میری آنکھیں ہیں مرا سر ہے مرا موبائل
ایک گنجینہء داور ہے مرا موبائل
گھر کے بچوں کے لیے صرف کھلونے کی دکان
اور میرے لیے دفتر ہے مرا موبائل
یہ ہے مٹھی میں تو دنیا ہے مری مٹھی میں
فخر تیمور و سکندر ہے مرا موبائل
ایک سم سم میں رواں علم کےلاکھوں دریا
ایک کوزے میں سمندر ہے مرا موبائل
دیجئے حکم تو ہو چشم زدن میں تعمیل
جیسے عفریت کا ہمسر ہے مرا موبائل
یہ نہ ہو ساتھ تو لگتا ہے کوئی ساتھ نہیں
اور جہاں ساتھ مرے ، گر ہے مرا موبائل
اس کےپردےمیں چھپی بیٹھی ہےساری دنیا
جام جمشید سے بڑھ کر ہے مرا موبائل
بات کیجے کوئی پیغام رسانی کیجے
خوب قاصد ہے پیمبر ہے مرا موبائل
حسن کے ناز و ادا اور بڑھیں جس کے طفیل
ہر حسیں ہاتھ کا زیور ہے مرا موبائل
ایسےرستوں پہ جہاں خضربھی رستہ بھولے
میرا قائد ، مرا رہبر ہے مرا موبائل
جس کےکھلنے سے کھلے قفل در ہفت اقلیم
گنبد علم کا وہ در ہے مرا موبائل
اس کی طاقت کا زمانے کو نہیں اندازہ
ٹینک سے توپ سے بڑھ کر ہے مرا موبائل
شیخ کو قبلہ نما ، رند بلا نوش کو جام
طالب علم کو ٹیوٹر ہے مرا موبائل
کوئی انگشت سلیماں کوئی جادو کا چراغ
کوئی عفریت سراسر ہے مرا موبائل
میں کہاں ہوں مرےدشمن کو پتہ دےپل پل
میر قاسم ہے کہ جعفر ہے مرا موبائل
میرے اوقات کو کھاجاتاہے چپکے چپکے
گو نہ افعی ہے نہ اجگر ہے مرا موبائل
میری انگلی کےاشارے میرےچہرےکےنقوش
ان کا محتاط شناور ہے مرا موبائل
مجھکو رہ رہ کے دکھاتاہے ہوس کے منظر
کوئی ابلیس کی دختر ہے مرا موبائل
تجھکو معلوم ہے جنت سے نکالے ابلیس
تیری سرکار میں افسر ہے مرا موبائل
یہ مرے ذہن کو پڑھ لیتا ہے چپکے چپکے
کتنا بیباک ہے خود سر ہے مرا موبائل
اس میں کیاکیا ہےبتادوں تو شرافت جائے
ایک کوٹھے سے بھی بدتر ہے مرا موبائل
طالب خیر کو ہر خیر کا منبع لیکن
شر طلب ہو تو بڑا شر ہے مرا موبائل
خوف اللہ کا بزمی ہو تو ہے بات الگ
ورنہ شیطان کا لشکر ہے مرا موبائل
کلام :سرفراز بزمی (سوائی مادھوپور ،راجستھان ،بھارت )