رومی نہایت بے جگری سے لڑے، بار بار مسلمانوں پر حملے کیے اور ایک بار تو ہماری فوجوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب بھی ہو گئے لیکن اہلِ ایمان کی سرفروشی اور مہارتِ جنگ نے صورت حال کو سنبھال لیا اور اس غضب کا جوابی حملہ کیا کہ رومی لشکر میں افراتفری پھیل گئی۔ ان کے تقریباً ستر ہزار آدمی مارے گئے اور جو زندہ بچے، وہ بھاگ نکلے۔ خود قیصر روم جان بچا کر قسطنطنیہ چلا گیا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یرموک کی فتح کے بعد ابو عبیدہؓ قنسرین، حلب اور انطاکیہ کو تسخیر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے گئے۔ عمرو بن العاصؓ نے پہلے ہی اس شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ابوعبیدہؓ کا لشکر بھی بیت المقدس جا پہنچا تو نصاریٰ نے اس شرط کے ساتھ صلح کی درخواست کی کہ مسلمانوں کے امیر المومنین بہ نفسِ نفیس بیت المقدس آئیں اور صلح کے معاہدے کی تکمیل کر کے اپنے ہاتھوں سے کلیدِ شہر وصول کریں۔ ابوعبیدہؓ نے خلیفہ ثانی کو نصاریٰ کی اس شرط سے مطلع کیا تو عمر فاروقؓ چند مہاجرین اور انصار کے ہمراہ بیت المقدس کے لیے روانہ ہو گئے۔
ابوبکر صدیقؓ کے کہنے پر میں نے جہاد کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ان کی زندگی میں، میں نے ان کی خواہش کا پورا پورا احترام کیا۔ انہوں نے وفات پائی تو عہدِ فاروقی میں مجھے جہاد کی اجازت مل گئی۔ میں نے فوراً رختِ سفر باندھا اور جہادِ شام میں حسبِ مقدور حصہ لیا۔ عمر فاروقؓ جابیہ کے مقام پر پہنچے تو ابوعبیدہؓ، خالد بن ولیدؓ، یزید بن ابی سفیانؓ اور فوج کے دیگر افسران نے ان کا استقبال کیا۔ میں بھی ان کے خیرمقدم کے لیے وہاں موجود تھا۔ عیسائیوں کے نمائندے بھی جابیہ پہنچ گئے، معاہدہ ضبطِ تحریر میں لایا گیا اور اس پر فریقین کے دستخط ہو گئے۔ اس کے بعد عمر فاروقؓ جابیہ سے چل کر بیت المقدس پہنچے اور وہاں اس جگہ نماز پڑھی جہاں آج کل مسجدِ عمر ہے۔ اس موقع پر خلیفہ دوم کے حکم پر میں نے مدت کے بعد اذان دی جس کی تفصیل میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ اس وقت میں معرکہء شام کے چند غازیوں اور شہیدوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمروؓ ہمارے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے۔ ان کے علاوہ دشمنِ اسلام ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشامؓ اور اس کے بیٹے عکرمہؓ بھی تھے اور ہر معرکے میں ایسی جان بازی سے لڑے کہ قبولِ اسلام کا حق ادا کر دیا یہ تینوں فتح مکہ کے بعد اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ایک معرکے میں تو عکرمہؓ رومیوں کی صفوں میں اتنی دور تک چلے گئے کہ سارا جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا۔ ان کے ساتھیوں نے کہا:
’’عکرمہؓ خدا کا خوف کرو، یوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ جوش بجا لیکن اس کو ہوش پر غالب نہ آنے دو۔‘‘
عکرمہؓ نے لڑتے لڑتے جواب دیا:
’’میں لات و عزیٰ کی خاطر جان پر کھیلا کرتا تھا۔ آج اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان پر نہ کھیلوں۔ خدا کی قسم ایسا ہرگز نہ ہو گا۔‘‘
جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتے لڑتے عکرمہؓ نے جنگِ یرموک میں شہادت کا درجہ حاصل کیا۔
ان کے چچا حارث بن ہشامؓ مکے میں تھے کہ عمر فاروقؓ نے انہیں خط لکھ کر جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ انہوں نے مردانہ وار لبیک کہا اور مجاہدین میں شامل ہو کر شام پہنچ گئے۔ کئی خون ریز معرکوں میں سرفروشانہ حصہ لیا اور اپنے بھتیجے عکرمہ کے ساتھ جنگِ یرموک میں شہادت پائی۔
سہیل بن عمروؓ نے غزوہ حنین کے بعد جعرانہ میں اسلام قبول کیا اور اس عہد کے ساتھ کہ جس قدر مشرکین کے ساتھ مل کر جنگ کی ہے اسی قدر اب مسلمانوں کے ساتھ ہو کر جنگ کروں گا اور جتنا مال مشرکین پر خرچ کیا ہے اس سے دوگنا مسلمانوں پر خرچ کروں گا۔ وہ بھی کمال شجاعت سے لڑتے ہوئے جنگ یرموک میں شہادت کے رُتبے پر فائز ہوئے۔
ابوعبیدہ بن الجراحؓ نہ صرف فاتحِ شام تھے بلکہ ان کے اور بھی کئی اعزاز ہیں۔ انہیں زبان رسالتؐ سے امین الامت کا بے مثال لقب عطا ہوا۔ وہ سابقون الاولون، مہاجرین اولین، اصحابِ بدر، عشرۂ مبشرہ اور اصحاب الشجرہ میں سے ایک تھے۔ ان کا اصل نام عامر تھا مگر شہرت اپنی کنیت، ابوعبیدہ سے پائی۔ چہرہ نورانی، دراز قد، صاحبِ سیف و علم، بڑی پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ سارے شام میں عموماً اور دمشق میں خصوصاً جگہ جگہ قائم اسلامی درس و تدریس کے حلقے، ایک خاص علمی فضا جو آپ دیکھ رہے ہیں اور یہ سارے مدرسے جن میں صحابہ کرامؓ لوگوں کو قرآن حکیم کی تعلیم دیتے اور فقہی مسائل سمجھاتے ہیں، یہ سب کچھ ابوعبیدہؓ ہی کا فیضان ہے۔
مجھے یاد ہے نو ہجری میں نجران سے اسلام کی سن گن لے کر ایک وفد مدینے آیا تھا۔ انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام قبول کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دینی تعلیمات سے بہتر طور پر روشناس کرانے کے لیے ابوعبیدہؓ کو ان کے ساتھ نجران بھجوا دیا تھا۔ اس موقع پر سالت مآبؐ نے ان کے علم کے پیشِ نظر امین الامت کے لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔ نجران میں ان کا تدریسی سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا۔ اسی رعایت سے بیت المقدس کی فتح کے بعد عمرِ فاروقؓ نے انہیں سارے شام کا والی مقرر کر دیا جہاں انہوں نے اپنے سابقہ تدریسی تجربے کی روشنی میں جگہ جگہ اسلامی درسگاہیں قائم کر دیں جن کے طفیل دمشق آج کل علم کا مرکز بنا ہوا ہے۔
حضورؐ کی خدمت میں
میں نے اُمیہ کے ظلم سے چھٹکارا پانے کے بعد خود کو ہمہ تن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ میری سعادت تھی کہ دکھ میں سکھ میں، سفر میں حضر میں، زہد میں فقر میں، فتح میں شکست میں، رزم میں بزم میں، میں ہمیشہ اُن کی خدمت میں حاضر، اُن کی شخصیت کے سحر میں گم، اُن کی ذات کے مقناطیسی دائرے میں، اُن کے لب و ابرو کی ہر جنبش میں اپنے لئے احکام کی تلاش کرتا رہتا تھا۔ ہر لمحہ میری یہ کوشش رہتی تھی کہ نظریں اُن کے روئے مبارک پر جمی رہیں۔ اُن کی شخصیت، اُن کا کردار، اُن کی تعلیم عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھی۔ وہ صداقت، وجاہت، ذہانت، شرافت، شجاعت، استقامت، امانت، سخاوت، فصاحت، بلاغت، وقار، انکسار اور عالی ظرفی کا اتنا حسین مرقع تھے کہ انہیں احسن تقویم کی دلیل کہا جا سکتا ہے۔ ہر خوبی بدرجہ اتم اور ساری صفات آپس میں اس میزان کے ساتھ گندھی ہوئی کہ اُن کی دید ہی اُن کی صداقت کی شہادت تھی۔ عبداللہ بن سلامؓ نے جب پہلی بار اُن کو دیکھا تو معاً اُن کے منہ سے نکلا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ قبیلہ یتم کے ابو رمثہؓ اپنے بیٹے کو لے کر آئے تو انہیں دیکھتے ہی کہنے لگے کہ واقعی یہ اللہ کے نبی ہیں اور ایمان لے آئے۔ ایک مرتبہ مدینے میں ایک قافلہ وارد ہوا اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاقاً ادھر سے گزر ہوا تو انہوں نے قافلے والوں سے ایک اونٹ کاسودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ ساتھ لے آئے کہ قیمت بھجوا دوں گا۔ بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی تو قافلے کی ایک معزز خاتون نے انہیں تسلی دی:
’’مطمئن رہو۔ میں نے اُس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا۔ وہ کبھی بدمعا ملگی نہیں کرے گا۔ اگر وہ رقم نہ بھجوائے تو میں اپنے پاس سے ادا کردوں گی۔‘‘
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں کہ مدینے سے رقم پہنچ گئی۔ یہ طارق بن عبداللہؓ کا قافلہ تھا جو مدینے سے کھجوریں خریدنے آیا تھا۔ بعد میں یہ لوگ شہر میں آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، لوگوں سے اسلام کے بارے میں کوئی سن گن لی اور مسلمان ہو گئے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں