بھیڑ(BARKING DEER)کی آواز دور ہٹتی چلی گئی اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ تیندوا اسی جانب گیا ہے۔اب میں نے جگو کو آواز دی:
’’جلدی پہنچو بھیا۔‘‘چھدامی کی آواز آئی۔
کانٹوں اور پتھروں سے بچتا بچاتا میں بمشکل ان تک پہنچا اور خونی منظر دیکھ کر لرز اٹھا۔جگو اوندھے منہ خون میں لت پت پڑا تھا۔ قمیض تار تار تھی اور پیٹھ کا گوشت یوں ادھڑا ہوا تھا کہ پسلیاں باہر جھانک رہی تھی۔ گردن بری طرح چبائی ہوئی تھی۔ سامنے بارہ بور بندوق رکھی ہوئی تھی۔ اس سے تقریباً دس گز دور چھدامی پڑا ہوا تھا جس کے بائیں رخسار کا گوشت ادھڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ دائیں کوہلے کا ایک لوتھڑا دور پڑا تھا۔ پیٹ پھٹ گیا تھا اور آنتیں باہر نکل آئی تھی۔جگو بے ہوش تھا۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چھدامی نے سسکتے ہوئے بتایا، تیندوا گھنی جھاڑیوں میں ڈھکی ہوئی چٹان کی اوٹ میں چھپا رہا اور جونہی جگو آگے بڑھا،اس نے عقبی رخ سے جست کرکے اس پر حملہ کر دیا۔ اسے سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ اوندھے منہ گر پڑا۔ اس کے چیخنے کی آواز سن کر میں لپکا مگر اس سے پہلے کہ میں جگو کی مدد کر سکتا، تیندوا اس سرعت سے اس پر جھپٹا کہ پہلے ہی حملے میں اپنے نوکیلے پنجے کے بھرپور وار سے اس کا بایاں رخسارادھیڑ یا، دوسرا پنجہ پیٹ پر یوں مارا کہ سارے کا سارا پھٹ گیا۔ تیندوے کا وزن برچھے پر پڑا تو وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نیچے گرا اور تیندوے نے مجھے بھنبھوڑنا ہی چاہاتھا کہ جگو نے بندوق کی لبلبی دبا دی۔دھماکے سے دہشت زدہ ہو کر تیندوا بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ دونوں زخموں سے چور تھے اور چند منٹ بعد انہوں نے دم توڑ دیا۔
’’یہ سب کچھ میری غلطی سے ہوا۔‘‘میں نے افسوس کرتے ہوئے چھدامی کی بیوہ سے کہا۔
’’نہیں مالک، تمہاری کیا غلطی؟ان کی موت ایسے ہی لکھی تھی ‘‘
وہ روتے ہوئے برابر کھڑی عورت سے بولی:’’دیکھو ناری، بندوق سوؤ ساتھ نہ ہتی!پن موت جوبدی تھیٖ!سوئی تو کچھو نہ کرتی بنو۔‘‘
سارا گاؤں اکٹھا ہو چکا تھا،سب لوگ سوگوار تھے اور میں شرمندہ اور پشیمان اپنی قیام گاہ میں سرنہوڑائے بیٹھا تھا۔ میری پوری شکاری زندگی میں ایسا اتفاق کبھی نہ ہوا تھا۔
دوسرے دن بارش تھم گئی اور تھوڑے تھوڑے وقفوں کے لیے دھوپ بھی نکلتی رہی۔موسم بہتر ہو گیا لیکن ابھی تک میں فیصلہ نہ کر سکا تھا تیندوے کو کیونکر تلاش کروں گا۔ پھر خاموشی سے تنہا جنگل کی جانب روانہ ہوا۔ پہاڑ کے دامن میں دونوں بدنصیبوں کی چتاؤں سے ابھی تک دھواں اٹھ رہا تھا اور ہوا بند ہونے کے سبب جلے ہوئے گوشت کی بو سے فضا مکدر تھی۔آگے بڑھا اور پہاڑی کی چوٹی تک جا پہنچا۔دوسری جانب اترنے تک کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ اب میں پہاڑ کے دامن کے ساتھ ساتھ چھوٹی سی نہر کی پٹری پر چل رہا تھا۔ قریب ہی پونڈی بڑا قصبہ تھا جہاں چاروں طرف کے دیہاتی سودا سلف خریدنے آتے جاتے رہتے۔وہاں جاکر لوگوں کو آدم خور تیندوے سے خبردار کرنا بہت ضروری تھا۔چھوٹے لال بنیے کی دکان میں تیندوے کی گزشتہ واردات کا ذکرکرہی رہا تھا کہ دو دیہاتی جو نمک خرید رہے تھے،چونک پڑے۔
’’یہ واردات کل دس گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوئی تھی؟‘‘ان میں سے ایک نے سوال کیا۔
’’ہاں!شاید ساڑھے دس بجے تھے۔‘‘
’’پھر تو گڑ بڑ ہے۔‘‘اس نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’بھگوان داس کو آنا تو جرور تھا۔‘‘
ان کے چہروں پر تشویش کے آثار دیکھ کر میں نے سبب پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں سے پانچ میل دور، دیوری گاؤں کے رہنے والے ہیں۔گزشتہ شام ہمارے ایک ساتھی بھگوان دس کو ساتھ ہی پونڈی آنا تھا۔ پروگرام یہ تھا وہاں مزے سے رام لیلا دیکھیں گے اور دھڑمشالے میں شب گزار کر دوسرے دن کچھ نون تیل خرید کر ساتھ ہی دیوری واپس جائیں گے۔
’’پھر بھگوان داس کہاں گیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اسے کوئی کام تھا۔اس نے کچھ دیر بعد روانہ ہونے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ جانے کیا بات ہے،آیا نہیں۔‘‘
’’کسی اور ضروری کام میں لگ گیا ہوگا۔‘‘میں نے کہا۔
’’نہیں،اسے ضرور آنا تھا۔ دیوری میں کوئی اورکام تھا بھی نہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
چھوٹے لال بنیے کے یہاں کچھ دیر بیٹھ کر اور جلپان سے فارغ ہو کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد تھانے پہنچا، وہاں نہر کا ایک جمعدار پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس نے بتایا دیوری سے تقریباً دو میل دور نہر کی پٹری کے پاس جنگل میں اس نے ایک آدمی کی لاش دیکھی ہے۔کسی جانور نے اسے کھایا ہے۔
اس نے جس مقام کا ذکر کیا، وہ اسی دائرے میں آتا تھا جہاں تیندوے کی موجودگی کا امکان تھا۔ جمعدار کے ساتھ ہم چھوٹے لان کی دکان پر آئے۔اتفاق سے دیوری کے دونوں آدمی ابھی وہیں موجود تھے ۔ان سے بھگوان داس کا حلیہ پوچھا تو ن ہر کے جمعدار کی دیکھی ہوئی لاش کے عین مطابق تھا۔ ہم کسی تاخیر کے بغیر جمعدار کی رہنمائی میں نہر کی پٹڑی پٹڑی لاش تک پہنچے۔چہرہ قابل شناخت نہ تھا۔ آنتیں اور پیٹ کے ساتھ کمر کا کچھ حصہ بھی کھایا جا چکا تھا۔ چہرے، سینے اور کولہوں پر بھی گوشت باقی نہ بچا تھا۔پھٹے ہوئے لباس اور کالے رنگ کی بنڈی سے نکلنے والے تمباکو اور چونے کی ڈبیا سے لاش کی شناخت ہوئی۔وہ بھگوان داس ہی تھا۔(جاری ہے)
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں