یہ کیسادل فریب سمے تھا،اسکو لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو۔یوں سمجھ لیں کہ سندریا کے نازنین بدن سے روشنیاں پھوٹ پڑی ہوں،حُسن کا جوالا پھٹ گیا ہو۔
دیواروں سے لپٹی پرچھائیوں کے مُردہ تن بھی حُسن کے برق باراں سے پھدک پھدک کر انگڑائیاں لینے لگے تھے۔گرو دیوتا کی آنکھیں بھی خیرہ ہوگئیں ،لب پھڑپھڑانے لگے،ناتواں بدن پر جوانی رعشہ مارنے لگی اور وہ اپنی لنگیا کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر پیچھے ہوگیا ۔
عورت اِس جہاں کی ہو وہاں کی ہو ،جب اسکے بدن کی پورپور سے شباب کے جام چھلکنے لگتے ہیں تو مُردے زندہ ہوجاتے ہیں ، عورت سے بڑی دوااورنشہ کوئی نہیں اور یہ ایسی دوا اورنشہ ہے جو مردوں نے بڑے طریقوں سے اپنے اردگرد پھیلا رکھا ہے ۔وہ عورت کو اپنی تسکین اور دوام کا بہت بڑا سبب جانتے ہیں اور اسکے بغیر گزارہ ممکن ہے۔
پرماتما کے لئے تو سندریا نئی نہیں تھی،وہ صدیوں سے اس کے شعلہ بدن سے اشنان کرتا ،جام پیتاآرہا تھا ۔ جب سندریا نے پب اٹھائے توگھنگرو اسکی ریشمی دودھیا پنڈلیوں پر ردھم سے بجنے لگے ،فضا میں دھیرے دھیرے سازوں کا طلسم بکھرا،سندریا کی سنگت جو کررے تھے وہ پردوں میں تھے ،سندریاکے پیروں میں صرف گھنگھرو بج رہے تھے ،اس نے بھاری کولہوں اور دبلی کمر کو لوچ دیا ،سینے کے زیروبم اٹھائے،آنکھوں کے کجرے پر مخروطی انگلیاں رکھ کر خمار سے پرماتما کو دیکھااور پشت پر کُھلے لمبے گیسووں کو جھٹک دیا تو پوری فضا میں یک بیک ایک نئی تان اٹھی۔جس میں ایک غیر مانوس مہک کا غبار سا تھا اور پھر اتنی تیزی سے ایک سوگوار تان اٹھی کہ سندریا کا پورا بدن لوچ در لوچ اس تان میں کُھلتا چلا گیا ۔اسکے پیروں میں،ہاتھوں میں ،بازو¿ں میں ،انگلیوں میں ،کمر اور کولہوں میں برق سی کودنے لگی ،ایک دیوانگی کا ہوشربا رقص شروع ہوگیاتھا۔وہ کسی بگولے کی طرح قبر کے استھان میں موسیقی کی لہروں پر تیرنے لگی اور تان و ساز اونچے ہوتے چلے گئے۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔۔۔ تئیسویں قسط
پرماتما پر بے خود طاری ہونے لگی ۔وہ خود کو اگنی کے سپرد کرنے جارہا تھا ۔اس کا سر سرور میں حل رہا تھا،آنکھیں بند تھیں۔سندریا منوّری لہروں میں اسکے پاس یوں ناچ رہی تھی جیسے وہ اپنے بدن سے اٹھنے والی مہک و آتش سے اپنے پرماتما کو اگنی میں بیٹھنے میں مدد دے رہی ہو،دھیرے سے اگنی میں دھکیل رہی ہو۔اس وقت عجیب منظر پیدا ہورہا تھا۔پرماتما کا قدم اٹھتا ہوا اگنی جانب بڑھ رہا تھا اور اسکے بدن سے کپڑے خود بخود اُتر کر فضا میں بکھرتے جارہے تھے ،وہ مادر زاد ننگا ہوگیاتھا۔
پھر جونہی پرماتما نے اگنی میں پہلاپیر دھرا اگنی کا ایک شعلہ مچلا اور اسنے اپنے پرماتما کے پیر کو جیسے بوسہ دیا ہو۔اس ساعت یہ ہوا کہ سندریا کا وجود پرماتما کے وجود میں حلول کرنے لگا،دوسرا پیر بھی اگنی میں رکھا تو پرماتما نے فلک شگاف نعرہ لگایا” جے جے ماتا“ یہ وہ لمحہ تھا جب سندریااپنے پورے جوبن سے پرماتما کے بدن میں جذب ہونا چاہ رہی تھی اور اسکی ساڑھی تہ در تہ کھلتی اڑتی اگنی سے باہر آنے لگی اور اگنی کے شعلوں میں دو بدن ایک دوسرے میں ایک وجود بنتے ہوئے دکھائی دینے لگے،مجھے لگا کہ یہ منظر نہ گرو پتا نے پہلے دیکھا ہوگا نہ پرچھائیوں نے ۔اگنی میں میٹھی سسکیاں سی گونجیں اورپھر سُر انتہائی سوز میں نیچے آنے لگے ،مدھم ہونے لگے۔دونوں وجود موم کی طرح پگل کر ایک ہوگئے اور اگنی کے درمیان بیٹھتے چلے گئے ۔اگن کی لپٹیں ان کے بدن کو چاٹنے لگیں ،ایک بار تو اگن زور سے بھڑکی، استھان کی چھت تک ناگن کی طرح لہراتی چلی گئی .... اور یہ وہ لمحہ تھا جب پرماتما کا سارا بدن موم کی طرح پگل چکاتھا،اسکے ماس کے جلنے کی کوئی بو نہیں آرہی تھی ۔سوز وساز دھیرے دھیرے اگنی کے ساتھ دم توڑ رہے تھے اور یہ سارا عمل پورے ایک گھنٹے میں پورا ہوگیا۔
قبر کا استھان ایک بار پھر سناٹے میں سُن ہوگیا ۔ بھڑکتی ہوئی اگن بجھ کر راکھ ہوچکی تھی،سندریا اپنے پرماتما کے ساتھ راکھ کی چٹکی میں اسی اگن میں کہیں مل چکی تھی،ان کا وجود ناپید ہوچکا تھا لیکن اب انکی منزلیں نہ جانے کہاں تھیں البتہ اس راکھ میں ایک نیا جیون بول رہا تھا۔
گرو پتا نے ایک پرچھائیں کو اشارہ کیا” بھاگ کر جا اورپوتر جل لیکرآ“
اس دن معلوم ہوا کہ وہ پوتر جل کس کو کہتے ہیں۔گائے کے پیشاب میں گنگا کا پانی ملا کر اس پر شبد پڑھتے ہیں تو ان کے لئے یہ پوتر جل بن جاتا ہے۔چند ہی لمحوں میں پرچھائیں مٹی کے کٹورے میں پوتر جل لیکر آگئی تو پتا گرو نے وہ سارا پوتر جل اگنی کی راکھ پر چھڑک دیا اور بجھتی ہوئی صندلی اگن سے انتہائی بدبودارسی بھڑاس نکلی اور اس سارے سمے میں پہلی بار استھان میں ناگوار بو پھیل گئی ۔
یہ بو تو گویا ان مُردہ پرچھائیوں کے لئے امرت کا درجہ رکھتی تھیں۔وہ دیواروں سے باہر ایسے نکلیں جیسے مکھیاں شہد کا چھتہ چھوڑ کر بھڑکنے لگتی ہیں ۔وہ سب پتا گرو کے اردگرد پھیل گئیں۔
” کوئی حرام کاری نہ کرنا اور سمے کا خیال رکھنا ،میں اب پرماتما کی راکھ سے اپنے گرو کا جیون واپس لانے لگا ہوں تم سب دھیان رکھنا کوئی پاپی استھان میں گھسنے نہ پائے“ پتا گرو نے دھاڑ کرانہیں خبردار کیا۔
پرچھائیاں جو اب تک جیسے گونگوں جیسی لگ رہی تھیں ،دیواروں سے کیا نکلیں انکی زبانیں بھی منہ میں چلنے لگیں” پربھو شانت رہیں“
پتا گرو نے اگنی کی ساری راکھ اکٹھی کی اور اسکو اپنی ہتھیلی میں ڈال کر کوئی شبد منتر تنتر پڑھنے لگا ۔پھر اس نے راکھ کی مٹھی بھینچ لی اور اسکو میرے باپ اور اپنے گرو کے سر پر دھیرے دھیرے انڈیل کر اونچی آواز میں شبد پڑھنے لگا۔اس وقت تمام پرچھائیاں انتہائی سرعت سے اسکے گرد کھڑی تھیں ۔
پتا گرو نے راکھ کا آخری ذرّہ بھی میرے والد کے سر پر اڑادیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکا سر تھام کر پھر سے بدبدانے لگا ۔یونہی چند لمحے گزرے ہوں گے کہ میرے باپ نے ہچکی لی اور اسکا ہاتھ میری ناف سے ہٹ گیا ۔
میری ناف میں حرکت پیدا ہوئی ،اور گنگو کی باریک سی آواز گونجی”پتا ....پتا گرو“ پتا گرو کے چہرے پر رونق آگئی اس نے ایک نظر میری ناف کی جانب ڈالی اور دوجی نگاہ اس نے میرے باپ پرڈالی جو ہچکی لینے کے بعد اپنے پتا گرو کی گود میں کسی معصوم بچے کی طرح سو گیا تھا ۔
پتا گرو کا عمل کامیاب ہوگیا تھا ۔لیکن مجھے بیدار ہونے میں ایک پہر اور لگ گیا تھا ۔مجھ سے پہلے گنگو نے پتا گرو کے ساتھ ایک جاپ لگایا تھا جبکہ میرا باپ ابھی تک سویا پڑا تھا،وہ ابھی تک بے خبر تھا کہ اس کا خزانہ ،اسکی دولت یعنی میں زندگی کی بازی جیت گیا تھا اور اسکے بیدار ہونے سے پہلے اسکے سرہانے بیٹھ کر اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا اور بے خبر تھا کہ اسکو نیا جیون دینے میں اسکی کالی دنیا کے کتنے طاغوت مر گئے تھے،کتنے دیوتاوں کو وچن نبھانا پڑا تھا ۔(جاری ہے)