پاکستان کا اکثر تعلیم یافتہ طبقہ صرف مطالعہ پاکستان والی تاریخ جانتا ہے۔ خیال رہے تقسیم ہند سے قبل لفظ پاکستان نے عوامی مقبولیت بھی حاصل نہیں کی تھی، خاص طور پر اِندرون پنجاب، سندھ اور تمام بلوچستان بشمول صوبہ سرحد جہاں مسلم لیگ کی جڑوں کو بڑھنے ہی نہیں دیا گیا تھا صرف ضلع ہزارہ میں مسلم لیگ کا نام جانا جاتا تھا۔ لاہور،وسطی پنجاب کے بڑے شہروں اور پشاور شہر میں پاکستان کے نام سے لوگ ضرور مانوس ہو چکے تھے۔وہ بھی جب 1946 میں پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت جاگیر داروں اور مخدوموں کی حمائت سے بنوائی گئی۔ جب کہ انڈین کانگریس برِصغیر میں کئی دھائیوں سے مختلف ڈرامے بازیاں کر کے سوراج حاصل کرنے کی اپنی جدوجہد سے ہندوستانی عوام سے گہرا تعلق جوڑ چکی تھی، کبھی ستیہ گرہ، کبھی جیل بھرو تحریک سے، کبھی بدیشی مال بائیکاٹ کی مہم سے، کبھی خلافتِ عثمانیہ کی حمایت کا نعرہ لگا کر، کبھی بنگال میں ”نمک بناؤ“کی قانون شکنی کر کے، کبھی تحریک نافرمانی پر ُاکسا کر اور کبھیQuit India کا شور مچا کر۔ قائد اعظم اس قسم کی ”عوامی شعبدہ بازی“ کے قائل بھی نہیں تھے اور نہ ہی اُن کے ساتھی ایسا عوامی مزاج رکھتے تھے اور نہ ہی اُن میں برطانوی حاکموں سے ٹکر لینے کا جذبہ تھا۔ شیر بنگال فضل الحق عوامی مزاج ضرور رکھتے تھے، وہ بنگال کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ دو مرتبہ متحدہ بنگال کے وزیرِاعظم رہ چکے تھے۔ اس وقت صوبائی سربراہ کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ مولوی فضل الحق سے تمام مسلم لیگی لیڈر سنبھل کر بات کرتے تھے، قائدِاعظم بھی۔ جب تک سرمیاں محمد شفیع پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ رہے یعنی 1932 تک قائداعظم کی مسلم لیگ الگ مسلم لیگ سمجھی جاتی تھی، سر شفیع کی سربراہی میں پنجاب مسلم لیگ بہت طاقتور تھی اور 1927 سے خود مختار فیصلے کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب مسلمان اکثریتی بڑا صوبہ تھا۔ مشرقی بنگال کے لیڈر 1946 تک یہ ہی سمجھتے رہے کہ اُن کا صوبہ الگ آزاد ملک بنے گا۔ علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، میاں امیر الدین، میاں شاہ دین، سر شیخ عبدالقادر، یہ تمام پنجابی مسلم لیگی کے ساتھ تھے۔ قائداعظم اس اختلاف سے زچ ہو کر مسلم لیگ سے الگ ہو کر1930 میں ہندوستان سے لندن چلے گئے تھے اور وہاں اپنی وکالت کی پریکٹس شروع کر دی تھی۔وہ واپس 1934 میں آئے جب ان کا بڑا مخالف سر شفیع فوت ہو چکا تھا، علامہ اقبال نے فریقین کے اِختلافات ختم کئے۔ مسلم لیگ جو 1905/6 میں قائم ہوئی تھی اس کے فاؤنڈرز میں قائد اعظم نہیں تھے۔ البتہ موجودہ خطہ پاکستان کے سر کردہ افراد جو بمشکل 9یا10 تھے، نے مسلم لیگ کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کی تھی۔ سندھ سے رئیس غلام محمد بھرگری اور سر عبداللہ ہارون، پنجاب سے میاں شاہ دین، سر شفیع، علامہ اقبال، سر شیخ عبدالقادر، میاں فضل الحق، شیخ غلام صادق اور صوبہ سرحد سے صاحب زادہ عبدالقیوم خان (خان قیوم خان نہیں) اور ایک سیالکوٹ سے تھے اس کا نام یاد نہیں آ رہا۔
ہاں میں یہ ضرور بتا دوں کہ اس تاریخ کو جاننے کا اب فائدہ تو کوئی ہے نہیں،میں آپ کا وقت ہی ضائع کروں گا۔ میری ہندوستان کی تاریخ پڑھنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ مجھے اپنے CSS کے امتحان کے لئے تاریخ،جغرافئے کا وسیع مطالعہ کرنا پڑا۔ 1959 میں مقابلے کے امتحانات کا معیار MA لیول کا ہوتا تھا۔ میں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹر کیا ہوا تھا۔ لیکن میَں نے ہسٹری صرف میٹرک تک ہی پڑھی تھی، سچ پوچھیں تو مجھے اعلیٰ نوکری کے حصول کے لئے تاریخ اور جغرافیہ سے رغبت ہوئی تھی۔مجھے برٹش ہندوستان کی ہسٹری کے عمیق مطالعے کا بھی موقع ملا جب میَں لندن اپنے بینک کا کنٹری ہیڈ بن کر گیا۔ وہاں India Office Library میں وقت گذارنے کا بہت موقع ملا،تقسیم ِ ہند کے اصل عوامل معلوم ہوئے بلکہ کانگریس، مسلم لیگ اور ہندوستان کے اس دور کے بڑے سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کے بارے میں وائسرائے ہند کی خفیہ رپورٹس کا بھی پتہ چلتا ہے جو حکومتِ برطانیہ کو بھیجی گئی تھیں۔ کس لیڈر نے برطانوی راج سے اندرونی طور پر تعاون کیا، کس نے سخت روّیہ اختیار کیا۔ قائداعظم کو کس طرح Partition کے لئے راضی کیا گیا۔قائداعظم کو کئی معاملات پر راضی کرنے میں سکندر/ جناح پیکٹ سے کیا فائدہ ہوا؟ قائد اعظم کو 1940 کا لاہور کا بڑا جلسہ کرنے کا سہولت کار سر سکندر حیات تھا جو برٹش حمائت یافتہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ تھا۔ مسلم لیگ بطور ایک سیاسی جماعت انگریزی حکومت کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھی بلکہ ہر وائسراے سے تعاون کرتی چلی آئی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کی برطانیہ کو ضرورت تھی جو مسلم لیگ ہی پوری کر سکتی تھی اور جس طریقے سے کٹا پھٹا پاکستان وجود میں آیا یہ بھی برطانیہ کی ضرورت تھی۔ علامہ اقبال برطانیہ کو Tough time دے سکتے تھے لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی کہ علامہ 1937 میں بیمار ہوئے اور 1938 میں انتقال کر گئے۔ اگر وہ حیات ہوتے تو قرارداد لاہور 1940 کے متن میں جو ردوبدل کیا گیا وہ کبھی نہ ہوتا۔ ایسٹ پاکستان پہلے روز سے ہی بنگلہ دیش ہوتا اور آج ہمارا مضبوط حمائتی ہوتا۔یہ دھوکا دھی بنیاد بنی 1971 کی ذلت آمیز فوجی شکست کی۔ قرارداد لاہور میں 24مارچ 1940 کو بنگال کے مولوی فضل الحق نے جو پیش کیا تھا اُس میں لفظ مُسلم اسٹیٹس لکھا گیا تھا لیکن اس قرارداد میں خاموشی سے State(s) کا”ایس“ ختم کر دیا گیا اور یوں صرف Muslim State بنا دیا گیا اور اس طرح بنگلہ دیش کو 1947میں ہی ایسٹ پاکستان بنا دیا گیا۔
ایک بات اور بتادوں چار/پانچ مختلف وائسرائے کی پختہ رائے تھی کہ شمالی ہندوستان کے مسلمان برطانوی راج سے قبل ہی ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے تھے۔ شمال مغربی ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے مسلمان مکمل طوپر اطاعت گذارسمجھے جاتے تھے۔ انگریز جانتا تھا کہ یہاں کے لیڈر برطانوی مفادات کے خلاف کبھی نہیں جائیں گے۔ جب میں نے India Office Library میں کئی کئی گھنٹے گزارے تومیرا اِرادہ کسی قسم کا ریسرچ سکالر بننا نہیں تھا اور نہ میرے گمان میں تھا کہ مجھے کسی اخبار کے لئے لکھنے کا موقع ملے گا۔ (ختم شد)