اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 153
اور ایسا ہی ہوا۔ دورے دن کا سورج ابھی طلوع ہی ہوا تھا کہ ساحل سمندر پر لوگوں کا شور بلند ہوا۔ راجس ایک درخت پر چڑھ کر سورہا تھا۔ میں نے درختوں کے جھنڈ سے نکل کر دیکھا کہ ساحل پر چھ سات کشتیاں کھڑی تھیں اور کچھ جنگلی لوگ چلے آرہے تھے۔ ان کے آگے آگے این تنومند اونچا لمبا بھاری بھرکم جنگلی تھا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ پہلے تو میں سمجھا کہ کہیں کسی جزیرے سے آدم خور نہ آگئے ہوں۔ میں نے واپس جاکر راجس کو جگایا اور بتایا کہ کچھ لوگ کشتیوں میں آئے ہیں۔ اتنے میں ان جنگلی آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ وہ خاص انداز میں نعرے لگارہے تھے۔ راجس نے خوشی سے اچھل کر ویسا ہی ایک نعرہ لگای اور ساحل کی طرف اٹھ دوڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھ کر سردار نے اسے گلے لگایا پھر تلوار گھما کر غصیلی نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ راجس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور چلایا
’’سانچو! یہ دیوتا ہے۔ اس نے دشمنوں سے میری جان بچائی ہے۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 152 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اتنا سننا تھا کہ سارے کے سارے جنگلی سردار کے ساتھ ہی میرے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔ انہوں نے مجھے کاندھے پر اٹھا کر کرشتی میں سوار کرایا ور اپنے جزیرے کی طرف چل پڑے۔ یہ نیا جزیرہ وہاں سے کافی دور تھا۔ شام کے وقت ہم وہاں پہنچے جنگلی لوگوں کے جھونپڑے درختوں میں دور تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ ان کی عورتیں تالیاں بجا بجا کر مقدمی گیت گارہی تھیں میری بڑی آؤ بھگت کی گئی۔ راجس کے سردار باپ نے تو باقاعدہ میری پوجا شروع کردی۔ وہ روز صبح میرے آگے ناریل اور پھول رکھتا۔ اپنی زبان میں دیومالائی گیت گاتا۔ دوسرے جنگلی بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ میں وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا لیکن سردار کی زبانی معلوم ہوا کہ اندلس کی بندرگاہ جبل الطارق وہاں سے تین دن کی سمندری مسافت پر ہے اور کوئی کشتی اتنا طویل سفر طے نہیں کرسکتی کیونکہ آگے سمندر میں تیز رفتار موجیں بہتی ہیں۔ وہاں تک صرف جہاز میں ہی پہنچا جاسکتا تھا لیکن یہ جزیرہ تجارتی اور مسافر جہازوں کے راستے سے کافی ہٹ کر واقعہ تھا۔ ادھر کبھی کوئی جہاز نہیں آتا تھا۔ سردار بولا
’’کبھی سال میں ایسا ہوجاتا ہے کہ سمندری ڈاکوؤں کا کوئی جہاز پھل او رپانی کی تلاش میں ادھر آنکلتا ہے۔ ہم جنگل کے اندر جاکر خفیہ ٹھکانوں میں چھپ جاتے ہیں کیونکہ سمندری ڈاکو کسی کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ وہ عورتوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں لیکن سانچو، تم جزیرے کی روح ہو، تم اڑ کر کیوں نہیں چلے جاتے۔‘‘
میں خاموش رہا۔ سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کیا کسی بحری ڈاکوؤں کے جہاز کا انتظار کرنا ہوگا، خواہ وہ جہاز کوئی مسافر بردار ہو یا بحری قزاقوں کا، ہو، راجس اور اس کا باپ صبح و شام میری خدمت میں لگے رہتے۔ میں ان کے لئے دیوتا تھا کسی وقت ان کے چہروں سے اس امر پر حیرت کا اظہار ہوتا کہ میں دیوتا ہوکر اتنا بے بس کیوں ہوں کہ کسی بحری جہاز کے انتظار میں وہاں پڑا ہوں۔ انہوں نے قبیلے کی ایک لڑکی سے میری شادی بھی کردی مگر میں نے اسے اپنی بیوی کے طو رپر قبول نہ کیا اور اپنی الگ جھونپڑیمیں ڈیرا لگائے رہا۔
اسی طرح ایک مہینہ گزرگیا۔ میری بے چینی بڑھنے لگی۔ آخر میں وہاں کب تک پڑا رہ سکتا تھا۔ مجھے وہاں سے نکلنے اور اندلس پہنچنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور کرنی چاہیے۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ایک روز دور سے کوئی بحری جہاز جزیرے کی طرف آتا دکھائی دیا۔ جزیرے کے لوگ ٹیلے پر چڑھ کر جہاز کا جائزہ لینے لگے۔ راجس اور اس کا سردار باب بھی ان لوگوں میں تھا۔ ایک دم سے ان میں افراتفری مچ گئی۔ وہ شور مچاتے ایک دوسرے کو پکارت، خبردار کرتے اپنی جھونپڑیوں کی طرف بھاگے۔ راجس اور اس کا سردار باب بھی سخت گھبراہٹ میں تھا۔ سب لوگ جھونپڑیوں میں سے اپنے بال بچوں اور عورتوں کو نکال کر جنگل کی طرف بھاگنے لگے۔ راجس کے باپ نے بھی اپنی بیویوں اور بچوں کو راجس کے ساتھ جنگل کی طرف دوڑادیا، اور میرے پاس آکر بولا
’’سانچو! تم دیوتا ہو۔ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے۔ یہ جہاز بحری قزاقوں کا جہاز ہے۔ وہ لوگ جزیرے میں پہنچ کر تباہی مچادیں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’تم لوگ ڈاکوؤں کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے؟‘‘
سردار بولا ’’یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ بحری ڈاکوؤں کو تم نہیں جانتے سانچو! وہ تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اگر تم دیوتا کی طاقت نہیں رکھتے تو ہمارے ساتھ بھاگ چلو۔ جنگل میں ہم نے ایک خفیہ تہہ خانہ بنا رکھا ہے۔ اپنی بیوی کو لے کر آجاؤ ہمارے ساتھ۔‘‘
سردار اتنا کہہ کر گھنے درکتوں کی طرف دوڑنے لگا۔ میری بیوی پہلے ہی مجھے چھوڑ کر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ جاچکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں وہاں اکیلا رہ گیا۔ جھونپڑیاں جو ایک لمحے پہلے انسانی آوازوں اور بچوں کی قلقاریوں سے گونج رہی تھیں، اب ویران پڑی تھیں۔ لگتا تھا کہ وہاں کبھی کوئی آباد نہیں تھا۔ میں نے ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا، جہاز ساحل کے قریب سمندر میں آکر لنگر انداز ہوچکا تھا اور اس میں سے دو کشتیاں سمندر میں اتاری جارہی تھیں۔ جہاز کے مستول پر بحری ڈاکوؤں کا مشہور کھوپڑی کی ہڈیوں والا جھنڈا تیز ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ بحری قزاق کسی جہاز پر حملہ کرتے وقت یا کسی جزیرے پر اترتے وقت یہ جھنڈا لہرا دیا کرتے تھے۔ خد اجانے جزیرے کے لوگ زمین کے اندر کن تہہ خانوں میں جا کر چھپ گئے تھے کہ سارے جزیرے پر موت جیسا سناٹا چھاگیا تھا۔ بحری قزاقوں کو جزیرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر درختوں کے پرندے بھی چپ ہوگئے تھے۔ میں ٹیلے پر جنگلی گل مہر کی جھاڑیوں کی اوٹ میں کھڑا دونوں کشتیوں کو ساحل کی طرف آتے دیکھ رہا تھا۔ موسم صاف تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ قزاقوں کے سروں پر نیلے اور سرخ رومال بندھے تھے اور ان کے کانوں کی بالیاں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں ان قزاقوں سے لڑائی جھگڑا نہیں چاہتا تھا۔ پھر بھی یہ ایک حقیقت تھی کہ مجھے ان ڈاکوؤں کے ہی جہاز میں بیٹھ کر اس جزیرے سے نجات حاصل کرنا تھی۔ جہاز کے عرشے پر بھی کچھ ڈاکو کھڑے اپنے ساتھیوں کو جاتا دیکھ رہے تھے۔ بحری قزاقوں کی کشتیاں ساحل پر آکر رک گئیں۔ قزاق تلواریں لہراتے وحشت انگیز نعرے لگاتے جھونپڑیوں کی طرف دوڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں جھونپڑیوں کے خالی ہونے پر کوئی حیران نہیں ہوئی تھی۔ شاید وہ اس کے عادی ت ھے۔ انہوں نے جھونپڑیوں میں سے اناج، پھل اور پانی کے مٹکے نکال کر درختوں کے درمیان ایک جگہ جمع کرلئے۔ آگ کا الاؤ روشن کردیا اور چار جنگلی جانور کو پکڑ کر ان کی گردنیں اڑائیں اور کھال سمیت انہیں آگ پر رکھ کر بھوننا شروع کردیا۔
ان قزاقوں میں ان کا سردار بھی تھا جو الاؤ کے قریب آلتی پالتی مارے بیٹھا مشروب پی رہا تھا اور قہقہے لگارہا تھا۔ میں ٹیلے پر جس مقام پر چھپا ہوا تھا وہاں سے مجھے نیچے کا سارا م نظر نظر آرہا تھا۔ درختوں میں سے الاؤ کا دھواں نکلتا دیکھ کر جہاز پر موجود باقی قزاقوں نے بھی کشتیاں سمندر میں اتاردیں اور ساحل کی طرف بڑھنے لگیں۔ یہ بھی اپنے دوسرے ساتھی قزاقوں کے ساتھ آکر مل گئے او رناؤ نوش اور ہاؤ ہو میں مشغول ہوگئے۔ میں خاموش تماشائی بنا، یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس وقت تک میرے ذہن نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ میں جزیرے سے کیوں فرار ہوسکوں گا۔ میں ٹیلے کی دوسری طرف سے جاکر قزاقوں کی کسی ایک خالی کشتی کو لے کر سمندر مین نکل پڑا تھا جیسا کہ مجھے نوجوان راجس نے خبردار کیا تھا۔ بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے اتصالی سمندروں کی تیز رفتار موجوں کا ایک چھوٹی کشتی مقابلہ نہیں کرسکتی تھی اور وہ عظیم سمندری بھنوروں میں بھٹک بھی سکتی تھی۔ میں چپ چاپ جھاڑیوں کی اوٹ میں بیٹھا رہا، مجھے اس حقیقت کا بھی احساس تھا کہ اس جزیرے سے فرار ہونے کا شاید یہ میرا آخری موقع ہے کیونکہ اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک کسی بحری قزاقوں کے جہاز کے بھی وہاں پہنچنے کی توقع نہ تھی۔
دن ڈھل رہا تھا۔ سورج مغرب کی طرف سمندر پر جھکتا چلا جارہا تھا۔ درختوں کے نیچے جہاں قزاق بیٹھے تھے، دن کی روشنی کم ہورہی تھی۔ میرے اردگرد قسم قسم کے جنگلی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک جھاڑی کے پتے مجھے کچھ شناسا دکھائی دئیے۔ اس قسم کی جھاڑیاں میں نے زیریں مصر کے علاقے میں سیلاب کے دنوں میں اگی ہوئی دیکھی تھیں۔ میں نے جھاڑیوں کے ایک پتے کو توڑ کر غور سے دیکھا۔ یہ وہی بوٹی تھی مجھے یاد آگیا کہ میر اباپ درد سے تڑپتے ہوئے بعض مریضوں کو بے ہوش کرنے کے لئے اس بوٹی کے پتوں کا عرق نکال کر اسے پانی میں ملادیا کرتا تھا۔ اس بوٹی کے عرق کے پینے سے مریض کچھ دیر کے لئے بے ہوش ہوجاتے تھے۔ میں نے اس بوٹی کو پہچان لیا تھا اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک ترکیب بھی آگئی۔
(جاری ہے)