بات انتہائی غیر معمولی تھی۔چونکا دینے والی تھی۔میرا ہڑبڑانا بنتا تھا ۔پیروں سے زمیں سرکی تو آسماں بھی سر پر تھرا اٹھا ۔جو بات تھی نہیں میں اسکو کیسے مان لیتا ۔میں کوئی گھاک نہ تھا کہ جان لیتا یہ کالی دنیا کے شیطانوں کارچایا ہوا کھیل ہے جو وہ حوا کی بیٹیوں کے نرم و نازک ریشمیں مہکتے بدنوں میں گھس کر کھیلتے ہیں۔
اتنے میں گنگو چٹکی دار آواز میں آدھمکا ’’ ببر گڑ بڑ ہے ۔ٹیچر زرینہ بناو سنگھار کئے بیٹھی ہے اور تیرے گیت گارہی ہے ‘‘میں نے خشمگین انداز میں دیکھا تو بولا ’’ وہ تیرے روپ میں ہی آتا ہے ،اس سے لگن کرتا ہے ببر ۔۔۔ ‘‘
’’ میرے روپ میں کون آتا ہے ۔پتا کرنا ،تو جانتا ہے میں نو دنوں کی تپسیا کے بعد آرہا ہوں ‘‘
’’ پہلے اندر چل پھر کچھ سمجھتے ہیں کیا گورکھ دھندہ ہے‘‘ گنگو نے ٹہوکا دیا ۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے دہلیز پر قدم رکھے تو ٹیچر زرینہ کی امی نے ایک بار پھر قاہرانہ نظروں سے دیکھا،انکی آنکھیں متورم تھیں،لگتا تھا کئی راتوں کا رت جگا ہے۔چہرے پر پیلاہٹ ۔لہجے میں قہر تھا مگر اس میں بناوٹ اوربھرم کے سوا کچھ نہیں تھا ۔وہ اندر تک ڈری ہوئی تھیں اور لاچارگی میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔بیٹی کی محبت اور عزت نے ان کے سینے پر صبر کی سل رکھی ہوئی تھی تبھی تو بے چاری پچھلے نو دنوں سے اپنے گھر میں ایک ایسا منظر دیکھ رہی تھیں جو کوئی غیرت مند اور شریف عورت برداشت نہیں کرسکتی۔کون ہے جو یہ اذیت گوارا کرتا ہے کہ کوئی بچہ نما مرد اسکی جواں سال بیٹی کے پہلو کو گرم کئے رکھتا ہو اور بے شرموں کی طرح اسکے سامنے دانت نکوستا ہو،منہ چڑاتا ہو۔ایک اوباش کی طرح ایسا خطرناک بچہ ۔۔۔ وہ میں نہیں تھا لیکن ٹیچر زرینہ کی امی کو یہ یقین کون دلاتا۔آنکھوں دیکھے کو کون جھٹلاتا ہے۔
’’ تو باز آجا ۔اپنی ماں کے دودھ کی حیا کرلے ،ہم کو بدنام نہ کر اور چلا جا۔۔۔‘‘ اس بار ان کے لہجے کی چٹانیں صدمے اور شکستگی سے ٹوٹ گئی تھیں۔
’’ مجھے اپنی ماں کے دودھ کی قسم ہے ،میں نو دنوں بعد ہی آج ٹیچر زرینہ سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔‘‘ اچانک میرے منہ سے یہ جملے نکلے تو لحظہ بھر میں اپنی متانت اور ذہانت پر چونکا لیکن ساتھ ہی گنگو کسمساکر بولا’’ پریشان نہ ہو،بولتا جا ‘‘
’’ اگر آپ مجھے چند منٹ کی اجازت دیں تو میں یہ ثابت کردوں گا کہ وہ میں نہیں تھا ‘‘
وہ بے یقینی کے عالم میں میرا منہ تکنے لگیں ۔
’’ تو سچ بولتا ہے کیا‘‘ ان کے چہرے پر اچانک خوف سے ہوائیاں اڑنے لگیں ’’ تو پھر کک کک کون ہے وہ۔۔۔‘‘ انہوں نے بے ارادہ پیچھے جھانک کر دیکھا اور انگلی سے اشارہ کیا جسے کسی کی آہٹ محسوس کی ہو۔ پھر سنبھل کر بولیں ’’ تیری بات کا یقین کیسے کرلوں ۔تو قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا پھر یقین کروں گی‘‘
یہ سنتے ہی میں اندر تک لرز گیا ۔میں ایک نوری اور مقدس و منزہ کتاب پر ہاتھ نہیں رکھ سکتا تھا ۔میں وہ بھڑکتا ہوا شیطانی مائع تھا جو قرآن مجید کے نور سے لمس لیتا تو جل کر راکھ ہوجاتا ۔
مجھے خاموش دیکھ کر گنگو بولا’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔تو اسے بول کہ قرآ ن مجید پر قسم کھانے کے لئے تیار ہے ‘‘
’’ یہ کک کیسے ہوسکتا ہے ‘‘ میں نے گنگو سے کہا کیونکہ یہ تو میں جانتا تھا کہ نورانی کلمات سے مجھے دور رکھنے میں میرے پاپی باپ نے کتنے کشٹ جھیلے تھے۔
’’ یار وہ اندر جائے گی تو دروازہ کھلا چھوڑ جائے گی ناں ۔تو اندر چلے جانا۔ایک بار تو گھر میں داخل ہوگیا تو پھر باقی بھی معاملہ سنبھال لیں گے‘‘ گنگو نے تدبیر بتائی لیکن مجھے اندر ہی اندر یہ خوف پیدا ہوگیاتھا کہ اگر وہ کلام پاک اٹھا لائیں تومیرا بہت برا حشر ہوجائے گا ۔لیکن میں نے رسک لیا۔
’’ آپ کلام مجید لے آئیں ،میں اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاوں گا‘‘ میں نے اپنے لہجے کو مضبوط بناتے ہوئے کہا
ایک لمحہ کے وہ رکیں ،میری آنکھوں میں دیکھا اور بولیں ’’ اچھا تو اندر آجا ‘‘
انہوں نے میرا اعتماداور معصومیت دیکھ کر ارادہ بدلا اور مجھے اندر بلالیا۔وہ خود ایک طرف ہوگئیں اور میں ٹیچر زرینہ کے کمرے کی جانب جانے لگا تو یکایک گنگو نے میرا کاندھا دبادیا۔’’ وہ حرامی آچکا ہے ۔ٹیچر زرینہ اسکی قربت میں مدہوش ہوئے جارہی ہے،یہ دیکھ وہ کتنا بڑا بدمعاش ہے کہ اسے کوئی پرواہ ہی نہیں کہ کوئی اس پر چھاپا بھی مارسکتا ہے ‘‘
گنگو کی بات سن کر میرے بدن میں جیسے آگ لگ گئی۔کان سلگ گئے اور مٹھیاں بھینچ کرکہا ’’ میں بھی دیکھوں یہ ہے کون ؟‘‘
گنگو نے مجھ روک لیا’’ دھیرج مہاراج دھیرج ۔۔۔یہ سمے ایسا نہیں کہ تو اس پر جا چڑھے ۔نہ جانے اسکے پاس کتنا عمل ہے ۔یہ تو میں جان گیا ہوں کہ وہ منش نہیں ہے۔ہوائی ہے۔اور جنات میں سے لگتا ہے ‘‘
’’ جنّ ہے تو میں کیا کروں ‘‘ میں اکڑ گیا’’ اسکو ایک ہی پھونک سے جلادوں گا‘‘ اس وقت جیسے میرے اندر کا وہ کالا عامل کسی جوالا کی طرح انگڑائی لیکر للکارنے لگا جو کئی راتوں کی تپسیاوں سے پروان چڑھا تھا ۔
’’ میں نے بولا ناں۔کوئی غلط قدم نہیں اٹھانا ۔پہلے اس کو ناپ تول لوں اور اسکو یہیں اسی کمرے میں باندھنا ہوگا تاکہ وہ بھاگ نہ سکے ۔۔۔‘‘
گنگو کا سمجھانا میرے کام آگیا ۔
اس دوران ہی ٹیچر زرینہ کے کمرے سے ہلکی موسیقی کی آواز آنے لگی اور پھر کوئی انتہائی عجیب سی آواز میں گیت گنگنانے لگا ۔میں نے پلٹ کر ٹیچر زرینہ کی امی کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں حیرتوں کا تلاطم برپا تھا۔انکے بدن پر لرزہ طاری تھا۔وہ پاس پڑی چارپائی پر ڈھیر ہوگئیں ،انگلی سے ٹیچر زرینہ کے کمرے کی جانب اشارہ کیا اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ بولیں ’’ بابر وہ کون ہے؟‘‘ اب انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ٹیچر زرینہ کے ساتھ کمرے میں موجود بابر حسین نامی کوئی انسان نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ بابر حسین تو انکی آنکھوں کے سامنے موجود تھا ۔
میں نے انہیں تسلی دی’’ آپ پریشان نہ ہوں۔یہ کوئی شیطان ہے ۔میں اسکا علاج کرتا ہوں‘‘
یہ سن کر وہ مزید پریشان ہوگئیں’’ تم کیا کرسکتے ہو ،ایک چھوٹا سا بچہ کسی جنّ شیطان کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے ‘‘
’’ آپ مطمئین رہیں ۔یہ بچہ اتنا بچہ بھی نہیں ۔میں اپنی ٹیچر زرینہ کو اس کے حوالے نہیں کرسکتا ‘‘ میرے لہجے کا استقلال دیکھ کر ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
گنگو نے میری رہ نمائی کی اور میں نے وہ حصار اپنے اور بڑی خاموشی سے ٹیچر زرینہ کے کمرے کے دروازہ پر قائم کردیا جس سے بڑے سے بڑا جنّ بلا باہر نہیں نکل سکتا تھا ۔اپنی عملی زندگی کا یہ پہلا بڑا عمل تھا جو میں نے ٹیچر زرینہ کو بچانے کے لئے کیا تھا ۔
اب مجھے اطمینان تھا۔گنگو نے اشارہ کیا اور میں نے آگے بڑھ کر کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ بے آواز کھل گیا۔جونہی میں نے اندر قدم رکھا میرے کانوں سے کسی خونخوار درندے جسی غراہٹ ٹکرائی۔دروازے کی دائیں جانب ٹیچر زرینہ کا بیڈ تھا ۔اسکی بائیں جانب کھڑکی تھی جو چھوٹے دالان میں کھلتی تھی۔دالان سے پار پھول دار چھوٹی سی کیاری تھی جس میں ٹیچر زرینہ نے اپنی پسند کے پھول اگا رکھے تھے۔کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور اس سے پھولوں کی بھینی بھینی مہک کمرے میں آرہی تھی۔
کمرے میں میری موجودگی کا احساس ہوتے بیڈ پر نیم عریاں بابر حسین آنکھوں میں ہوس آلود مسکراہٹ لئے بیٹھا تھا،ٹیچر زرینہ کے بدن پر مہین سفید لباس تھا جو کیاری سے آنے والی ہوا سے ہلکا ہلکا لرزہ رہا تھا۔اسکے بدن کے اجالے سے پورا کمرہ مدہوش تھا۔اس کا سر بابر حسین کی گود میں تھا اور آنکھیں موندھے جیسے کہیں بہت دورآشاوں کی منزلوں میں کھوئی ہوئی گنگنا رہی تھی۔یاقوتی ہونٹوں پر دلاویز مسکان تھی اوران کے کناروں پر بابر حسین کی انگلیاں رینگ رہی تھیں ۔
بابر حسین نے مجھے دیکھا ،اسکی آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی،لبوں پر ہوس گیر مسکان ۔ایک بار تو میں دھوکا کھا گیا ۔لگا جیسے بیڈ پر میں ہی بیٹھا ہوں۔وہ میرے وجود کا مالک بنا ہوا میری ٹیچر زرینہ کے ساتھ لذتوں اورمستیوں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن اب میں نے اسکا سارا مزہ کرکرہ کردیاتھا۔اس نے بڑے شاہانہ انداز میں مجھے انگلی سے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔پھر ہاتھ جھٹک کر اس نے کہا’’ تو دفع ہوجا ‘‘
اسکی آواز سن کر گنگو بولا’’ اس نے مجھے دیکھ لیاہے۔‘‘
اسکی غراہٹ نے میرے کانوں کو چھوا لیکن اس سمے اسکے ہونٹ خاموش تھے’’ اسکو باہر بھیج دے بابر حسین ورنہ تیرے ساتھ یہ بھی مارا جائے گا‘‘
یہ سنتے ہی گنگو بولا’’ اچھا چلا جاتا ہوں لیکن مہاراج آپ ہو کون‘‘
گنگو بھی بڑا کایاں تھا ،اسکے سوال کے جواب میں اس نے مہیب قہقہ لگایا۔یہ قہقہ جو صرف میں ہی سن پایا تھا یا پھرگنگو ۔ٹیچر زرینہ نے ہوشربا انداز میں انگڑائی لی پہلو بدلا اور اپنے ہاتھ سے بابر حسین کے ہاتھ کو پکڑ کر پریم سے اسکو سہلانے لگی۔یہ دیکھ کر میری رگوں میں لہو کی گرمی ٹھاٹیں مارنے لگی،کیمنے گنگو نے بھی ایک لمبی سسکی بھر لی ۔ (جاری ہے)
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں