آپ نے مریم اورنگزیب آپی کی بات کوپوری طرحسنا اور سمجھا نہیں وہ ایک درویش صفت وزیر ہیں انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا روؤ،پیٹو یا سڑوہونی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ یہ ڈائیلاگ (اور ہر بار شرطیہ نوے پرنٹ کے ساتھ) پی ٹی آئی کو سنا رہی ہیں۔وہ تو چیخوں کی آواز سے سمجھ آئی کہ وہ کہہ دھی کو سنا نوں کو رہی تھیں۔سنتا سنگھ سمندر میں نہاتے ہوئے ڈوبنے لگا اس نے دل میں دعا کی اللہ میاں مینو بچا لے میں باہر نکل کر تیرے نام کی دیگیں دوں گا،ایک لہر آئی اور اس نے سنتا کو ساحل پر اچھال دیا،زمین پر پیر رکھتے ہی سنتا اکڑ کر بولا ہونہہ کونسی دیگیں،ابھی اتنا ہی کہا تو دوسری لہر پھر اسے سمندر میں لے گئی،سنتا غوطے کھاتے ہوئے بولا اب جی بندے کی پوری بات تو سن لیتے میں نے کہا تھا کہڑیاں دیگاں مطلب مٹھیاں یا لونیاں۔ہم ہی مار کھا گئے ہم ایویں خوش ہوئے کہ مریم بی بی آئی آئی تو کہہ رہی ہیں،روؤ،پیٹو،سڑوویسے ان کے رانا ثناء اور احسن اقبال کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ کو کسی مزید دشمن کی ضرورت نہیں۔یہ وہ وکیل ہیں جو اپنے رہا ہوتے کلائنٹ کو پھائے لگوادیں۔ایسے پلیئر تھک ہار کے اپنی ہی ٹیم کی طرف گول کر دیتے ہیں۔ ویستے تو شہباز کی ”راہواں“ ویسی ہی ”اوکھیاں“ تھیں وہ انہیں ”سنجیاں گلیاں“سمجھ کے آگئے۔اب وہ خیر سے عوام کے ساتھ ساتھ بڑے بھیا کی بھی صلواتیں سن رہے ہیں۔ایک ایڈمنسٹریٹر ہونا اور ریاست کے وزیر اعظم ہونے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا عاطف اسلم اور مہدی حسن میں۔پھر خیر سے وہ جب بھی بولتے ہیں ایسی شرلی ضرور چھوڑتے ہیں جسے سن کر روتی عوام کی بھی ہنستے ہنستے وکھیاں تھک جائیں۔کپڑے بیچ کر آٹا دلوانے سے لیکر آپ سمجھیں گے کہ میں مانگنے آیا ہوں تک تو سمجھ آتی تھی۔اب انہوں نے قومی اسمبلی میں فرمایا ہے کہ میری ساتھی قانون کی باتیں سناتے ہیں جو میرے اوپر سے گذر جاتی ہیں۔سر جی آپ قانون کے نام پر نیوے نیوے ہوں گے تو وہ اوپر سے ہی گذرے گا۔
میں بقلم خود رانا ثناء اللہ سمیت پی ڈی ایم عرف مخلوط حکومت عرف اتحادیوں کی اس بات سے متفق ہوں کہ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا 8سال سے رکا فیصلہ سامنے آنا چاہئے۔”گل سولہ آنے فٹ“ ہے بلکہ موجودہ حالات میں بٹ ہے۔رہے8سال سے خون کا حساب مانگنے والے والے ماڈل ٹاؤن شہدا کے متاثرین کے متاثرین کو ان کی خبر ہے۔دن کی روشنی میں کواتین سمیت نہتے معصوم شہریوں کو جس طرح سیدھی گولیاں ماریں گئیں اس طرح تو شاید مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں نہیں ہوتا۔ما شا اللہ عدالتیں اتنی اازاد ہین کہ ٓاج تک ہم مجرموں کو سزا تو دور ان کا تعین نہیں کر سکے۔سیڈی وزیر اعظم سے لے کر پھیڈی وزیر داخلہ تک سب کی گردنیں لوہے کی ہیں۔انہیں موڑا جا سکتا ہے نہ مروڑا۔آپ سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ تین ماہ کی ذلت،جگ ہنسائی اور بے توقیری کی وجہ آپ کو جیلوں اور صدراتی نظام کا خوف دلا کر لانے والے ہیں۔نہ کاکا نہ آج جو بھی رسوا ہو رہا ہے خود پرتھو تھو کر رہا ہے۔ان سب کے پیچھے ماڈل ٹاؤن شہدا کے لواحقین کی بددعائیں اور سسکیاں ہیں اور یاد رکھیں ہم ان عدالتوں سے فرد جرم پر کئی کئی ماہ کی تاریخیں ڈلوا لیں گے،اوپر کی عدلات میں پہلی پیشی پر ”سجنا نوں قید بول“جائے گی۔اس عدالت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔
اسے کہتے ہیں ”نالے کھاؤ خوبانیاں تے نالے بھنو بدام“ ہمارے شہباز بھیا کی جان پر بنی ہے اور ننھے بلاول بھٹو پیڈ انٹرن شپ پر ”موجاں ای موجاں“گاتے پھر رہے ہیں۔کیا شاندار وزیر خارجہ ہے کہ انکل سام سے دوستی کا دعوی کرتا ہے اور آئی ایم ایف سے سفارش کے لئے فون جنرل باجوہ کو کرنا پڑتا ہے۔جو بولے سو نہال اسی کو سول سیر مستی کہتے ہیں۔بنتا سنگھ کی بیوی بولی سوچیں اگر میری شادی کسی اور سے ہو جاتی،بنتا بولا خیر میں کدے کسی دا برا نہیں چاہا۔تومیرے پیارے زندہ رہنے جیسی ننھی منی خواہش رکھنے والے پاکستانیو آپ کو بھی کسی کا برا نہیں چاہنا۔ ہمارے خوابوں کو مستقبل کی قبروں پر اگر کوئی پاؤں رکھتا ہوا ایوان اقتدار تک پہنچ جاتا ہے اور رج کی مستیاں بلکہ خرمستیاں کرتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ”لوس لوس“ کر اپنا ہی خون ساڑنا ہے، یہ ملک تو ویسے بھی ایک اصطبل ہے۔ ہر منٹ بعد ایک نیا کٹا کھل جاتا ہے۔1947ء سے ہم ہر بار ایک ہی امید باندھتے ہیں ہو سکتا ہے اس بار اس سسٹم سے شاید کوئی کٹا کئی نکل ہی آئے لیکن ہر بار ہاتھ ہو جاتا ہے۔لکھنے والا ہر بار سکرپٹ تبدیل کر دیتا ہے اور قوم پھر ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔