بلوچستان لہو لہو……پنجاب میں شراکت ِ اقتدار کی کشمکش؟

Aug 30, 2024

میاں اشفاق انجم

صحافی طالبعلم کی حیثیت سے گزشتہ27 سال میں اتنا رنجیدہ نہیں ہوا جتنا 26 اگست کو بلوچستان میں تسلسل سے ہونے والے واقعات نے کیا،ہمارا دشمن اتنا ظالم اور سفاک ہے ہر بار نئے طریقے سے وار کرتا ہے۔موسیٰ خیال میں مسلح افراد کی طرف سے بس روک کر شناخت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 سے زائد مسافروں کو فائرنگ کر کے شہید کرنے کا واقع پہلا نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو صرف اس وجہ سے گولیوں کا نشانہ بنانا یہ بلوچ نہیں،پنجابی تھے اس سے پہلے بھی ایسی ہولناک وارداتیں کر کے بلوچ اور پنجاب کے عوام میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی سازشیں ہوتی ر ہیں۔ سلام ہے پاک فوج کے جوانوں اور پولیس کے جانثاروں کو جو تمام سازشوں کے باوجود ہمارے کل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔

وطنِ عزیز پر قربان ہونے والے جوانوں اور ان کے خاندانوں پر یقینا ہمیں فخر ہے،تسلسل کے ساتھ نفرت پیدا کرنے کے لئے پنجاب کے رہنے والوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے ہمارا بزدل دشمن اس حد تک منظم ہو چکا ہے اس نے ایک دن میں کئی واقعات کر کے جو پاکستان کو پیغام دیا ہے عام بات ہرگز نہیں۔قلات، سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ، گوادر اور کوئٹہ میں حملے بولان میں انگریز دور کے ریلوے پُل کو تباہ کر کے پنجاب سندھ کے لئے ریل سروس معطل کرنا، سوئی سے پنجاب جانے والی گیس پائپ لائن دھماکے سے تباہ کرنا معدنیات لے جانے والی ایک درجن گاڑیوں کو جلا کر راکھ بنانا، بزدل دشمن صوبوں کی یکجہتی، بھائی چارے میں رخنہ اندازی کر کے جو بیج بو رہا ہے اس پر سیاست کرنے کی نہیں سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ہماری فورسز عوام کی سپورٹ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔گوادر اور سی پیک منصوبہ شروع ہونے کے بعد دشمنانِ پاکستان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے ہمارے دشمن کو ہمارے ملک کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے ہماری فوج اور ادارے ان دِنوں جتنی قربانیاں دے رہے ہیں ایسی داستانیں رقم کر رہے ہیں تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی، علیحدگی پسند تنظیموں کی کامیابی مقامی آبادیوں میں رہنے والے افراد کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے بحث برائے بحث کی بجائے سنجیدہ مسئلے پر پاکستانی عوام وہ بلوچستان کی ہو یا پنجاب اور سندھ کی، ان کو کردار ادا کرنا ہو گا دشمن کو بیرونی طاقتوں کی منظم انداز میں پشت پنائی حاصل ہے ہمیں وطن ِ عزیز کی حفاظت کے لئے دِل و جان سے ایک ہونا ہو گا۔دشمن ہمارے جوانوں اور تھانوں کو نشانہ بنانے کے لئے مخبری کا نیٹ ورک قائم کر سکتا ہے ہم اپنی فوج اور اداروں کے دست ِ بازو کیوں نہیں بن سکتے۔

بات دوسری طرف نکل گئی سپہ سالار اور وزیراعظم کا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پُرعزم  ہونا کافی نہیں ہے  جب تک عوام دِل و جان سے اپنی فوج اور اداروں کی پشت پر نہیں ہو گی میرا ذاتی خیال ہے دشمن کو نیست و نابود کرنے اور اس کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے کسی کو اعتماد میں لینے  اور اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔پاک فوج اور ادروں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے باسیوں کو وطن ِ عزیز کی حفاظت کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے جاری جدوجہد میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔نازک اور مشکل حالات میں وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ کو بلوچستان پر بیانات دیتے ہوئے بھی احتیاط کرنا چاہئے، بلوچستان میں تباہی مچانے والے دشمنانِ وطن کو ایک تھانیدار کی مار قرار دینا عقل مندی نہیں ہے اور نہ پوائنٹ سکورنگ ہے۔وزیراعلیٰ اپنے صوبے اور وزیر داخلہ چاروں صوبوں میں امن  عامہ کے ذمہ دار ہیں۔حکومتی وزراء اور نمائندوں کو بھی ٹی وی شو میں بیٹھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ہر واقعہ کو گزشتہ حکومت یا سابقہ حکمرانوں سے جوڑنے سے عوام میں نیک نامی نہیں مل رہی،بلکہ عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بگڑے ہوئے حالات علیحدگی پسند تنظیموں کی بربریت اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک پر سیاسی جماعتوں بالخصوص حکومتی جماعتوں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی کے طرزِ عمل نے پاکستانی عوام کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب میں اقتدار کا حصہ لینے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر بلاول بھٹو اپنی ٹیم کے ساتھ وزیراعظم سے دو ٹوک بات کر سکتے ہیں، مسلم  لیگ (ن) کو علیحدہ ہونے کی دھمکی دے سکتے ہیں مرکز اور پنجاب میں حصہ اور فنڈ نہ ملنے پر انتہائی اقدام اٹھانے کا اعلان کر سکتے ہیں پھر صدرِ پاکستان اور بلاول بھٹو بلوچستان کی بگڑتی صورتحال پر پوری قوم کو اعتماد میں لینے کے لئے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اے پی سی بلانے کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟ لمحہ فکریہ ہے اقتدار بچانے کے لئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے گورنر ہاؤس لاہور میں سارے معاملات طے کر چکے ہیں، ن لیگ کے ایم پی اے کے برابر فنڈ اور ترقیاتی منصوبے لینے کا وعدے لے چکے ہیں پیپلز پارٹی کے کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کے اضلاع میں پولیس اور دیگر افسروں کی تعیناتی کا فارمولہ بھی منظور کروا چکے ہیں افسوس اِس بات کا ہے صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، اسحاق ڈار اور دیگر حکمرانوں کا سانس بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کے لئے کیوں نہیں رُک رہا۔

مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں بڑی جماعتوں کے وزراء، سینئر ارکان اسمبلی عدلیہ میڈیا کو مسخر کرنے کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں کوئی وزیر مشیر عوام کی حالت ِ زار جاننے کے لئے تیار نہیں، آٹھ فروری کے سرپرائز کے بعد28اگست کو پاکستانی قوم نے حافظ نعیم الرحمن کی کال پر ملک گیر ہڑتال اور شٹر ڈاؤن کر کے بیداری کا ثبوت دیا ہے،حکمرانوں کو عقل آ جانی چاہئے،افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔مشیر وزیر عوام کے دو ٹوک فیصلے کے بعد بھی ڈھٹائی دکھا ر ہے ہیں عوام کی حالت ِ زار دیکھتے ہوئے ریلیف دینے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، افسوس حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مہم جوئی  میں مصروف ہیں، مہنگائی اور بجلی بلوں میں کمی کے لئے  ہنگامی بنیادوں پر ریلیف نہ دیا گیا  عوام اب خاموش نہیں رہے گی۔

 وطن ِ عزیز میں بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت اور سازشوں کے آگے پُل باندھنے کے لئے اقوام عالم کو ایک ہونا ہو گا۔ پاک فوج اور اس کے اداروں کی پشت پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ہماری موجودہ روش جاری ہی تو دشمن نے 26اگست کو ایک وقت میں کئی دہشت گردی کے ہولناک واقعات کر کے ہمیں چیک کیا ہے وقت آ گیا ہے اختلافات ختم کر کے رنجشیں بھلا کر وطن ِ عزیز کی حفاظت کے لئے متحد ہوا جائے، اقتدار اقتدار اور صرف اقتدار کے کھیل سے باہر نکلا جائے یہی وقت کی ضرورت ہے۔

٭٭٭٭٭

  

مزیدخبریں