ماہ میلاد، سیاسی حالات اور ڈاکٹر ذاکر نائیک

Sep 28, 2024

سرور حسین

سوشل میڈیا پر اس بار مختلف ممالک میں ہونے والے میلاد النبیؐ کے جلوس اور اس مبارک مہینے کے حوالے سے منعقد کی جانے والی شاندار تقاریب کافی زیادہ دیکھنے کو ملیں جنھیں دیکھ کر بہت طمانیت  محسوس ہوئی کہ دنیا بھر میں اہل ایمان کی اکثریت ماہ میلاد کو شاندار انداز سے منانے کا اہتمام کرتی ہے اور یہ سلسلہ ہر آنے والے سال میں بڑھتا جا رہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں ان دنوں سیاسی افراتفری کا ماحول پھر گرم ہونے کے سبب ماہ میلاد کی حکومتی سطح پر روٹین کی تقریبات جن میں قومی و صوبائی سیرت کانفرنسز، رنعتیہ مقابلہ جات تو ہوئے لیکن اس مبارک مہینے کا جو رنگ حکومتی سطح پر پاکستانی دیکھنا چاہتے ہیں وہ دکھائی نہیں دیا۔ اقتدار کی کشمکش،  سیاسی عدم استحکام اور آئینی ترامیم کے شور شرابے نے ایک بار پھر وہی صورت حال پیدا کر دی ہے جس نے  ایک عرصے سے خیر کا ہر راستہ دھندلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف جلسے جلوسوں کا اعلان  اور دوسری طرف انھیں ہر طرح سے روکنے کے وہی پرانے ہتھکنڈوں کا استعمال  جس کا اثر بہر حال عام آدمی پر ہی پڑتا ہے۔موبائل سروس میں تعطل،انٹر نیٹ کی غیر اعلانیہ بندش اور راستوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے پورا نظام زندگی متاثر ہو جاتا ہے۔دوسری طرف کہیں کہیں ہماری اپنی کج فہمیاں ، وقت اور حالات سے  نابلد ہو کر کئے گئے فیصلے بھی ہمارے لئے مسائل کا سبب  بن جاتے ہیں۔ آج کل ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کے صاحبزادے کی سرکاری دعوت پر پاکستان آنے کے چرچے ہیں اور ہر طرف اس  پر شور برپا ہے۔ اگر کسی ناسمجھ مشیر کی طرف سے لوگوں کی توجہ حالات اور جلسے جلوسوں سے ہٹائے جانے کے لئے  ان کو بلانے کا مشورہ دیا گیا ہے تو یہ  بہت مضحکہ خیز ہے جس کے اثرات آنے والے دنوں میں بخوبی محسوس کئے جا سکیں گے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک بلا شبہ تقابل ادیان کے بہترین عالم ہیں  اور اس موضوع پر ان کی ذہانت   اور علم سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان تقابل ادیان نہیں بلکہ تقابل مسالک کی سرزمین ہے۔یہاں کے اکثریتی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے شدید اختلافات ہیں  جو وہ رسالت مآبؐ کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت انہیں میلاد النبیؐ کے مہینے میں ”قومی سیرت کانفرنس“ میں مدعو کرتی اور ان سے اسی موضوع کی اہمیت اور افادیت پر گفتگو کرنے کے لئے کہا جاتا۔ اب جب کہ یہ مبارک مہینہ بھی اختتام پذیر ہو چکا تو اس  وقت اس پریکٹس کو بے وقت اور غیر موزوں  ہی کہا جائے گا جس کے پیچھے اور ہی مقاصد دکھائی دے رہے ہیں۔میں اس وقت ساؤتھ افریقہ کے شہر ڈربن میں ہوں جہا ں افریقن مسلمانوں کی طرف سے اس ملک کا سب سے بڑا میلاد منعقد ہوتا ہے جس میں طول وعرض سے مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ افریقہ کی مسلم کمیونٹی کی طرف سے ہونیو الی یہ سب سے بڑی تقریب  ہے جس میں پاکستان کی نمائندگی میرے لیے باعث اعزاز و شرف ہے۔ یہ لوگ اردو کو بہت زیادہ نہ جاننے کے باجود اس زبان سے عشق رکھتے ہیں اور نعت  اردو میں ہی سننا پسند کرتے ہیں۔ ان کا جوش وخروش اور وارفتگی دیدنی ہے کہ یہ اپنے نبیؐ کی محبت میں سرشار ہو کر میلاد کی خوشی مناتے ہیں۔رات کو محفل نعت اور اگلے دن بیان سیرت و مناقب اولیاء کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ لوگ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام سے بھی خاص عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ان کے ذکر پر ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں۔ یہاں اسلام کی تبلیغ کے لیے آنیو الے بزرگوں کے ساتھ خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد کی خبر یہاں بھی پہنچی ہے جس پر مجھ سے بھی سوال کیا جا رہا تھا کہ  ہم تو پاکستان کو خوش عقیدگی  اور محبت رسول کریم ؐ کے بنیادی مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ان کو وہاں کیوں بلایا گیا ہے کہ ان کے عقائد و نظریات کی گونج یہاں کے مسلمانوں تک بھی پہنچی ہوئی ہے۔افریقہ میں میلاد النبیؐ کی تقریبات کی رونق کو دیکھتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اسلامی ممالک کے سربراہان ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ ہر سال کسی ایک اسلامی ملک میں میلاد کے حوالے سے بین الاقوامی سطح  کی تقاریب کا اہتمام ہو جس میں مسلم ممالک کے سربراہان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے حکمرانوں کو بھی مدعو کیاجائے جس سے ایک طرف پیغمبر اعظمؐ کی شخصیت کا آفاقی پہلو اجاگر ہو اور دوسری طرف دنیا کے سامنے یہ پیغام بھی جائے کہ رسول انسانیت  کا مقام و مرتبہ عمومی انسانی قدروں سے کس قدر ماورا ہے جس کے حوالے سے آئے دن مغرب میں  اظہار رائے کے نام پر کوئی  نہ کوئی فتنہ کھڑا کر دیا جاتا  ہے۔اسے بین الاقوامی سطح پر  منایا جائے اور جس اسلامی  ملک میں ”میلاد ائر“ منایا جائے اس کی تقریبات میں دنیا بھر سے مسلمان  جمع ہو کر  اسے ایک عالمگیر ایونٹ بنا سکتے ہیں۔مغربی دنیا اگر  کھیلوں کے نام پر  مختلف ممالک میں اس کا اہتمام کر کے دنیا کو اکٹھا کر سکتے ہیں  تو اسلامی ممالک میں جشن میلاد بین الاقوامی سطح پر منا کر کیوں اہل اسلام کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔ستاون اسلامی ممالک میں کسی ایک ملک کی اگلی باری آدھی صدی کے بعد آئے گی اس لیے یہ ہر سال ایسے  شایان شان طریقے سے منایا جا سکتا ہے کہ مغرب میں اٹھنے والے چھوٹے چھوٹے فتنوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی اور ہماری نسلیں جو دین اور اپنے نبی سے دور ہو رہی ہیں یہ ایونٹ انہیں بھی واپس لانے میں بہت معاون ہو سکتا ہے۔اللہ کرے کہ ہماری آنکھیں وہ منظر دیکھ سکیں کہ سارے اسلامی ممالک کے سربراہان دیگر اقوام عالم کے حکمرانوں کیساتھ کھڑے ہو کر انسانیت کے سب بڑے محسن، سب سے بڑے مربی، سب سے بڑے رہبر اور سب سے آخری رسولؐ کی ولادت باسعادت  کا جشن منا رہے ہوں۔ آمین 

مزیدخبریں