احتساب اور فیصلوں کے عمل میں بعض عجیب و غریب اور ناقابل تصور باتیں سامنے آرہی تھیں۔ دنیا میں ہونے والی سازشوں، معروف لوگوں کے قتل، گھریلو، دفتری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل، ان میں ملوث افراد، خفیہ ملاقاتوں کی روداد، بند کمروں کی سرگوشیاں، غرض ہر چیز آج کے دن کھل رہی تھی۔ عزت دار ذلیل بن رہے تھے، شرفا بدکار نکل رہے تھے، معصوم گناہ گار ثابت ہورہے تھے۔ لوگ زندگی بھر جس پروردگار کو بھول کر جیتے رہے، وہ ان کے ہر ہر لمحے کا گواہ تھا۔ کوئی لفظ نہ تھا جو ریکارڈ نہ ہوا ہو اور کوئی نیت اور خیال ایسا نہ تھا جو اس کے علم میں نہ آیا ہو۔ رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل نہ تھا جو کیا گیا اور اس کا اندراج ایک کتاب میں نہ کرلیا گیا ہو۔ اور آج کے دن یہ سب کچھ سب لوگوں کے سامنے اس طرح کھول دیا گیا تھا کہ ہر انسان گویا بالکل برہنہ کھڑا ہوا تھا۔
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا اور دل میں لرز رہا تھا کہ اگر میری غلطیاں اور کوتاہیاں بھی آج سامنے آگئیں تو کیا ہوگا؟ کوئی اور سزا نہ ملے، انسان کو صرف بے پردہ ہی کردیا جائے، یہی آج کے دن کی سب سے بڑی سزا بن جائے گی۔ صالح نے غالباً میرے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ وہ میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا:
’’پروردگار عالم کی کریم ہستی آج اپنے نیک بندوں کو رسوا نہیں کرے گی۔ اس کی کرم نوازی اپنے صالح بندوں کی اس طرح پردہ پوشی کرے گی کہ ان کی کوئی خطا اور گناہ، کوئی لغزش اور بھول لوگوں کے سامنے نہیں آئے گی۔ تم بے فکر رہو۔ خدا سے زیادہ اعلیٰ ظرف ہستی تم کسی اور کی نہ دیکھو گے ۔‘‘
’’بے شک۔ مگر اس وقت تو میں خدا کی گرفت دیکھ رہا ہوں۔ اس طرح کہ جہنم کی سزا سنانے سے قبل بدکاروں کے چہرے سے شرافت اور معصومیت کا نقاب نوچ کر پھینکا جاتا ہے اور پھر ان کو عذاب کی نذر کیا جاتا ہے۔‘‘، میں نے اندیشہ ناک لہجے میں جواب دیا۔
صالح نے مجھے اطمینان دلاتے ہوئے کہا:
’’یہ صرف مجرموں کے ساتھ ہورہا ہے۔ جسمانی عذاب سے قبل انہیں رسوائی کا ذہنی عذاب دیا جاتا ہے۔ صالحین کے ساتھ یہ ہرگز نہیں ہوگا۔‘‘
ہم یہ گفتگو کررہے تھے کہ ایک اور شخص کو بارگاہ الوہیت میں پیش کیا گیا۔ اس نے پیش ہوتے ہی بارگاہ ایزدی میں عرض کیا:
’’پروردگار! میں بہت غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بہت غربت میں گزرا۔ جوانی میں مجھ سے کچھ غلطیاں ہوگئیں تھیں، لیکن تو مجھے معاف کردے۔‘‘
فرشتے سے مخاطب ہوکر پوچھا گیا:
’’کیا واقعی اسے میں نے غربت سے آزمایا تھا؟‘‘
فرشتے نے ادب سے عرض کیا:
’’مالک! یہ ٹھیک کہتا ہے، لیکن یہ جنھیں غلطیاں کہہ رہا ہے وہ اس کے بدترین جرائم ہیں۔ یہ ایک رہزن بن گیا تھا۔ چند روپوں اور موبائل جیسی معمولی چیزیں چھیننے کے لیے اس نے کئی لوگوں کو مار ڈالا اور کئی لوگوں کو زخمی کیا تھا۔‘‘
’’اچھا!‘‘، مالک ذوالجلال نے فرمایا۔
اس اچھا میں جو غضب تھا، اس میں اس شخص کا انجام صاف نظر آگیا تھا۔ پھر قہر الٰہی بھڑک اٹھا:
’’اے ملعون شخص! میں نے تجھے غریب تو پیدا کیا تھا لیکن بہترین جسمانی صحت اور صلاحیت سے یہ موقع دیا تھا کہ توزندگی میں ترقی کی کوشش کرتا۔ تو یہ کرتا تو میں تجھے مال سے نواز دیتا۔ کیونکہ تجھے اتنا ہی رزق ملنا تھا جو تیرے لیے مقدر تھا۔ مگر تو نے اس رزق کو خون بہاکر اور ظلم کرکے حاصل کیا۔ آج تیرا بدلہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو تونے قتل کیا اور جس پر ظلم کیا، اس کے گناہوں کا بوجھ بھی تجھے اٹھانا ہوگا۔ تیرے لیے ابدی جہنم کا فیصلہ ہے۔ تجھ پر لعنت ہے۔ تیرے لیے ختم نہ ہونے والا دردناک عذاب ہے۔‘‘
یہ الفاظ ختم ہوئے ہی تھے کہ فرشتے تیر کی طرح اس کی طرف لپکے اور اسے انتہائی بے دردی سے مارتے پیٹتے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی سمت لے گئے۔(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔