زراعت ہر عہد میں کسی بھی ملک کا اسٹرٹیجک اہمیت حامل کا شعبہ رہا ہے۔ زرعی خود کفالت کسی بھی ملک کو خود انحصاری کی راہ پر آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں جہاں زندگی کے تمام شعبے ترقی کر رہے ہیں زراعت کے شعبے کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین میں زرعی شعبے کو شاندار انداز میں ترقی دی گئی ہے۔ بیجوں کے انتخاب سے لےکر پیداوار کی پراسیسنگ تک ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال نظر آتا ہے۔ ڈیجیٹل آٹو میشن، انٹرنیٹ آف تھنگز اور سیٹلائٹ نیوی گیشن سمیت جدید ٹیکنالوجیز نے زرعی شعبے کو آسان، باسہولت اور منافع بخش بنا دیا ہے۔
چینی کسانوں کے مطابق آٹومیشن کے استعمال سے کارکردگی اور فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی حکومت اپنے کسانوں کی مسلسل رہنمائی کررہی ہے۔"دیہی بحالی کی حکمت عملی کے نفاذ میں، اہم زرعی مصنوعات خصوصاً خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا بنیادی کام ہونا چاہیے"۔ ان خیالات کا اظہار ، چینی صدر شی جن پھنگ نے سی پی پی سی سی کی 13ویں قومی کمیٹی کے پانچویں اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین کے ساتھ تبادلہ خیال کے موقع پر کیا۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے حامل ملک کی حیثیت سے ، چین کا جامع دیہی احیاء کو فروغ دینا اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ، عالمی معیشت کی مستحکم بحالی کی ایک مضبوط بنیاد کے لیے مددفراہم کرے گا۔
یہ اسی ترقی اور توجہ کی بدولت ہے کہ اس وقت چین کے خود تیار کردہ بیجوں سے پیدا ہونے والے اناج کا رقبہ چین میں اہم فصلوں کے کل رقبے کا 95 فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے ، اور چاول اور گندم کی خود کفالت کی شرح 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم، سبزیوں کے بیجوں کے سلسلے میں، چین اب بھی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اور چین کی بیجوں کی صنعت کی ترقی کے لیے اب بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
آج کل چین میں موسم بہار کی فصلوں کی کاشت جاری ہے۔ اس حوالے سے کسان جدید ٹیکنالوجیز سے بھر پور استفادہ کررہے ہیں۔
چین کے صوبے شان دونگ کے تائیان شہر کے دیہات گندم کی پیداوار کے لئے مشہور ہیں۔ یہاں کسان گندم کی بوائی شروع کرنے والے تھے کے موسم کی ایپ نے اگلے روز شدید بارش کی پیش گوئی کی۔ کسانوں نے بارش کی متوقع صور تحال کے مطابق نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کی ترتیب نو کی، یہ ایک مثال ہے۔
چین میں زراعت کے شعبے میں زرعی کوآپریٹو نظام غریب کسانوں کے کھیتوں کو بھی جدید ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ بڑے کوآپریٹو گروپس بیج کے انتخاب سے لے کرڈرون اسپرے تک عام کسانوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس زرعی جدت کاری نے چینی منڈی کی طاقت کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کے لئے چین کی زرعی منڈی میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ سی پیک کی تعمیرسے پاک-چین زرعی تعاون کو وسیع ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اس شعبے نے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم پیش رفت ظاہر کی ہے ۔ 2011 سے 2019 تک پاکستان اور چین کے درمیان زرعی مصنوعات کی تجارت کا حجم 490 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 830 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس میں شرح اضافہ تقریباً 70 فیصد ہے۔ تیئیس نومبر کو " پاکستانی پیاز کی چین برآمد کے لیے معائنہ اور قرنطینہ کی ضروریات کے پروٹوکول" پر باضابطہ دستخط کیے گئے۔ یہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زرعی مصنوعات کی برآمدات کے لیے دستخط کیے جانے والا پہلا معاہدہ ہے۔
چین میں زرعی ٹیکنالوجیز کا استعمال ایک عام چیز بن چکا ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں یہ عمل مکمل طور پر آٹومیشن کا حامل ہے۔ بیدو سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم ، بگ ڈیٹا ، ہائی برڈ سیڈ، نئی کھادوں ، زمین کی لیزر لیولنگ، ڈرپ ایری گیشن، گرین ہاوسز، پیسٹ کنٹرول،مشینی بوائی، ڈرون نگرانی، ڈرون اسپرے اور مشینی کٹائی سمیت لاتعداد نئے طریقوں کی مدد سے پیداوار میں واضح اضافہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آن لائن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، کارگو کمپنیوں اور جدید لاجسٹکس کی سہولیات کی مدد سے فصلوں کی فروخت نے شاندار نتائج دئیے ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.