اندر داخل ہوتے ہی خوابناک سے ماحول کا احساس ہوا،ہر طرف مجسموں اور فرعونوں کے مقبروں سے نکالا ہوا سامان تھا، خوف سے سرد سی لہر دوڑ جاتی تھی

Sep 28, 2024 | 09:54 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:14
 تب ہی ہٹو بچو کا شور ہوا اور یکدم عمارت کا مرکزی دروازہ کھلا اور ساتھ ہی ٹکٹ گھر کی کھڑکی بھی کھل گئی۔سیاحوں کو اشارے سے بلا کر 2 گروپوں میں بانٹ کر الگ الگ قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا۔ ایک غیر ملکی سیاحوں کی قطار تھی اوردوسری مقامی باشندوں کی۔ جو ٹکٹ ان مقامی مصریوں کو 2 پونڈ میں ملا، ہم سے اس کے 20 پونڈ وصول کئے گئے جو یقینا ایک بہت بڑی رقم تھی، مگر یہ ان کی مقررہ قیمت تھی اور غیر ملکی سیاح بخوشی یہ ادا کرتے تھے، کیونکہ جو کچھ یہاں تھا کہیں اور نہیں تھا۔
اندر داخل ہوتے ہی ایک خوابناک سے ماحول کا احساس ہوا۔ جس میں ہر طرف مجسموں اور فرعونوں کے مقبروں سے نکالا ہوا سامان ایک ترتیب سے رکھا گیاتھا۔ کم روشنی سے ماحول کو اور بھی زیادہ پُراسرار بنا دیا گیا تھا۔ کبھی کبھی انجانے خوف سے ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی تھی۔ عمارت میں مختلف سیکشن بنے ہوئے تھے، کہیں ہزاروں برس پرانے سکے ایک ترتیب سے شو کیسوں میں رکھے ہوئے تھے، تو کہیں یونانیوں کی مشروباتی صراحیاں اور جام۔ اسی طرح دیواروں پر قدیم مصری زمانے کے مختلف ادوار کی زبانوں کے طغرے لگے ہوئے تھے۔ قدم قدم پر ڈھیلی اور غیر متاثر کن وردی میں ملبوس سست الوجود لیکن مسلح محافظ موجود تھے۔ کیونکہ ہر طرف بہت ہی قیمتی اشیاء اور نوادرات بکھرے ہوئے تھے۔ جن میں سنہری کرسیاں، سونے کے بنے ہوئے پلنگ، سونے چاندی اور ہیروں سے مزین برتن، زیورات اور سب سے بڑھ کر بادشاہوں کی قبروں سے برآمد کئے گئے سونے کے تابوت جن میں سینکڑوں کلو سونا استعمال ہوا تھا۔
ان ہی میں ایک جواں مرگ فرعون بادشاہ توتنخامون (King Tut) کا ایک اندرونی تابوت بھی رکھا ہوا تھا جس میں تقریباً 110 کلو گرام خالص اور ٹھوس سونا استعمال ہوا تھا اس کے علاوہ اس کے چہرے کے لئے بنایا جانے والا ایک خصوصی نقش مرگ یعنی  (Death Mask)بھی تھا جو کوئی دس پندرہ کلو گرام سے کم کیا ہو گا اور ان دونوں کی موجودہ قیمت کروڑوں میں ہو گی۔ اس کی ممی کے ساتھ رکھے ہوئے ہیرے جواہرات اس کے علاوہ تھے۔ یہی حال اس کے مقبرے سے ملنے والی دیگر اشیاء کا تھا۔ سونے کی پتریوں سے بنی ہوئی ایک چھوٹی عبادت گاہ بھی موجود تھی جس میں ایک طلائی کرسی، پلنگ اور کچھ نہانے اور بیٹھنے کی چوکیاں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں۔ بلامبالغہ آدھا عجائب گھر توصرف اسی کنگ توت کے مدفن سے نکالے جانے والے سازو سامان پر مشتمل تھا۔
اب مصیبت یہ تھی کہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والے یہ چلتے پھرتے محافظ کسی بھی سیاح کو دیکھ کر دبے قدموں سے اس کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتے اور پھر ایک دم پہلو میں آ کر بغیر کسی فرمائش کے خود ہی وہاں رکھی ہوئی اشیاء کی تفصیل اور تاریخ اپنی ٹوٹی پھوٹی توتلی انگریزی میں بیان کرنا شروع کر دیتے تھے۔ جس کا ایک لفظ بھی شاید ہی سمجھ آتا ہو۔ اپنے سیکشن کے اختتام پر وہ محافظ کچھ بخشش وصول کرتا، شکریہ ادا کرتا اور انتہائی ذمہ داری اور ایمانداری سے بے بس سیاح کو اگلے سیکشن کے محافظ کو سونپ دیتا اور ایسا کرتے ہوئے وہ اسے آنکھ مارنا نہیں بھولتا تھا۔
جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، ان محافظوں کا رویہ جارحانہ ہوتا گیا، وہ ہر قیمت پر سیاحوں کو اپنے بے پایاں علم سے فیضیاب کرنے پر تلے رہتے۔ اب اگر آپ اس محافظ سے بچ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو وہ بھی اتنی ہی سرعت سے مخالف سمت سے گھوم کر ایک بار پھر الہٰ دین کے جن کی طرح عین آپ کے سامنے نمودار ہو جاتا اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیتا جہاں آپ ختم کرکے بھاگے تھے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ عجائب گھر کا سارا حفاظتی عملہ سکیورٹی کا اصلی کام چھوڑ کر سیاحوں کو فرعونوں کی تاریخ بیان کرنے پر مامور ہوگیا ہو۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں