ٹورنٹو کا پاکستانی قونصلیٹ جنرل

Jun 30, 2025

محسن گواریہ

 ٹورنٹو کے پاکستانی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کسی سرکاری ادارے میں اتنا منظم، بہترین اور تیز ترین کام بھی ہو سکتا ہے، تعارف،سفارش اور تعلق کے بغیر،ایک آن لائن ایپ کے ذریعے ایک مروجہ طریقے سے آن لائن ہی آپ کا کام ہو جاتا ہے اور اگر آپ کے لئے قونصلیٹ آنا ضروری ہو تو بھی تھوڑے سے وقت میں یہ جا وہ جا،میں کئی دِنوں سے پاکستانی قونصلیٹ میں ”باجوہ صاحب کے انتظام“دیکھنا چاہتا تھا، قونصلیٹ آنے والے پاکستانیوں کی طرف سے اُن کے بارے تعریفوں کے باندھے جانے والے پلوں کے بعد میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے ان کے انتظامات اور رویہ جاننا چاہتا تھا،دیکھنے کے بعد اچھا بلکہ بہت اچھالگا، شور نہ کوئی رش ہر کوئی مطمئن اور مسرور، قونصلیٹ کا ہر افسر، اہلکار خدمت میں مصروف اور قونصل جنرل محترم خلیل باجوہ اپنے کمرے میں کمپیوٹر اور کیمروں سے کام کا جائزہ بھی لے رہے ہیں اور ملاقاتیوں کو کافی بھی پلا رہے ہیں،اُنہیں یہ بھی پتہ چل رہا ہے کس کاؤنٹر پر کوئی وزیٹر کتنے وقت تک موجود رہا،اُس کا کام ہوا یا نہیں؟ گاہے گاہے وہ خود بھی قونصلیٹ کے ہال اور دوسرے کمروں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

میرے بھتیجے احمدرضا گورایہ نے ایک پاور آف اٹارنی کی تصدیق کے لئے قونصلیٹ جانا تھا تو میں نے کہا،میں فون کر دیتا ہوں، مگر احمد نے جواب دیا چاچو میں نے آن لائن وقت لے لیا ہے،دو بجے جاؤں گا تو کام ہو جائے گا، مجھے یہ سُن کر خوشی ہوئی،اُس کی گاڑی میں بیٹھا اور قونصلیٹ پہنچ گیا،وہاں لوگوں کی مدد پر مامور افسر سے میں نے کہا کہ مجھے قونصل جنرل سے ملنا ہے اُس نے جواب میں پوچھا کوئی کام ہے تو مجھے بتا دیں ابھی ہو جاتا ہے، مگر میں نے کہا میرانام اُنہیں بتا دیں،اس پر وہ ایک کمرے میں گیا او ر وا پس آ کر مجھے کہا تشریف لائیں،باجوہ صاحب بانہیں پھیلائے میرے منتظر تھے۔ 

دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے پاکستانیوں کا دِل ہمیشہ مادرِ وطن کی محبت میں دھڑکتا اور پاکستانیت کا جذبہ ان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، پاکستانی سفارت خانے ہر پاکستانی کے جائز کام کے لئے قائم ہیں،ان دفاتر سے تارکین وطن کو گلے شکوے بھی رہتے ہیں، مگر وہ انہیں اپنا دفتر سمجھ کر پیار کرتے ہیں، تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کے حالات پر دِل گرفتہ بھی رہتی ہے اور اس کی ترقی کے لئے دُعا گو بھی، ملک کے دگر گوں حالات پر ان میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، جس کا اظہار وہ پاکستان سے آنے والے ہر شخص سے کرتے ہیں، میں بھی ان دِنوں کینیڈا میں ہوں اور اپنے ہم وطنوں کی تلخ و شیریں باتوں کو سن رہا ہوں۔ ملکی سیاست، دینی، سماجی،معاشی مسائل وغیرہ میں ان کی دلچسپی ہے،بلکہ پاکستان میں مقیم ہم وطنوں سے زیادہ وہ ملکی حالات کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکومتیں اور سیاست ان کے ساتھ ہمیشہ سے تغافل برت رہی ہے، ان تارکین وطن  کے بے شمار مسائل ہیں،پاکستان میں ان کی گھروں،پلاٹوں اور زرعی اراضی کے علاوہ دیگر جائیداد پر قبضے بھی ایک فوری حل طلب مسئلہ تھا،جس کا ازالہ اوورسیز محتسب کے ادارہ کے قیام سے کیا گیا جہاں ان کی داد رسی ممکن ہوئی،پاسپورٹ اور شناختی کارڈ، زمین جائیداد کی منتقلی کے لئے درکار ضروری کوائف کا حصول،پیدائش اور موت کی صورت میں سرٹیفکیٹ بھی مسئلہ ہے، مگر اس کے باوجود یہ دِل دِل پاکستان کا راگ ہی الاپتے ہیں ہے،ان لوگوں میں سے بہت نے پیسہ کمانے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا اور یہاں صنعت لگانے کی کوشش کی، مگر یہاں کے پیچیدہ نظام اور کرپٹ عناصر نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ یہ لوگ سب پروگرام تج کر واپسی کی راہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے رہے،اگر ان کو تحفظ اور مراعات دی جائیں تو اب بھی یہ لوگ اندرون ملک سرمایہ کاری کو تیار ہیں۔

 یہ چاہتے ہیں کہ ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں،ان کا موقف درست ہے کہ جب سمندر پار پاکستانی اپنے گھر والوں کے لئے پیسے بھجوا سکتے ہیں، جو کہ ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو پھر یہ ڈالر بھیجنے والے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرسکتے،لاکھوں سمندر پار پاکستانیوں کے دِل پاکستان میں ہی دھڑکتے ہیں اور اس قربت کی بنا پر انہیں وہ سارے حقوق حاصل ہونا چاہئیں جو باقی پاکستانیوں کو ہیں،یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رابطہ اپنے علاقے سے رہے، حکومتی فیصلوں میں ان کا عمل دخل رہے اور ان کو تحفظ ملے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کے لئے الگ سے نشستیں مقرر کی جائیں۔

عام طور پر تارکین وطن کے لئے ان کے ممالک میں سفارت کار اور قونصل خانے اپنے شہریوں کے حقوق کی نگہبانی کرتے ہیں،ٹورنٹو میں پاکستانی سفارتی عملہ بھی اس حوالے سے پیش پیش رہتا ہے، مگر سفارتی عملہ کی مجبوری ہے کہ ہر حکومت وقت کی پالیسی کے مطابق ان کو معاملات آگے بڑھانا ہوتے ہیں،ملکی معیشت اور زر مبادلہ کے ذخائر کا زیادہ ترانحصار اگر چہ اوورسیز پاکستانیوں پر ہے،پیارے پاکستان کے سر پر ہر وقت معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے،زر مبادلہ کے ذخائر کم سے کم رہتے ہیں،برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں، پچھلے کچھ عرصہ میں ملکی صنعت کو چلانے کے لئے درکار خام مال، بجلی، گیس جیسے مسائل کی بناء  پر صنعتی پہیہ بھی رُک رُک کر چل رہا ہے،ایسے میں ملکی معیشت کا انحصار تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات پر ہے،اگر حکومتی سطح پر اوورسیز پاکستانیوں کو اعتماد میں لے کر پالیسیاں وضع کی جائیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ ترسیلات بھیجنے کی درخواست کی جائے تو نادہندگی کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوسکتا ہے۔

ان سارے معاملات میں کتنی مزید پیش رفت ہو سکتی ہے یا ہو رہی ہے اِس حوالے سے ٹورنٹو میں پاکستان کے قونصل جنرل محترم خلیل باجوہ سے ہوئی اس موقع پر کینیڈا اور خصوصی طور پر ٹورنٹو میں رہنے والے پاکستانی کینیڈینز کے مسائل اور قونصل خانے سے انہیں ملنے والی ریلیف کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی،وہ ایک سینئر سفارتکار ہیں اور ان کا لہجہ اور سفارت خانے کے حالات بتا رہے تھے کہ یہاں آنے والے پاکستانیون کو عزت دی جاتی ہے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی جاتی۔یہاں پر کسی پاکستانی کی وفات کی صورت میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے اجراء اور اس کی میت کو پاکستان بھجوانے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ”یہ مسئلہ قونصل خانے اور ان کے لئے سب سے زیادہ ترجیح ہوتی ہے“۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض معاملات میں کچھ ضروری ڈاکومنٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔کچھ دوسرے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پر پاکستانی حکومت کی آنکھ اور کان ہیں اور ہم اس سلسلے میں جو دیکھتے سنتے ہیں وہ اپنے سینئرز اور حکومتی عہدیدارں تک بروقت پہنچا دیتے ہیں تاکہ ان پر فوری ایکشن ہو سکے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں