نوٹاراس خود یونانی تھااور پھر کٹر مذہبی تھا۔ چنانچہ وہ یونانی کلیسا کی توہین سنتے ہی مشتعل ہوگیا اور بھنا کر بولا۔’’ہرگز نہیں۔۔۔میں دی ہولی آرٹھوڈکس چرچ کی یہ ذلت کبھی گوارا نہیں کروں گا۔ آپ بطریق اعظم کو میرا پیغام پہنچا دیجئے کہ وہ بالکل فکر مند نہ ہوں۔ بلکہ انہیں میری طرف سے یہ مشورہ بھی دیجئے کہ وہ کل ہی شہر میں موجود تمام پادریوں اور راہبوں کی ایک ہنگامی مجلس کا انعقاد کریں جس میں تمام چرچوں کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ عوام میں شہنشاہ کے ان اقدامات کے ختلاف تحریک چلائیں۔ اورلوگوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ کارڈنیل کی صدارت اور رومن کیتھولک چرچ کی بالادستی کسی صورت گوارا نہ کریں گے۔‘‘
قاسم تو سمجھ رہا تھا کہ سپہ سالار نشے میں بہک چکا ہے۔ لیکن سپہ سالار کا مشورہ سن کر قاسم نے سوچا کہ نوٹاراس پوری طرح ہوش میں ہے۔ نوٹاراس بلا کا مے نوش تھا۔ اسے بہت کم نشہ چڑھتا تھا۔ قاسم نوٹاراس کے مشورے پر بہت مسرور ہوا اس نے نوٹاراس کو داد دی اور وعدہ کیا کہ وہ بطریق اعظم کو مشترکہ اجلاس سے پہلے یونانی کلیسا کا ایک علیحدہ اجلاس بلانے کے لئے قائل کرے گا۔
معاً قاسم کے ذہن میں خیال آیا اور اس نے انتہائی سلیقے سے نوٹاراس سے ایک اہم سوال کر دیا’’محترم سپہ سالار! اگر آپ برا نہ مانیں تو میں صرف اپنی تسلی کے لئے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔اور وہ یہ کہ کیا ہم اکیلے رومی کلیسا کی امداد کے بغیر سلطان محمد خان کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔۔۔ میرا مطلب ہے ہمارے پاس کتنی جنگی صلاحیت ہے؟‘‘
قاسم کا سوال سن کر نوٹاراس کا چہرہ فق ہوگیا۔ کسی نے گویا اسکے جسم کا خون نچوڑ لیا تھا۔ دراصل یہ سلطان محمد خان کے نام کی دہشت تھی۔ نوٹاراس عثمانی سلاطین کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے کسی قدر سنبھل کر قاسم کو جواب دیا۔
’’ہمارے پاس اپنی فوج پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں آدھے سے زیدہ سوار دستے ہیں۔ اس کے علاوہ قسطنطنیہ کے گرد و نواح سے اور یونان کے بعض علاقوں سے ہمارے پاس اتنی فوجی امداد پہنچ جائے گی کہ ہماری تعداد سلطانی فوج کے برابر ہوگی۔ ایک چیز میں ہم سلطان پر حاوی ہے اور وہ ہے بحری طاقت، عثمانیوں کے پاس نہ بحری قوت ہے نہ مہارت۔ ان کے مقابلے میں ہم تو رہتے ہی سمندر کے بیچوں بیچ ہیں۔ اور پھر سب سے بڑی بات کہ ہماری فصیل اتنی مضبوط ہے جسے آج تک کوئی فاتح بھی عبور نہیں کر سکا۔‘‘
قاسم نے انتہائی نازک معلومات اگلوانی شروع کردی تھیں۔ اور یہی قسطنطنیہ میں اس کا فریضہ تھا۔ نوٹاراس فصیل کی بات پر پہنچا تو قاسم نے جھٹ سے کہا۔
’’لیکن میں نے تو سنا ہے کہ فصیل شہر بعض جگہوں سے ناکارہ ہو چکی ہے ۔۔۔کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں یہ سچ ہے۔ لیکن اب تو نہایت تیزی سے ان مقامات کی مرمت کا کام جاری ہے ۔۔۔ہم مسلمانوں سے مار نہیں کھائیں گے۔ کیونکہ قسطنطنیہ پر یسوع مسیح کا سایہ ہے۔ آپ تو فادر ہیں مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔‘‘ نوٹاراس نے اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے مذہبی برکات کا سہارا لیا۔ قاسم یہ موقع ہاتھ سے کہاں جانے دیتا تھا۔ فوراً بولا۔
’’کیوں نہیں! جس شہر میں آیا صوفیاء جیسا مرکز ہو اس شہر کو آنچ کیسے آسکتی ہے۔ میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ یہ بتاتا ہوں کہ یہ شہر رہتی دنیا تک اسی طرح ہنستا بستا اور آباد رہے گا۔‘‘
’’شاباش نوجوان فادر!۔۔۔آپ کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم رومن کیتھولک چرچ کے سامنے ذلیل ہونے سے بچ جائیں گے۔‘‘
اس طرح کی باتوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ور بہت سا وقت گزر گیا۔ قاسم نے نوٹاراس سے بہت اہم اور خفیہ معلومات حاصل کرلی تھیں اور اب قاسم سوچ رہا تھا کہ اسے آج رات ہی سلطان کے نام ایک طویل خط تحریر کرنا پڑے گا۔
قاسم نوٹاراس کے گھر سے لوٹا تو سونیا اس کے کمرے میں موجود تھی۔ اس نے نہا دھو کر نیا لباس پہنچ رکھتا تھا اور پلکوں کو کالا کرنے کے لیے خصوصی مسالہ لگا رکھا تھا۔ اس کے ماتھے پر ایک لٹ کسی سانپ کی طرح کنڈل مارے بیٹھی تھی اور اس کے گالوں میں دبی دبی ہنسی کی وجہ سے بھنور پیدا ہو رہے تھے۔ سونیا راہبہ تو نہ تھی۔ صرف خادمہ تھی۔ لیکن پھر بھی آیا صوفیاء جیسے چرچ میں اس کا اس طرح بن سنور کر رہنا قاسم کو عجیب سا لگا۔ لیکن قاسم اپنے تیر بہ ہدف نشانے پر دل ہی دل میں مسکرا دیا۔ سونیا محض اس لئے بن ٹھن کر آئی تھی کہ قاسم جیسے وجیہہ نوجوان نے اس کی بہت زیادہ تعریف کر دی تھی لیکن پھر بھی قاسم کو سونیا کی موجودگی پر حیرت ہوئی اور اسنے پچھلے رویے کو برقرار رکھتے ہوئے سونیا سے پوچھا۔
’’سونیا! اس قدر بن سنورکر رہو گی تو کسی دیوانے کی نظروں میں آجاؤ گی۔ میں تو کہتا ہوں اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔اور ہاں، اس وقت میرے کمرے میں تمہارا آنا کیسے ہوا؟‘‘
قاسم کی بات کے پہلے حصے نے سونیا پر سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ لیکن پھر ایک دم اسے اپنا فرض یاد آیا اور اسنے قاسم سے کہا’’میں بطریق اعظم کے حکم سے یہاں آئی ہوں۔ انہوں ے کہا ہے کہ آپ جس وقت بھی تشریف لائیں ان سے مل لیں۔‘‘
قاسم ایک لمحے کے لئے چونکا اور پھر کچھ سوچ کر بطریق اعظم کے پاس جانے کے لیے مڑا۔ پیچھے سونیا کی آواز سنائی دی۔
’’بطریق اعظم نے مجھے آپ کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔‘‘
قاسم ایک دم رک گیا۔ اور پھر سونیا کی طرف متوجہ ہو کردریافت کیا۔
’’تو پھر تم نے کیا بتایا؟‘‘
’’میں نے یہ بتایا کہ آپ دین یسوع مسیح ؑ کے اور مخلص عیسائی ہیں۔ آپ کے دل میں قسطنطنیہ کو بچانے کا بے پناہ جوش ہے۔ اور آپ ایک بالکل سچے اور کھرے انسان ہیں۔۔۔کیا میں نے صحیح بتایا؟‘‘
اب قاسم حیران ہو رہا تھا۔ اسے توقع نہ تھی کہ تھوڑی سی تعریف پر سونیا اس قدر فدا ہو جائے گی۔ وہ پریشان ہونے لگا۔ یہ لڑکی کہیں اس پر فریفتہ تو نہیں ہوگئی۔ اسی خیال کے تحت اس نے سونیا کو پہلی بار قدرے روکھا ساجواب دیا۔
’’سونیا! تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے سچ سچ بات بطریق اعظم کو بتا دی۔‘‘
قاسم کمرے سے نکل آیا اور سونیا اس کو پشت کی جانب سے میٹھی میٹھی نظروں کے ساتھ دیکھتی رہی گئی۔
اگلا دن قاسم کے لئے اور زیادہ مصروفیت کا تھا۔ بطریق اعظم نے نوٹاراس کے مشورے پر یونانی کلیسا کی میٹنگ طلب کر لی تھی۔ قاسم، بطریق اعظم کے کہنے پر ضروری دستاویزات تیار کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بطریق اعظم یونانی کلیسا کے تمام پادریوں کو شہنشاہ کی ہر زیادتی کا ثبوت دکھانا چاہتا تھا۔ بطریق اعظم کا اثر و رسوخ چھوٹے چھوٹے پادریوں کی وساطت سے تمام علاقوں کے عوام میں دور دور تک تھا۔ یہی دور تھا جب ’’رومہ‘‘ میں وہاں کے شہنشاہ سے زیادہ پوپ کی قوت تھی اور قسطنطنیہ میں شہشناہ سے زیادہ بطریق اعظم کی شہرت اور قدر وقیمت تھی۔ اسی دورکو یورپ کے زوال کا آخری دور کہا جاتا ہے۔
مذہبی منافرت عروج پرتھی۔ اور ابھی ’’مارٹن لوتھر‘‘ کا پروٹسنٹنٹ فرقہ پیدا نہ ہوا تھا۔ ’’رومہ‘‘ کا پوپ پوری مغربی عیسائی دنیا کا صرف روحانی پیشوا ہی نہ تھا بلکہ تمام سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اسی زمانے میں ’’رومہ‘‘ میں کلیساکی مذہبی عدالت نے لاچار عوام پر پے درپے مظالم ڈھائے۔ عیسائیت ہوس پرست مذہبی پیشواؤں کی لونڈی بن چکی تھی اوریورپ کے تمام مذہبی پیشوا بری طرح بے راہ روی کا شکار ہو چکے تھے۔ نشاۃ ثانیہ کے دور سے پہلے پہلے تک وسطی زمانے میں یورپ کے زوال کی آخریایک دو صدیاں عیسائی پادریوں کی سفاکی اور مظالم کی گواہ ہیں۔
تیرھویں صدی عیسوی میں سسلی اور جرمنی کے بادشاہ’’فریڈرک ثانی‘‘ پر پاپائے روم نے کفر کا فتویٰ لگایا تو فہرست الزامات میں یہ بھی درج تھا کہ ہر روز مسلمانوں کی طرح غسل کرتا ہے۔ غلیظ جسم اور میلے لباس کی وجہ سے جوؤں کی یہ کثرت تھی کہ ’’کنٹربری‘‘ کا لاٹ پادری باہر نکلتا تو اسکی قباء پر سینکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتیں۔1020ء تک لندن کے بازاروں میں انسانی گوشت بکتا تھا۔ فرانس کے ایک دریا’’دریا ساؤن‘‘ کے کنارے انسانی گوشت کی کتنی ہی دکانیں تھیں۔ پاپائے روم کی عدالت نے اپنے قیام کے پہلے سال دو ہزار اشخاص کو زندہ جلایا اور دس برس میں ستر ہزار افراد کو آگ میں پھینکا۔ فرانس کی مشہور زمانہ حریت پسند خاتون ’’جون آف آرک‘‘ بھی1431ء میں اسی سزا کا شکار ہوئی۔ یہ پاپائے روم کے بلا شرکت غیرے اختیار کا زمانہ تھا۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم تھا کہ روما کے اولین بادشاہوں میں سے پندرہ ہم جنس پرست تھے۔
قاسم اپنے کمرے میں آج شام ہونے والی میٹنگ کے لئے تیاری میں مصروف تھا کہ شعلہ جوالا سونیا پھر کمرے میں داخل ہوئی۔ سونیا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ وہ دوڑتی ہوئی قاسم کے قریب آئی اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ اور پھر یہ دیکھ کر قاسم کے چھکے چھوٹ گئے کہ سونیا رو رہی ہے۔ قاسم ششدر رہ گیا۔۔۔یہ کیا ماجرا تھا؟۔۔۔سونیا روتی چلی جا رہی تھی اور قاسم ہونقوں کی طرح آنکھیں پٹپٹاتا ہوا اسے دیکھے جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد قاسم کو ہوش آیا اور اسنے سونیا سے پوچھا۔
’’سونیا ! کیا بات ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’نہیں معزز مہمان، نہیں! مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مجھے جو کچھ کہا ہے آپ نے کہا ہے ۔۔۔میں پریشان ہوں۔ مجھے رات بھر نیند نہیں آئی۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟‘‘
قاسم سونیا کا مرض سمجھ گی تھا۔ وہ حالات کی ستائی ہوئی ایک غمزدہ لڑکی تھی۔ اس کے کان نرم لہجہ اورمحبت کے دو الفاظ سننے کے لیے ترستے ہوئے تھے۔ اسے جو بھی زندگی میں ملا، جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے لئے ملا تھا۔ وہ بڑے بڑے راہبوں اور بطریقوں کے اندرونی رازوں سے باخبر تھی۔ حتیٰ کہ بوڑھا بطریق اعظم بھی سونیا کی دسترس سے باہر نہ تھا لیکن سونیا کا دل کھول کر کبھی کسی نے دیکھا تھا کہ وہ کس قدر زخمی ہے۔ کل جب قاسم نے جھوٹے منہ سونیا کے ساتھ دو چار نرمی کی باتیں کیں اور سونیا کی تعریف کی تو وہ پسیج گئی۔ اس کے دل پر کچھ ایسا ہیجان طاری ہوا کہ رات بھر ایک پل کے لئے بھی نہ سو سکی۔ رات بھر قاسم کی تصویر اس کی آنکھوں میں گھومتی رہی۔ وہ صبح سے اب تک کمرے میں بیٹھی اپنے مقدر پر روتی رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو اس وجیہہ نوجوان کے لائق نہ پاتی تھی جو اس کی جانب ملتفت ہوا تھا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 83 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں