اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 152
میرے اندازے کے مطابق رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی کہ مجھے اپنی بائیں جانب ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ میں نے اندھیرے میں آنکھیں کھول کر دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ ایک جھاڑی کی شاخ سانپ کی طرح رینگتی میری جانب بڑھ رہی تھی۔ پہلے تو میں نے اسے سانپ خیال کیا لیکن اس پر کانٹے اور چھوٹے چھوٹے پتے تھے۔ یہ آدم خور جھاڑی کی شاخ تھی۔ میں نے پیچھے ہٹ کر اپنا ہاتھ شاخ کی طرف کیا تو شاخ کسی سانپ کی طرح میری کلائی پر لپٹ گئی۔ میں نے اسے توڑ کر پھینکا تو مجھے ایسے لگا جیسے آدم خور جھاڑی نے ایک تکلیف دہ آہ بھری ہو میں وہاں سے اٹھ کر ایک دوسرے درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گیا۔ اب جھاڑی کی دوسری شاخ نے اندھیرے میں میری طرف رینگنا شروع کردیا۔ اس آدم خور جھاڑی کو میری بو آرہی تھی۔ میں درختوں کے اس ذخیرے سے نکل کر ساحل کی طرف بڑھنے لگا۔ درختوں کی شاخیں میرے چہرے کو چھورہی تھیں۔ میں انہیں ہاتھوں سے پیچھے ہٹاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ ابھی میں ساحل سے دور تھا لیکن درختوں کے تنوں کے بیچ میں سے مجھے نیلی رات کی پھیکی روشنی میں سمندر کی ایک دھندلی سی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ میں درختوں کے جنگل سے نکل کر کھلے ساحل پر آیا تو ایک دم سے وہیں رک گیا۔ ساحل سمندر پر ایک چھوٹی سی کشتی کھڑی تھی۔ میں حیران ہوا کہ اس ویران جزیرے پر آدھی رات کو کون آیا ہے؟ میں پیچھے کی طرف سے چل کر کشتی کے پاس آگیا۔ کشتی میں چپو پڑے تھے۔ کشتی درخت کے تنے کو کھوکھلا کرکے بنائی گئی تھی۔ ساحل کی گیلی ریت پر انسانی قدموں کے نشان بھی تھے جو جنوب کی سمت بھوری چٹان کی طرف جارہے تھے۔ میں نے جھک کر دیکھا، ریت پر چار پانچ انسانی قدموں کے نشان تھے جو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہورہے تھے۔ میں نے نگاہیں اٹھا کر دور بھوری چٹان کی طرف دیکھا۔ وہاں مجھے چٹان کے عقب میں روشنی کی ایک جھلک نظر آئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے جلتی ہوئی مشعل اٹھارکھی ہے میں قدموں کے نشان سے تھوڑا پرے ہٹ کر چٹان کی طرف بڑھا، قریب پہنچا تو انسانی آوازیں سنائی دیں۔ میں چٹان کی اوٹ میں آگیا اور ابھرے ہوئے پتھروں کو پکڑ کر آہستہ آہستہ چٹان پر چڑھنے لگا۔ اوپر پہنچ کر میں چٹان پر اوندھے منہ لیٹ گیا اور تھوڑا سا کھسک کر نیچے دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پندرہ سالہ لڑکے کی مشکیں کس کر زمین پر لٹا رکھا ہے اور دو جنگلی آدمی اس پر سوکھی شاخین اور گھاس ڈال رہے ہیں۔ ایک جنگلی ہاتھ میں مشعل لئے قریب کھڑ اہے۔ ایک جنگلی ہاتھ میں بھالا لئے لڑکے کے سر کی طرف آیا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کا اشارہ کیا اورمشعل بردار جنگلی نے درختوں کی شاخوں اور گھاس کو آگ لگادی۔ اس کے ساتھ ہی لڑکے کی چیخ بلند ہوئی۔ یہ لوگ اس لڑکے کو زندہ نذر آتش کررہے تھے۔ میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر چٹان کے اوپر سے چھلانگ لگادی۔ میں ایک جنگلی کے عین اوپر گرا۔ باقی جنگلی حیرت سے مجھے تکنے لگے کہ یہ آسمانی بلاں کہاں سے نازل ہوگئی۔ میں پاؤں کی مدد سے جلدی جلدی جلتی ہوئی شاخیں اور گھاس ادھر ادھر کرنے لگا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 151 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جنگلیوں نے مجھ پر ہلہ بول دیا اور تیر سن کی آواز کے ساتھ سیدھے میرے پیٹ اور گردن پر آکر لگے۔ میری بجائے کوئی دوسرا انسان ہوتا تو ان تیروں نے اس کا کام تمام کردیا ہوتا لیکن تیر میرے جسم سے ٹکرانے کے بعد نیچے گر پڑے۔ تیروں کی دوسری بوچھاڑ آئی۔ جس جنگلی پر میں گرا تھا وہ بھالا لے کر میری طرف بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ میری طرف حملہ کرتا، بائیں جانب سے ایک بھالا میری کمر کے ساتھ زور سے ٹکرا کر اچٹتا ہوا پرے جاگرا۔ جنگلی ششد تھے کہ مجھ پر تیروں اور بھالوں کا اثر کیوں نہیں ہورہا۔ میں نے حلق سے ایک چیخ نما آواز نکالی زمین سے بھالا اٹھا کر مشعل بردار جنگلی کی طرف لپکا۔ وہ اچھلا اور بھاگ کھڑا ہوا اسے بھاگت دیکھ کر دوسرے جنگلی بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ میں جلدی جلدی جلتی شاخوں کو پاؤں سے بجھانے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ مجھے سب سے پہلے ساحل پر کھڑی کشتی پر قبضہ کرنا چاہیے تھا لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔ جنگلی بڑی تیزی سے بھاگتے ہوئے کشتی میں سوار ہوگئے تھے اور کشتی کو ساحل سے دور لے جارہے تھے۔ میں نے بندھے ہوئے لڑکے کی رسیاں کھول دیں۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا جس کے جسم پر صرف ایک لنگوٹ تھا۔ لمبے بال بکھرے ہوئے تھے۔ جسم پر نیلے رنگ کا کوئی روغن ملا تھا جو ستاروں کی روشنی میں چمک دے رہا تھا۔
لڑکا پھٹی پھٹی مگر شکر گزار نگاہوں سے مجھے تک رہا تھا، میں بھی اسے تک رہا تھا۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ اس کے ساتھ کس زبان میں بات کروں۔ اس خیال سے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ جزیرہ اندلس کے قریب ہو، میں نے اس سے قدیم اندلسی زبان میں پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہ لوگ اسے زندہ نذر آتش کرنے یہاں کیوں لائے تھے؟ لڑکے کے چہرے پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے اپنی زبان میں مجھے بتایا کہ وہ ملا کی قبیلے کے سردار کا بیٹا راجس ہے۔ یہ دشمن قبیلے کے لوگ تھے جو اس کے باپ سے بدلہ لینے کے لئے اسے زندہ جلانے کے لئے اغوا کرکے اسی جزیرے پر لے آئے تھے۔
’’سانچو! اگر تم نہ آتے تو میں آگ میں زندہ جل گیا ہوتا۔ تم کوئی دیوتا ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تم پر تیروں کی بارش اور بھالوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تم ضرور اس جزیرے کی روح ہو۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ نہ میں دیوتا ہوں اور نہ اس جزیرے کی روح ہوں بلکہ ایک مسافر ہوں۔ اندلس جارہا تھا کہ جہاز سے سمندر میں گر پڑا اور اس جزیرے پر پہنچ گیا لیکن اسے میری بات کا یقین نہیں آرہا تھا، مجھے یقین دلانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم اس ویران جزیرے سے کس طرح نکل سکتے ہیں۔ وہ بولا
’’میرے باپ کے آدمی میری تلاش میں ہوں گے۔ وہ دو ایک روز میں یہاں بھی مجھے تلاش کرتے پہنچ جائیں گے۔ اگر وہ نہ آئے تو میرا بیٹا لاچی آجائے گا۔‘‘
’’تمہارا بیٹا؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا ’’کیا اتنی چھوٹی سی عمر میں تمہارا بیٹا بھی ہے۔‘‘
وہ ہنسا کہنے لگا ’’میں لاچی کواپنا بیٹا ہی کہتا ہوں۔ وہ سفید عقاب ہے۔ میں نے اسے پالا ہے۔ وہ میری تلاش میں اس جزیرے پر ضرور آئے گا۔ اسے میری خوشبو آجاتی ہے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا لیکن دل میں یہ امید ضرور بندھ گئی کہ اس نوجوان لڑکے کا باپ قبیلے کا سردار ہے اور وہ اپنے بیٹے کا کھوج لگانے اپنے آدمیوں کو ادھر ضرور بھیجے گا۔ را جس کی زبانی یہ بھی معلوم ہو اکہ ان کا جزیرہ وہاں سے کشتی میں ایک دن کے فاصلے پر ہے۔ رات ہم نے وہیں چٹان کے پاس گزاری۔ صبح ہوئی تو ہم جنگل میں چلے گئے۔ راجس درختوں، جھاڑیوں سے خوب واقف تھا۔ وہ ہرن کی طرح جنگل میں کلیلیں بھرتا پھرتا تھا۔ وہ کہیں سے ایک بڑے چکوترے جتنا جنگلی پھل تور کر لے آیا۔ یہ بڑا میٹھا اور رس دار تھگا۔ میں نے بھی اس کے ساتھ پھل کھایا۔ ناریل توڑ کر اس کا میٹھا پانی پیا۔ میں اس پر اپنی زندگی کا راز ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ سچ مچ مجھے دیوتا سمجھنے لگا تھا اور پہلے پھل مجھے کھانے کو دیتا پھر خود کھاتا تھا۔
دوپہر کے وقت اچانک اس کے کان کھڑے ہوگئے۔ ہم ساحلی درختوں میں گھوم رہے تھے۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا بولا۔ سانچو! میرابیٹا آگیا ہے اور وہ درختوں میں سے بھاگت ہوا سمندر کے ساحل پر چلا گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے گیا۔ وہ چٹان کے قریب کھڑا تھا۔ چہرہ آسمان کی طرف اٹھا تھا اور منہ سے سیٹی کی آواز نکال رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آسمان کی وسعتوں کو چیرتا ہوا ایک سفید عقاب نمودار ہوااور اس نوجوان کے کاندھے پر آکر بیٹھ گیا۔ راجس دوڑتا دوڑتا میرے پاس آیاتھا، اس نے بڑے فخر سے سفید عقاب کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’سانچو! میں نے کہا تھا کہ لاچی کو میری خوشبو آجاتی ہے۔ میر الاچی آگیا ہے‘‘ سفید عقاب درمیانے سائز کا تھا مگر اس کی آنکھیں عقیق کی طرح سرخ تھیں۔ نوجوان راجس نے اسی وقت اپنے بالوں کی ایک لٹ پتھر مار کر کاٹی۔ اسے سفید عقاب کی گردن میں پیٹ کر باندھی اور فضا میں اُڑادیا۔ سفید عقاب اڈاری مار کر بلند ہوگیا۔ سمندر کے اوپر جاکر اس نے ایک طرف اڑنا شروع کردیا۔ راجس اسے اشتیاق بھری نظروں سے تک رہا تھا۔ کہنے لگا
’’سانچو! صبح تک میرا باپ یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘(جاری ہے)