عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 81

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 81
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 81

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قاسم کو مارسی کا سراغ مل چکا تھا۔ لیکن مارسی کے بارے میں یہ سن کر اس کے دل میں طرح طرح کے خدشات سر اٹھانے لگے۔ کبھی وہ سوچتا کہ یہ البانوی کنیز کی وہ بیٹی نہیں ہے جو ’’لالہ شاہین‘‘ کی یادگار میں اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔ اور کبھی وہ یہ سوچتا کہ مارسی اب ایک مقدس اور باوقار راہبہ بن چکی ہے۔ لہٰذا اسے سسٹر میری سے دوبارہ مارسی بنانا آسان نہ ہوگا۔ وہ تو یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کیا مارسی دوبارہ اسلام چھوڑ کر عیسائیت میں داخل ہو چکی ہوگی؟ حالانکہ وہ مسلمان ہو چکی تھی اور ابتدائی اسلامی تعلیمات بھی حاصل کر چکی تھی۔ لیکن اس کے دل نے جواب دیا کہ نہیں۔ مارسی نے اسلام کو نہیں چھوڑا ہوگا۔
سونیا کے جانے کے بعد دیر تک وہ اسی قسم کے خیالات میں گم رہا۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے خادم ’’ڈیوڈ‘‘ نے اسے بطریق اعظم کے بلاوے کا پیغام دیا۔ اور تب قاسم کو یاد آیا کہ اسے تو آج ہی سپہ سالار ’’نوٹاراس‘‘ کے پاس جانا تھا۔ وہ اچھل کر اٹھا اور بطریق اعظم کے کمرے کی جانب چل دیا۔

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
روٹیوں کا اختلاف
قسطنطنیہ میں جنگ کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ شہر کی تمام آبادی چیونیٹوں کی طرح رسد جمع کرنے لگی ہوئی تھی۔ شہنشاہ نے مغرب یورپ کے فرمانرواؤں کی جانب امداد کیلئے تجربہ کار سفیر بھیج دیئے تھے۔ شہنشاہ’’پوپ جان نکلسن‘‘ کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے کلیسائے رومہ کے تمام مطالبات منظور کرکے یونانی کلیس اکو اس سے منسلک کرنے کا فیصلہ بھی کر چکا تھا۔ ’’وینس‘‘ اور ’’جنیوا‘‘ کے بحری بیڑے آبنائے باسفورس میں پہنچنے والے تھے۔ قسطنطنیہ ایک لاکھ سے زیادہ کی آبادی کا شہر تھا۔ شہر بھر کے تمام معمار فصیل شہر کو مرمت کرنے پر لگے ہوئے تھے۔ آہن گروں کا بازار شب و روز کھلا رہتا تھا اور چوبیس گھنٹے سینکڑوں کاریگر جنگ کے لیے بھاری اسلحہ تیار کر رہے تھے۔’’گولڈن ہارن‘‘ میں لٹکی زنجیر کو نئے سرے سے مرمت کیا گیا۔ شہر کی فصیل چودہ میل قطاع دائرہ میں نہایت مضبوط اور نا قابل تسخیر تھی۔ فصیل شہر کے چاروں طرف ایک گہری خندق بھی کھدی ہوئی تھی۔ جس میں بوقت ضرورت سمندر کا پانی چھوڑ دیا جاتا اور اس طرح شہر کی چاروں طرف پانی ہی پانی ہو جاتا۔ پرانی تعمیر کے برج اور دیوار کے وہ حصے جن پر توپیں چڑھائی جانی تھیں از سر نو مضبوط و مستحکم بنائے گئے۔
جنیوا کی افواج میں وہ مشہور و معروف سپہ سالار بھی تھا جس کا نام ’’کمانڈر جان جسٹینانی‘‘ تھا۔ یہ یورپ کا ایک انتہائی مایہ ناز جرنیل تھا۔’’شہنشاہ کو ’’جسٹینانی‘‘ کا شدت سے انتظار تھا۔ جسٹینانی کے جہاز بہت جلد در دانیال عبور کرنے والے تھے۔
الغرض اہل قسطنطنیہ، ’’سلطان محمد خان‘‘ کے استقبال کی پوری تیاریاں کرچکے تھے۔ ادھر سلطان محمد خان بھی قسطنطنہ پر حملہ کرنے کے لیے اپنی تیاریوں کے آخری مراحل میں تھا۔ اس غرض سے کہ قسطنطنیہ کے محاصرہ کے دوران اسے کسی دوسری جانب متوجہ نہ ہونا پڑے۔ا س نے ’’امیر کرمانیا‘‘ سے پہلے ہی صلح کر لی تھی۔ اور اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرکے اس فتنے کا خاتمہ کر دای تھا۔ اس کے بعد اس نے ہونیاڈے ، شاہ ہنگری کے ساتھ تین سال کی صلح کا معاہدہ کر لیا۔ ہونیاڈے رومن کیتھولک مذہب کا پیروکار تھا اور قسطنطنیہ سے اختلافات کی وجہ سے اس نے بھی سلطان کے ساتھ صلح غنیمت سمجھی اور اس طرح سلطان نے اپنی پشت پر شمالی یورپ کے خطرے کو بھی ٹال دیا تھا۔ البتہ’’موریا‘‘ کے علاقے میں قسطنطین کے دوسرے بھائیوں کی حکومت تھی۔ چنانچہ سلطان نے تجربہ کار سپاہیوں کا ایک لشکر’’موریا‘‘ والوں کا راستہ روکنے کیلئے بھیج دیا۔
آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل پر’’رومیلی حصار‘‘ تعمیر ہونے کے قریب تھا۔ سلطان نے ’’ادرنہ‘‘ میں اسی ہزار سے زیادہ بہترین سپاہی اکٹھے کر لئے تھے۔ اور ابھی تک مزید بھرتی کا سلسلہ جاری تھا۔ سلطان جانتا تھا کہ قسطنطنیہ کی فتح کے لیے محض سپاہیوں کی تعداد ہی کافی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان کا انجینئر، اربان شب و روز ایک بڑی اور تباہ کن توپ تیار کرنے میں مصروف تھا۔ ادھر سلطان کا بحری بیڑا بھی تیزی کیساتھ اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا۔
’’ادرنہ‘‘ کے قصر سلطانی میں ننھے شہشادے کے قتل کے بعد ’’ملکہ سروین‘‘ کی شامیں نہایت اداس گزرنے لگیں۔ سلطان نے خود ملکہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور ملکہ کوہر طرح سے یقین دلایا تھا کہ ننھے شہنشاہ کے قتل میں اس کا ہاتھ نہیں۔ سلطانی لشکر کے مشہور سپہ سالار ’’احمد کدک پاشا‘‘ اور’’محمود پاشا‘‘ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حملے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ جبکہ ’’آغا حسن‘‘ ہمہ وقت ’’ینی چری‘‘ کے مدیان حواجز میں ایک مصنوعی فصیل کو عبور کرنے کی مشق میں مصروف رہتا تھا۔ اس مشق میں آغا حسن کے ہمراہ پانچ سالار اور دو سو سے زیادہ سپاہی حصہ لے رہے تھے۔ آغا حسن کی باقی فوج بھی تیر اندازی، شمشیر زنی اور پیش قدمی کی مشقوں میں مصروف تھی۔ جس طرح ادرنہ میں ہر شخص کے چہرے پر جوش اور ولولے کی کیفیت تھی اسی کے بالکل برعکس قسطنطنیہ میں خوف، دہشت اورکسی حد تک غصے کا سماں تھا۔
قاسم سپہ سالار’’نوٹاراس‘‘ کے مہمان خانے میں داخل ہوا تو اس کے نتھنے سے شراب کی بو ٹکرائی۔ دربان نے قاسم کو ایک اونچی نشست پیش کی اور خود قسطنطنیوی افواج کے سپہ سالار گرانڈ ڈیوک نوٹاراس کو بلانے کے لیے چلا گیا۔۔۔لحیم شحیم ڈیوس نوٹاراس کمرے میں داخل ہوا تو قاسم نے اٹھ کر اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ شراب کے نشے سے نوٹاراس کی آنکھیں کسی قدر بوجھل ہو رہی تھیں۔ نوٹاراس قاسم کے نزدیک بیٹھ گیا اور بھاری بھرکم آواز میں مخاطب ہوا۔
’’آپ بطریق اعظم کے خصوصی نمائندہ ہیں۔ اس لئے میں دوبارہ مہمان خانے میں آگیا۔ ورنہ کچھ دیر پہلے یہاں شہنشاہ کے دو نمائندوں کے ساتھ میں نے اپنا کافی وقت گزارا ہے۔‘‘
سپہ سالار نے اتنا کہا اور پھر ہاتھ بڑھا کراپنے لئے شراب کا ایک اور جام بھرنے لگا۔ اس نے چاندی کا جام ہاتھ میں پکڑا اور پھر کہا’’برا مت مانئے گا! میں بہت پیتا ہوںَ جب سے سلطان محمد خان کے حملے کا سنا ہے ذہن پر دباؤ رہتا ہے۔۔۔اس لئے پیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے دل میں نوعمر سلطان کا خوف پیدا ہو۔۔۔میں بہت تجربہ کار ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے۔‘‘
نوٹاراس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ نشہ کرتا ہے۔ قاسم نے یہ موقع غنیمت سمجھا اور جلدی سے کہا’’محترم سپہ سالار! آپ بے شک پی لیجئے! شراب پینے سے آپ کی شجاعت دوبالا ہو جائے گی۔۔۔ویسے بھی آپ بہت بہادر ہیں۔ آپ کے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ قسطنطنیہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ۔ لیکن آپ کچھ بات کر رہے تھے۔ شہشناہ کے نمائندوں کی۔ آپ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
قاسم نے جب دیکھا کہ نوٹاراس نئے گلاس میں سے بھی تین چار گھونٹ لے چکا ہے تو اپنے مطلب کی بات کر دی۔ اب تو نوٹاراس کانشہ اور بھی بڑھ چکا تھا۔ وہ قاسم کی بات پر بہت خوش ہوا۔ یہاں تک کہ خوشی سے جھومنے لگا اور اپنی تعریف پر واہ واہ کرنے لگا۔ قاسم کی بات سن کر نوٹاراس نشیلے لہجے میں مخاطب ہوا۔
’’شہنشاہ کے نمائندے؟۔۔۔ہاں! وہ بیوقوف مجھے یہ بتانے آئے تھے کہ جنرل جسٹینانی کا استقبال کس طرح کرنا ہے۔۔۔آپ بتائیں! کیا میں ایک چھوٹی سی بستی کے کمانڈر کے آگے ہاتھ باندھ کرکھڑا ہو سکتا ہوں؟ نوٹاراس نے قاسم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ قاسم فوراً بول اٹھا۔
’’بالکل نہیں۔ یہ تو بازنطینی سلطنت کے لئے ڈوب مرنے کام مقام ہے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی ریاست جنیوا کا فوجی سالار آپ جیسے عظیم سپہ سالار کی ماتحتی میں ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔آپ نے شہنشاہ کے جاسوسوں کو کیا جواب دیا؟‘‘
قاسم ہر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا۔ اس نے نوٹاراس کی خواہش کے عین مطابق گفتگو شروع کر دی۔ اب تو نوٹاراس مکمل طور پرلہر میں آگیا۔
’’واہ۔۔۔واہ! ۔۔۔فادر! آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ میرے درد کو سمجھتے ہیں۔ جب سے جان جسٹینانی نے قسطنطنیہ کا رخ کیا ہے۔ شہشناہ کی نظروں میں میری قدر ہی نہیں رہی۔ لیکن میں اس جنگ میں شہشناہ پر ثابت کردوں گا کہ میں کتنا بڑا سالار ہوں۔۔۔اور وہ جو آج کل ہمارے سروں پرمسلط ہے۔۔۔وہ ۔۔۔تم تو اسے جانتے ہو گے۔۔۔میں کارڈنیل کی بات کر رہا ہوں۔۔۔کارڈنیل اسیڈور، گھٹیا انسان۔۔۔‘‘ سپہ سالار نوٹاراس شراب کے نشے میں خود بخود اس طرف نکل آیا جدھر قاسم اسے لانا چاہتا تھا۔ سپہ سالار نے کارڈنیل کی بات خود چھیڑ دی تھی۔ چنانچہ قاسم نے کہا۔
’’آپ کارڈنیل اسیڈور کی بات کرتے ہیں میں خود اسی سلسلے میں آپ کے اپس حاضر ہوا ہوں۔ آپ تو اپنے دکھ دردکو شراب کی مدد سے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بطریق اعظم تو ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔خداوند خیر کرے، شہنشاہ کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے جو وہ قسطنطنیہ کے تمام امرائے سلطنت کی تذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ادھر آپ کو حکم ملا کہ ایک معمولی جرنل جان جسٹینانی کے آگے جھک جائیں اور ادھر شہنشاہ نے ’’آیا صوفیا‘‘ میں دونوں کلیساؤں کو ملانے کے لئے جس مجلس کو منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے اس کی صدارت کارڈنیل اسیڈور کو سونپ دی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کارڈنیل کلیسائے رومہ کا ایک معمولی عہدہ ہے۔ جبکہ بطریق اعظم کا عہدہ عیسائی دنیا کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بطریق اعظم بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے مجھے آپ کی خدمت میں اسی لئے بھیجا ہے تاکہ میں آپ کو بطریق اعظم کے جذبات سے آگاہ کر سکوں۔ ان کا فرمان ہے کہ کارڈنیل اسیڈور کی صدارتی یونانی کلیسا کے لئے توہین کا باعث ہے۔‘‘
قاسم اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ وہ اپنی بات کے دوران نوٹاراس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ملاحظہ کر رہا تھا۔
(جاری ہے)