دو قومی نظریہ بر صغیر کے مسلمانوں کے ہندوؤں سے علیحدہ تشخص کا نظریہ ہے، جس کی بنیاد پر ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔ گزشتہ دِنوں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل حافظ سید عاصم منیر نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اسی دو قومی نظریے کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ا نہوں نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا مذہب، تہذیب و تمدن ہر لحاظ سے ہندوؤں سے مختلف ہے نہ کہ ہم مغربی تہذیب و تمدن کو اپنا لیں، نوجوانوں کو اپنے وطن، قوم، ثقافت و تہذیب و تمدن اور اپنے آپ پر بے پناہ اعتماد ہونا چاہئے۔ اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کی ریاست طیبہ سے مماثلت ہے دونوں کلمے کی بنیاد پر قائم ہوئیں،پاکستان کے نوجوانوں کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ وہ ایک عظیم وطن اور قوم کے سپوت ہیں، ہمارے ملک کے نوجوان اس قوم و ملک کی روشن روایات، اقبال کے خوابوں اور قائد کی تعبیر کے امین ہیں۔ آرمی چیف نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں آزادی کا احساس دلانے کے لئے جو یہ کہا کہ آزادی اور حرمت کی قیمت فلسطین اور مقبوضہ کشمیر والوں سے پوچھیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو دو قومی نظریے کی جانب روشناس کرایا جائے۔ دو قومی نظریہ کیا ہے اس کا میں تھوڑا پس منظر ضرور بیان کروں گا، کیونکہ اس کے پس منظر کو سمجھے بغیر ہم دو قومی نظریے کو نہیں سمجھ سکتے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 8مارچ 1944ء مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کیا تو ماضی کی اس تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ ئ توحید ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا،بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا، ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی“۔
اسی نئی قوم کو اپنے تہذب و تمدن اور معاشرت کی بقاء کے لئے ایک نئے وطن کی ضرورت تھی جس کی خاطر تحریک پاکستان شروع ہوئی اور جس کی معراج 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی شکل میں سامنے آئی۔ اب دوسری جانب ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات دیکھتے ہیں تو ہمیں دو قومی نظریے کی اہمیت سمجھ میں آئے گی۔ آج ہندوستان میں مودی کی سرکردگی میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ نریندرمودی تو ویسے بھی مسلم دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہاہے بطور وزیراعلیٰ گجرات اس کے دورِ حکومت میں صوبہ گجرات میں بدترین فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا، جبکہ ان کے گھروں کو مسمار اور دوسری جائیداد بشمول کاروبار تباہ کر دیئے گئے، مسلمان عورتوں کی عزت تار تار کی گئی۔ ان فسادات میں مودی اور اس کی جماعت کے چند سرکردہ رہنماؤں کے نام بھی سامنے آئے، مگر کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر جیسے مسلمان اکثریت والے علاقے میں بھی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں پر بھی ایک ہندو وزیراعلیٰ مسلط کیا جا سکے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، لیکن وہاں ہندوؤں کی تعداد ان سے بھی کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ متحد ہوکر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بھارت اپنے سیکولرازم کے دعوے کے باوجود سیکولر نہیں بن سکا اور وہاں ہندوتوا کا راج ہے، جو مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مزید پروان چڑھ رہا ہے۔
مودی حکومت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہندو انتہاپسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اقلیتوں کو ہندوستان میں سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔ان غنڈوں نے بھی اپنی اس جنونی ذمے داری کو خوب نبھایا اور مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بھارت میں موجود مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچنے کا مقصد پاکستان کے نوجوانوں کو سمجھانا ہے کہ وہ پاکستان کی اہمیت کو سمجھیں کیوں اس وقت بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں ہی رہنا چاہئے اور الگ وطن کا مطالبہ چھوڑ دینا چاہئے، لیکن آج جب ہم ہندوستان میں مسلمانوں کی کسمپرسی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پاکستان اللہ کی ایک نعمت محسوس ہوتا ہے اور آرمی چیف نے اسی جانب نوجوانوں کی توجہ مبذول کرانا چاہی ہے کہ نوجوان اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور ان کے نظیرے کو چھوڑیں نہ بلکہ اس کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، کیونکہ اگر ہم اپنے دو قومی نظریے پر قائم رہیں گے تو بیرونی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، لیکن اگر ہم اپنے نظریے سے ہٹ گئے اور اغیار کی بنائے ہوئے کلچر میں رچ بس گئے تو پھر دشمن کو اپنا نظریہ ہمارے نوجوانوں پر تھونپنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور اِسی مقصد کے لئے نوجوانوں کو آرمی چیف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دو قومی نظریے کا پاسبان بننا ہو گا۔