وہ مری انا کے پرند سب، ترے دل دیار چلے گئے
ترے پاس دل مرا کیا گیا سبھی اختیار چلے گئے
کسی زعم کے ہیں اسیر سب، سو عجیب رنگِ سخن ہے اب
جنھیں پاسِ حرمتِ فن رہا، وہ غزل نگار چلے گئے
کہاں اب وہ مہر و وفا کی بوٗ، کہاں اب وہ صدق و صفا کی خوٗ
وہ وفا کی رسم چلی گئی، وہ وفا شعار چلے گئے
وہی اہلِ لطف و کرم کا غم، وہی قحطِ پرسشِ غم کا غم
مرے غم کے قہر کے خوف سے مرے غم گسار چلے گئے
کبھی جھانک غرفۂ ذات سے، کبھی پوچھ راہِ حیات سے
کئی خوش خرام گزر گئے، کئی شہسوار چلے گئے
کہاں اب وہ راغبِ خستہ جاں، کہیں اور اٹھّے گا اب دھواں
ترے کوئے قریۂ فخر سے ترے افتخار چلے گئے
کلام :افتخار راغبؔ (جدہ، سعودی عرب)