بادبانی جہاز ایک مہینہ سمندر میں سفر کرتا رہا۔ اندلس کا آدھا سمندری راستہ طے ہوگیا تھا۔ جہاز پر مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ اس پر مال زیادہ لدا ہوا تھا۔ سمندر ابھی تک پرسکون تھا اور کوئی طوفان نہیں آیا تھا۔ ایک رات چاندنی چٹکی ہوئی تھی سمندر کی لہریں چاندنی میں نہارہی تھیں۔ بادبانی جہاز بڑے سکون سے ڈولتا ہوا سمندری موجوں کو چیرتا آگے چلا جارہا تھا عرشے پر مسافر ادھر ادھر پڑے گہری نیند سورہے تھے۔ میں نے رسوں کے پاس رکھا ہوا مٹکا اٹھایا اور اسے عرشے کے جنگلے کے پاس لے آیا تاکہ وہاں سے اسے سمندر میں پھینک دوں۔ جہاز کے عرشے پر اس وقت سوائے میرے دوسرا کوئی انسان ایس انہیں تھا جو جاگ رہا ہو۔ رات آدھی سے زیادہ گزرچکی تھی۔ میں مٹکے کو اٹھائے جہاز کے عقبی حصے میں آگیا یہاں سمندر کی لہریں بڑی تیزی سے جھاگ اڑاتی پیچھے کی طرف جارہی تھیں۔ میں نے مٹکے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ مٹکا ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ سمندری لہروں پر جاکرگرا۔ اس کے گرتے ہی مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے کسی نے پیچھے سے مجھے اوپر کو اچھال دیا ہو اور قلابازیاں کھاتا دھڑام سے سمندر میں آن گرا۔ میں اپنے ہی زور میں پانی میں نیچے تک چلا گیا۔ جب دوبارہ سمندر کی طرح پر ابھرا تو جہاز مجھ سے کافی دور جاچکا تھا اس کے عقبی حصے میں جلتی ہوئی مشعل میری آنکھوں سے دور ہورہی تھی۔ مجھے سانپ کی پھنکار سنائی دی۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ ناگن والا مٹکا میرے قریب ہی سمندری لہروں میں تیرتا چلا جارہا تھا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 150 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ناگن مٹی کے مٹکے میں بند تھی۔
وہ کالے سانپ کی شکل میں تھی اور اسے عورت کے روپ میں دیکھنے کے بعد مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوچکا تھا کہ وہ اصل میں مادہ سانپ ہے مگر پانچ سو برس تک زندہ رہنے کے بعد اس میں اتنی طاقت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوسکتی تھی۔ میں اس حقیقت سے بھی باخبر تھا کہ خود اس پر میری اپنی خفیہ طاقت کا راز بھی کھل گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کالی گھاٹ کے نوجوان گوسوامی کو ڈسنے سے پہلے اس نے انسانی شکل میں آکر مجھ سے فرمائش کی تھی کہ میں اس کے راستے میں نہ آؤں اور گوسوامی کو ڈسنے دوں کیونکہ گوسوامی نے اس کے نرساپ کو ہلاک کردیا تھا، لیکن میں نے ایک نوجوان کی جان بچانا اپنا فرض سمجھا اور ناگن کو پکڑ کر مٹکے میں بند کردیا۔
میں اسے ساتھ لئے اندلس کی طرف جارہا تھا، خیال تھا کہ بیچ سمندر میں ناگن والا مٹکاگرادوں گا۔ جب میں نے مٹکا سمندر میں گرایا تو مجھے ایک دھکا سا لگا اور مٹکے کے ساتھ میں بھی سمندر میں گر پڑا۔
اب ناگن والا مٹکا مجھ سے تھوڑی دور سمندر کی موجوں پر بہاجارہا تھا۔ یہ بات میرے لئے حیرت کا باعث تھی کہ اچانک مجھے دھکا کس نے دیا؟ کیا یہ ناگن کی خفیہ طاقت کا کرشمہ تھا، بہرحال میں سمندر میں بہا جارہا تھا۔ جس بادبانی جہاز میں سوار تھا، اس کے عقبی حصے میں جلتی مشعل کی روشنی اب مجھے دور افق پر جھلملاتے ستارے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد یہ جھلملاتا ستارہ بھی غائب ہوگیا اور سمندر پر رات کی تاریکی نے اپنی چادر پھیلادی۔ اس کے باوجود میں کچھ فاصلے پر ناگن والے مٹکے کو لہروں پر ڈوبتے ابھرتے دیکھ رہا تھا۔ میرے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ آسمان پر ستارے نکل آئے تھے، لگتا تھا وہ بھی میری بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے مجھے ایک نامعلوم مدت کے لئے موت سے محفوظ کردیا تھا مگر جس صورتحال سے میں اس وقت دوچار تھا اس میں زیادہ دیر تک نہیں رہنا چاہتا تھا۔ یعنی ایک بیکراں سمندر۔۔۔ رات کی تاریکی ہے اور بڑی بڑی سمندری موجیں مجھے بہائے لئے جارہی ہیں۔ کچھ دور تک مجھے ناگن کا مٹکا دھندلا دھندلا سا نظر آتا رہا، پھر وہ بھی میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
میں کسی برق رفتار لہر کے انتظار میں تھا تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ بہاتی ہوئی کسی براعظم تک پہنچادے۔
قطبی ستارہ نکل آیا تھا، اس سے مجھے راستے کی سمت کا اندازہ ہورہا تھا۔ میں شمال مغرب کی سمت جارہا تھا، سمندر میں بہنے کا اندازہ کچھ ایسا تھا کہ ایک ٹیلے جتنی بلند لہر مجھے اٹھا کر اوپر لے جاتی اور پھر دوسری لہر کے حوالے کرکے نیچے نکل جاتی کسی وقت مجھے احسا سہوتا کہ میں ایک ہی جگہ پر گردش کررہا ہوں اور کسی بہت بڑے سمندری بھنور کی گرفت میں ہوں۔ ناگن والا مٹکا خدا جانے کدھر کا کدھر نکل کر چلا گیا تھا۔ سمندری پانی کے بھاری ہونے کی وجہ سے میرا سر پانی سے باہر تھا۔ پانی کے اندر بھی ہوتا تو بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اسی طرح سمندر کی موجوں پر بہتے بہتے ساری رات گزرگئی۔
مشرق میں سورج کی سنہری روشنی کا سیلاب طلوع ہوا، ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوگئی، میرا رخ شمال مغرب کی طرف ہی تھا۔ سورج میرے عقب میں تھا۔ یہ بات خوش آئندہ تھی۔ اس طرح پانی میں بہتے بہتے میں اندلس کی کسی بندرگاہ تک پہنچ سکتا تھا۔ زمین کا دور دور تک کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ اچانک میرے پاؤں پانی کے اندر کسی شے سے ٹکرائے۔ پہلے میں سمجھا کہ شاید سمندر کے نیچے کوئی چٹان ہے۔ میں نے پاؤں لٹکادئیے۔ یہ جگہ سخت نہیں تھی۔ پ ھر کسی نے مجھے اوپر اٹھادیا۔ اب جو دیکھتا ہوں تو میں ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی پہاڑ جیسی کمر پر سوار ہوں۔ میں بیٹھ گیا۔ وہیل مچھلی دیو پیکر تھی۔ شاید اسے بھی اپنے اوپر کسی انسان کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا۔ اس نے سمندر میں ڈوبنا ابھرنا شروع کردیا۔ میں اس کے جسم کے ساتھ چمٹ گیا۔ میں اسی طرح وہیل مچھلی پر سوار ہوکر سمندر کا سفر تیزی سے طے کرنا چاہتا تھا۔ دیو پیکر وہیل مچھلی کا رخ تھوڑا سا جنوب مغرب کی طرف ہوگیا تھا۔ وہیل مچھلی مجھے اپنی کمر سے گرانا چاہتی تھی۔ وہ بار بار سمندر میں غوطہ لگاجاتی اور جب سطح پر ابھرتی تو زور سے جسم کو جھٹکا دیتی۔ میں اس کی کمر سے چمٹا رہا۔ وہیل مچھلی بڑی تیزی سے آگے بڑھتے جارہی تھی۔ میرا یہ خطرناک سمندری سفر کوئی ایک پہر تک جاری رہا۔ پھر وہیل مچھلی میرے نیچے سے نکل کر سمندر میں ڈوبتی ابھرتی غائب ہوگئی۔ میں ایک بار پھر لہروں کے رحم و کرم پر تھا۔
دن گزرگیا۔ ایک بار پھر رات آگئی۔ سمندر کو اندھیروں نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ رات گزرگئی۔ تیسرا دن اور تیسری رات بھی اسی طرح سمندر میں بہتے بہتے گزرگئی۔ مجھے سمندر میں بہتے چوتھا دن تھا۔ دوسرے پہر کا وقت ہوگا کہ مجھے پہلی بار سمندر میں ایک ٹہنی تیرتی نظر آئی۔ یہ ناریل کی ٹہنی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھی کہ کوئی جزیرہ قریب ہے، کچھ ناریل بھی تیرتے ہوئے میری طرف آگئے۔ میری نگاہیں دور افق پر جمی تھیں۔ تیسرے پہر دور ایک سیاہ دھبہ سا دکھائی دیا جو آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا۔ سمندری لہروں کا رخ اسی سیاہ دھبے کی طرف تھا جو یقیناًکوئی جزیرہ تھا۔ سورج مغربی افق کی جانب جھک رہا تھا کہ سمندر کی لہروں نے مجھے ایک جزیرے کی ساحلی ریت پر لاپھینکا۔ ساحل پر ڈوبتے سورج کی سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ایک ویران، اجاڑ جزیرہ تھا۔ ساحل سے کوئی پچاس قدموں کے فاصلے پر ناریل اور عجیب عجیب قسم کے بلند و بالا گنجان درختوں کے جھنڈ ہی جھنڈ تھے۔ میں کچھ دیر وہیں ساحلی ریت پر چت لیٹا رہا۔ پھر اٹھا اور درختوں کی طرف آگیا۔ جزیرے میں کہیں کوئی آبادی نہیں تھی۔ سارا جزیرہ ویران پڑا تھا۔ گھنے درختوں پر کچھ پرندے ضرور بول رہے تھے۔ جنوب کی طرف ساحل سمندر پر دو چھوٹی چھوٹی بھوری چٹانیں پانی سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ ریت پر کسی جانور کے پاؤں کے نشان نہیں تھے۔ رات کو سردی ہوگئی۔ جزیرے پر موت کا سناٹا چھاگیا۔ کچھ دیر تو میں سمندری چٹان کے پہلو میں ریت پر بیٹھا رہا۔ پھر جنگل میں آکر ایک گنجان درخت کے نیچے اس کے تنے سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا اور سوچنے لگا کہ یہ کون ساجزیرہ ہوسکتا ہے۔ سمندر میں کسی مقام پر واقع ہے اور یہاں سے کون سا ملک قریب ہوگا اور یہاں سے میں کس طرح نکل سکوں گا۔ رات گہری ہوتی چلی گئی۔ سارے کا سارا جزیرہ سکوت کی گہرائیوں میں ڈوب گیا تھا۔ کوئی ہلکی سے ہلکی آواز بھی کسی طرف ابھرتی سنائی نہیں دیتی تھی۔(جاری ہے)