خوبصورت تصورکیاجاتاہے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ غلامی میں تو ہماری قوم نے دنیا کے بہترین لوگ پیداکئے اور قوم کا جو اجتماعی ضمیر تھا شاید اُس وقت دنیا میں سب سے بہتر تھا۔ ہمارے اسلاف نے بہترین روایات چھوڑیں۔کردار کی عزت تھی مگرآج کل ہمارے ہاں عزت کے جو معیار بن گئے ہیں ان کو دیکھ کے بعض اوقات رونا آتا ہے۔آخر میں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیامیں ہماری عزت ہو اور تاریخ ہمیں اچھے الفاظ سے یاد کرے تو ہمیں اپنی عزت کرنے کے معیار اور طریقہ کار پر فورا نظرثانی کرنا ہوگی۔

مزیدخبریں