تہہ خانے کا دروازہ چونکہ ہم کھلا چھوڑ آئے تھے اس کی وجہ سے اندر جلتی موم بتی کی روشنی راہ داری میں آرہی تھی۔ شرطوم جلاد تلوار سونتے جونہی آگے بڑھا اس کی نظر ہم پر پڑی۔ رقاصہ طرسومہ کو میرے پہلو میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے بے دریں تلوار لہرا کر مجھ پر حملہ کردیا۔ تلوا رکا وار میں نے اپنی تلوار پر لیا۔ شرطوم جلاد نے ایک دہشت ناک چیخ مار کر کسی کا نام لیا۔ شاید وہ کسی کو اپنی مدد کے لئے بلانا چاہتا تھا۔ ہماری تلوار زنی شروع ہوگئی۔ شرطوم ایک ماہر تلوار باز تھا۔ مجھے اس کی زیادہ مشق نہیں تھی۔ میں اس کا ہر وار ناکام بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شرطوم نے ابھی تک مجھے پہچانا نہیں ہے۔ ورنہ وہ میری غیبی طاقت سے دب کر وار کرتا۔ میں اس سے زیاہد دیر تک الجھے رہنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ میں نے اس کے وار کی پرواہ کئے بغیر اپنی تلوا رکا وار اس کی گردن پر بائیں جانب مارا۔ اس کی تلوار کا وار میرے کاندھے پر پڑا اور تلوار اچٹ گئی لیکن میرے وار نے اس کی آدھی گردن کو کاٹ ڈالا۔ خون فوارے کی طرح اس کی گردن سے چھوٹ پڑا۔ وہ لڑکھڑا کر ایک طرف جھک گیا۔ اس جلا دنے نہ جانے کتنے لوگوں کے سر قتل کئے تھے میرے دوسرے وار نے اس کی گردن اڑا کر رکھ دی۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 181 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
طرسومہ خوف کے مارے کانپ رہی تھی۔ میں نے اس کا بازو پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا زینہ چڑھنے لگا۔ دیوار کے شگاف میں سے باہر آکر طرسومہ نے کپکپاتی آواز میں کہا
”وہ ۔۔۔ وہ لوگ یہاں بھی ہوں گے۔“
میں نے اسے چپ رہنے کی ہدایت کی اور بلوط کے درختوں کی تاریکی میں قلعے کے دروازے کی طرف بڑھا کیونکہ طرسومہ کو میں نہر کے پانی سے گزا رکر باہر نہیں نکالنا چاہتا تھا۔ قلعے کی دیوار کا یہ دروازہ اس کوٹھری کے عقب میں پندرہ بیس قدموں کے فاصلے پر تھا۔ جس کے اندر حبشی محافظ بیٹھا اپنے ساتھی کے واپس آنے کا انتظار کررہا تھا۔ میں اس کوٹھری سے ہٹ کر قلعے کی دیوار کی جانب چلنے لگا۔ کوٹھری کے طاق میں سے شمع کی روشنی اسی طرف باہ آرہی تھی۔
رات گہری تاریک تھی۔ ہم مہندی کی جھاڑیوں میں سے گزررہے تھے۔ سامنے قلعے کی دیوارکا دروازہ آگیا۔ دوازہ بند تھا۔ میں نے طرسومہ کو جھاڑیوں میں چھپے رہنے کی ہدایت کی اور خود دروازے کے قریب آگیا۔ یہاں ایک چھوٹی سی ڈیوڑھی بنی تھی جہاں دو سپاہی گہری نیند سو رہے تھے۔ دروازے کے چھوٹے طاق پر تالا پڑا تھا۔
مجھے اب رازداری سے کام لینے کی کوءی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ تلوار لے کر میں نے پاﺅں کی ٹھوکر سے دونوں پہرے داروں کو جگادیا اور کہا
”میں عبداللہ! امیر دربار ہوں۔ دروازہ کھولو۔ میں شاہی رقاصہ کو نکال کر ساتھ لے جارہا ہوں۔“
لیکن سپاہیوں نے تلواریں کھینچ لیں اور حملہ کردیا۔ تھوڑے سے مقابلے کے بعد ایک سپاہی تو فرار ہوگیا اور دوسرا زخمی ہوکر زمین پر گر پڑا۔ میں نے طرسومہ کو آواز دی۔ وہ جھاڑیوں میں سے نکل کر میرے پاس آگئی۔ میں نے تلوار کے ایک ہی وار سے طاق کا تالا توڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس منحوس قلعے سے نکل کر سرو اور کھجوروں کے درختوں سے ہوتے ہوئے اپنے محل کی طرف جارہے تھے۔
خلیفہ مسترشد بغاوت فرو کرنے کے بعد واپس آیا تو اسے میری زبانی یہ سن کر اطمینان ہوا کہ آخری سازشی شرطوم جلاد کو بھی میں نے اس کے راستے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہٹادیا ہے۔ مگر خود سلطان اندلس اور اس کے شاہی خاندان والوں نے اپنے راستے میں جو کانٹے بکھیرنے شروع کردئیے تھے ان کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کی ایک زر میں تاریخ کے زوال کا عبرتناک باب تھا۔ جس کے تاریک الفاظ میری آنکھوں سامنے رقم ہورہے تھے۔
طرسومہ کو شاہی محل میں چھوڑ کر میں ایک بادبانی جہاز میں سوار ہوا اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں جا پہنچا۔ پھر میں وسطی افریقہ کے ایک شہر میں آکر طبابت کا دھندا کرنے لگا۔ یوں تین چار شہروں میں گھوم پھر کر دھندا کرتے مجھے کئی برس گزرگئے۔ اس دوران میں مجھے خبر ملی کہ اندلس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور مسلمانوں کو اس سرزمین سے نکال دیا گیا ہے جہاں انہوں نے سات سو برس تک علم و حکمت کی شمع روشن کررکھی تھی۔ بنو سراج کے شہزادوں کو قتل کیا گیا اور آخری مسلان تاجدار باب عادل اپنی والدہ کے ساتھ بڑی مشکل سے جان بچا کر ہسپانیہ سے فرا رہوسکا۔ اس کی والدہ کے منہ سے نکلا ہوا سبق آموز اور عبرت انگیز جملہ بھی افریقہ کی فضاﺅں میں مجھ تک پہنچ گیا جو مسلم ہسپانیہ کی تاریخ کا سب سے الم انگیز جملہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب باب العادل نے افریقہ کی طرف فرار ہوتے ہوئے جبل الطارق کی پہاڑیوں سے آخری بار اندلس کے میدانوں، کھجور کے جھنڈوں اور بلوط کے درختوں پر نگاہ ڈالی تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بیٹے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ماں نے کہا
”جس ملک کو تم مردانہ وار لڑ کر بچا نہیں سکے اس کی بربادی پر عورتوں کی طرح آنسو مت بہاﺅ۔“
اس کے بعد وہ دونوں گھوڑوں پر سوار پہاڑی سے اتر کر سمندر کی طرف چلے گئے جہاں ایک جہاز انہیں شمالی افریقہ کی طرف لے جانے کو تیار کھڑا تھا۔ یوں مسجد قرطبہ کے مینار اور گنبد اور غرناطہ کے الحمرا کے سرو وصنوبر اس آخری مسلمان بادشاہ کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اوجھل ہوگئے۔ ہسپانیہ کے مسلمان بادشاہوں کا بھی وہی انجام ہوا جو عباسی خلفاﺅں کا ہوا تھا۔ آخری اندلسی سلطان کا خاندان تیونس کے قریب و جوار میں آباد ہوگیا۔ انہوں نے پرانےق رطاضبہ کے کھنڈروں میں ایک ایسا شہر آباد کیا جو اپنے قوانین کی سختی، رواداری اور مسلمانوں کی روایتی سخاوت، خوش اخلاقی کے لئے موری افریقہ میں امتیازی شان رکھتا تھا۔
قرطاضبہ میں پہنچ کر مجھے ایک طبیب کی زبانی معلوم ہوا کہ آخری مسلمان اندلسی سلطان کا بیٹا بنو حمید عراق گلاب کشید کرنے میں ماہر ہے۔ مگر یہ اس کا شوق تھا کاروبار نہیں تھا۔ اس کا اپنا گلاب کے پھولوں کا بہت بڑا باغ تھا۔ جہاں کئی غلام کام کرتے تھے۔ میرا دل اس اندلسی شہزادے سے ملنے کو چاہا اور میں اس کا پتہ تلاش کرتا اس کے گلاب کے پھولوں کے باغ میں پہنچ گیا۔(جاری ہے)