مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 46

Jun 01, 2017 | 01:35 PM

ابویحییٰ

میدان حشر میں بار بار لوگوں کا نام پکارا جاتا۔ جس کا نام لیا جاتا دو فرشتے تیزی سے اس کی سمت جھپٹتے اور اس کو لے کر پروردگار کے حضور پیش کردیتے۔ لگتا تھا کہ فرشتے مسلسل اپنے شکار پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے اس مجمع سے بلا تردد اپنے مطلوب شخص کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میری متلاشی نگاہیں لاشعوری طور پر جمشید کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔ صالح میری کیفیت کو بھانپ کر بولا:
’’میں جان بوجھ کر تمھیں اس کے پاس نہیں لے جارہا۔ اس کی بیوی، بچے، ساس، سسر سب کے لیے پہلے ہی جہنم کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ اس کا کیا انجام ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود کوئی فیصلہ کردیں۔‘‘

مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی بات سن کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میری کیفیت بہت اداس اور غمگین ہوجاتی۔ لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں ایک احساس پیدا ہوا۔ میں صالح سے کہنے لگا:
’’میرے رب کا جو فیصلہ ہوگا وہ مجھے قبول ہے۔ میں اپنے بیٹے سے جتنی محبت کرتا ہوں میرا مالک میرا ان داتا اس سے ہزاروں گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بلکہ ساری مخلوقات اپنی اولاد کو جتنا چاہتی ہے، میرا رب اس سے بڑھ کر اپنے بندوں پہ شفقت فرمانے والا ہے۔ جمشید کی معافی کی اگر ایک فیصد بھی گنجائش ہے تو یقیناًاسے معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر وہ کسی صورت معافی کے لائق نہیں تو رب کے ایسے کسی مجرم سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں۔ چاہے وہ میرا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
میری بات سن کر صالح مسکرایا اور بولا:
’’تم بھی بہت عجیب ہو۔ اتنے عجیب ہو کہ بس۔۔۔‘‘
’’ہاں !شاید میں عجیب ہوں، مگر ایک کریم رب کا بندہ ہوں۔ اس نے میرے قلب پر سکینت نازل کردی ہے۔ اب مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں۔ ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟‘‘
’’یہ ہوئی نا بات۔ اب تم لوٹے ہو۔ اب تم دوبارہ ایک باپ سے عبد اللہ بنے ہو۔ لیکن میں تمھیں یہ بتادوں کہ ابھی تک لوگوں کی نجات کا امکان ہے۔ اللہ تعالیٰ میدان حشر کی اس سختی کو بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معافی کا سبب بناکر ان کے نیک اعمال کی بنا پر انھیں معاف کررہے ہیں۔ تم نے اتفاق سے سارے مجرموں کا حساب کتاب ہوتے دیکھ لیا، مگر کچھ لوگوں کو ابھی بھی معاف کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ خد اکے انصاف میں کوئی سچی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔‘‘
میں نے صالح کی بات کے جواب میں کہا:
’’بے شک میرا رب بڑا قدردان ہے، مگر ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’ہم دراصل جہنم کی سمت جارہے ہیں۔ میں تمھیں اب اہل جہنم سے ملوانا چاہ رہا ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہم جہنم میں جائیں گے؟‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہ بات نہیں۔ اس وقت اہل جہنم کو جہنم کے قریب پہنچادیا گیا ہے۔ یہ جو تم میدان دیکھ رہے ہو اس میں الٹے ہاتھ کی سمت ایک راستہ بتدریج گہرا ہوکر کھائی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جہنم کے ساتوں دروازے اسی کھائی سے نکلتے ہیں۔ جیسا کہ تم نے قرآن میں پڑھا ہے کہ ان سات دروازوں میں سات مختلف قسم کے مجرم داخل کیے جائیں گے۔‘‘
صالح مجھے یہ تفصیلات بتا ہی رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میدان میں نشیب کی سمت ایک راستہ اتررہا تھا۔ ہم اس راستے پر نہیں گئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو بلند زمین تھی اس پر چلتے رہے۔ تھوڑی دیر میں یہ راستہ تنگ ہوکر کھائی کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ ہم اوپر ہی تھے جہاں سے ہمیں نیچے کا منظر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ اس راستے پر جگہ جگہ فرشتے تعینات تھے جو مجرموں کو مارتے گھسیٹتے ہوئے لارہے تھے۔
تھوڑا آگے جاکر اس تنگ راستے یا کھائی پر رش بڑھنے لگا۔ یہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ بدہیبت اور بدشکل مرد و عورت اس جگہ ٹھسے پڑے تھے۔ یہ وہ ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے جن کے انجام کا اعلان ہوچکا تھا اور جہنم میں داخلے سے قبل انہیں جانوروں کی طرح ایک جگہ ٹھونس دیا گیا تھا۔
وقفے وقفے سے جہنم کے شعلے بھڑکتے اور آسمان تک بلند ہوتے چلے جاتے۔ ان کے اثر سے یہاں کا سارا آسمان سرخ ہورہا تھا۔ جبکہ ان کے دہکنے کی آواز ان مجرموں کے دلوں کو دہلارہی تھی۔ کبھی کبھار کوئی چنگاری جو کسی بڑے محل جتنی وسیع ہوتی اس کھائی میں جاگرتی جس سے زبردست ہلچل مچ جاتی۔ لوگ آگ کے اس گولے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو کچلتے اور پھلانگتے ہوئے بھاگتے۔ ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا جب کچھ بڑے مجرم اس گروہ کی طرف لائے جاتے تو آگ کا یہ گولہ ان کا استقبال کرنے آتا۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی اذیت اور تکلیف میں اور اضافہ ہوجاتا۔
صالح نے ایک سمت اشارہ کرکے مجھ سے کہا:
’’وہاں دیکھو۔‘‘
جیسے ہی میں نے اس سمت دیکھا تو مجھے وہاں کی ساری آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ یہ کچھ لیڈر اور ان کے پیروکار تھے جو آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ پیروکار اپنے لیڈروں سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے تمھارے کہنے پر حق کی مخالفت کی تھی۔ تم کہتے تھے کہ ہماری بات مانو تمھیں اگر کوئی عذاب ہوگا تو ہم بچالیں گے۔ کیا آج ہمارے حصے کا کوئی عذاب تم اٹھاسکتے ہو یا کم از کم اس سے نکلنے کا کوئیٍ راستہ ہی بتادو؟ تم تو بڑے ذہین اور ہر مسئلے کا حل نکال لینے والے لوگ تھے۔
وہ لیڈر جواب دیتے: اگر ہمیں کوئی راستہ معلوم ہوتا تو پہلے خود نہ بچتے۔ ویسے ہم نے تو تم سے نہیں کہا تھا کہ جو ہم کہیں وہ ضرور مانو۔ ہم نے زبردستی تو نہیں کی تھی۔ ہمارے راستے پر چلنے میں تمھارے اپنے مفادات تھے۔ اب تو ہم سب کو مل کر اس عذاب کو بھگتنا ہوگا۔ اس پر پیروکار کہتے: اے اللہ ہمارے ان لیڈروں نے ہم کو گمراہ کیا۔ ان کو دوگنا عذاب دے۔ جواب میں وہ لیڈر جھنجھلاکر کہتے کہ ہمیں بد دعا دے کر تمھاری اپنی حالت کونسی بہتر ہوجانی ہے۔
اس گفتگو پر صالح نے یہ تبصرہ کیا:
ان سب کے لیے ہی دوگنا عذاب ہوگا کیونکہ جو پیروکار تھے وہ بعد والوں کے لیڈر بن گئے اور ان کو اسی طرح گمراہ کیا۔ دیکھو ان کے مزید پیروکار آرہے ہیں۔
میں نے دیکھا تو واقعی اس ہجوم میں دھکم پیل شروع ہوگئی کیوں کہ کچھ اور لوگ ان کی طرف آئے تھے۔ وہ لیڈر بولے۔ ان بدبختوں کو بھی یہیں آنا تھا۔ پہلے ہی جگہ اتنی تنگ ہے یہ بدبو دار لوگ اور آگئے۔ نئے آنے والے اس بدترین استقبال پر آپے سے باہر ہوگئے اور ایک نیا جھگڑا شروع ہوگیا۔ جو تھوڑی دیر میں مار پیٹ میں تبدیل ہوگیا۔ اہل جہنم ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، گالیاں بکتے باہم دست و گریباں ہوگئے۔ لاتیں گھونسے، دھکم پیل اور چیخ و پکار کے اس حبس زدہ ماحول میں لوگوں کی جو حالت ہورہی تھی، ظاہر ہے میں صرف دیکھ اور سن کر اس کا اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ یہ لوگ اپنی دنیا کی زندگی کو یاد کرکے ضرور رو رہے ہوں گے جس میں ان کے پاس سارے مواقع تھے، مگر جنت کی نعمت کو چھوڑ کر انھوں نے اپنے لیے جہنم کی اس وحشت کو پسند کرلیا۔ صرف چند روزہ مزوں ، فائدوں ،خواہشات اور تعصبات کی خاطر۔(جاری ہے)

مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مزیدخبریں