عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 80
واپسی پر بھی قاسم کی نظریں آیا صوفیاء کے در و دیوار پر تیرتی رہیں۔ وہ جس نئے موڑ سے گزرتا اس کا دل دھک سے رہ جاتا وہ سوچتا کہ ابھی اگلے قدم پر مارسی کھڑی ہوگی۔۔۔لیکن مارسی اسے نظر نہ آئی۔ بطریق اعظم کی خادمائیں قاسم کو اس کی رہائش گاہ دکھانے کے لئے لے چلیں۔ قاسم کو ایک کھلا اور ہوا دار کمرہ دکھایا گیا جس میں گزر بسر کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ یہ قاسم کا کمرہ تھا۔۔۔تھریس کے پادری ’’ایرون‘‘ کا۔ یا بطریق اعظم کے مشیر فادر ایرون کا۔ آج قاسم بہت خوش تھا۔ بطریق اعظم کی خادمائیں اسے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بوڑھا بروس ایک خادم اور ایک خادمہ کے ہمراہ حاضر ہوا اور قاسم سے کہنے لگا۔
’’ان دونوں کو بطریق اعظم نے آپ کی خدمت کے لئے بھیجا ہے۔۔۔یہ ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہیں گے۔‘‘
بوڑھا بروس چلا گیا۔ اور قاسم نے دونوں کے نام پوچھے۔ لڑکی کا نام ’’سونیا‘‘ اور لڑکے کا نام ’’ڈیوڈ‘‘ تھا۔ سونیا، والیشیا کی رہنے والی تھی اور ماں باپ کے مرنے کے بعد دنیا بھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ چنانچہ حوادثات زمانہ سے بچنے کے لئے اس کے دل میں یہی ترکیب آئی کہ وہ کسی محفوظ چرچ کی خادمہ بن جائے۔ چنانچہ وہ ’’آیا صوفیاء‘‘ چلی آئی اور ڈیوڈ جرمنی کا رہنے والا تھا جو اپنی گزشتہ زندگی میں ایک ظالم یہودی کی غلامی میں پل کر جوان ہوا تھا۔
آیا صوفیاء کا ایک بشپ جرمنی کے دورے پر گیا تو اس نے ڈیوڈ کو دین مسیح قبول کرنے کی دعوت دی۔ ڈیوڈ غلامی سے تنگ تھا۔ چنانچہ اس نے یہ دعوت فوراً قبول کر لی۔ بشپ نے ظالم یہودی تاجر کو کلیسا کے خزانے سے رقم ادا کرکے آیا صوفیاء کی خدمت کے لئے خرید لیا۔ اور یوں ڈیوڈ یہودی تاجر کی غلامی سے نکل کر آیا صوفیاء کی غلامی میں آگیا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 79پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سونیا کے نین تیکھے تھے اور چہرہ کھلتا ہوا تھا۔ وہ مسکراتی تو اس کے سامنے کے دانت موتیوں کی طرح جگمگانے لگتے۔ قاسم نے دونوں خادموں کو کمرے میں ضروری اشیاء کی فراہمی پر مامور کیا اور خود انہیں کچھ بتائے بغیر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ وہ سرائے سے اپنا ضروری سامان لینے جا رہا تھا۔
شام تک قاسم ’’آیا صوفیاء ‘‘ میں پوری طرح مقیم ہو چکا تھا۔ اس نے ایک ایک شخص کو دیکھ لیا لیکن اسے مارسی کہیں نظر نہ آئی۔ اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا تھا وہ یہاں تھریس کا پادری بن کر آیا تھا اسی لئے وہ کسی سے مارسی کے بارے میں پوچھ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ خصوصاً اپنے دونوں خادموں پر تو اسے ذرا بھی اعتماد نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ دونوں اس کے ایک ایک پل کی خبر بطریق اعظم تک پہنچائیں گے۔ ایسی حالت میں وہ کیا کرتا۔۔۔وہ بے چینی کے عالم میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ اپنے فرض کو تو اچھی طرح سے نبھا رہا تھا لیکن اپنی محبت کا قرض ابھی اس کے ذمہ تھا۔ اسے جس قدر بیتاتی اور بے صبری سے مارسی کا اتنظار تھا۔ مارسی کے ملنے میں اتنی ہی دیر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن عظم مقصد کیلئے قاسم نے ایک بار پھر صبر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ شام کی مناجات پڑھنے کے بہانے سے اپنے کمرے سے نکلا اور دوسری منزل کی اس گیلری میں چلنے گا یہاں بھی ایک بیش قیمت قالین بچھا تھا۔ گیلری کی چھت میں جگہ جگہ ہوا کے لئے گول گول سوراخ بنائے گئے تھے جن کے اوپر بارش روکنے کے لئے محراب نما چھجے بنے ہوئے تھے۔ گیلری دونوں دیواروں میں اٹکی مشعلوں کی وجہ سے جگمگا رہی تھی۔یہ ایک طویل گیلری تھی۔ قاسم اس کے آخری کونے میں پہنچ کر بائیں طرف مڑا اور ٹ رک گیا۔ یہاں ایک بڑی محراب تھی۔ گیلری میں جن کمروں کے سامنے اس طرح بڑی برآمدہ نما محرابیں تھیں وہ خاص خاص لوگوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ قاسم یہاں اس لئے ٹھٹھک کر رکا تھا کہ اسے بڑی محراب کے فرش پر بہت سی عورتیں بیٹھی ہوئی نظر آئیں جو ایک عمدہ قالین پر بیٹھی کسی خاص قسم کی عبادت میں مشغول تھیں۔ ان عورتوں نے ایک جیسے لباس پہن رکھے تھے جن کا رنگ خاکستری تھا۔ قاسم ان تمام عورتوں کی پشت پر کھڑا تھا۔ محرابی برآمدے کے فرش پر تو یہ عورتیں بیٹھی تھیں لیکن اس برآمدے میں کھلنے والا کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ قاسم نے سوچا یہ کسی عبادت گزار راہب کا کمرہ ہوگا جس کی مرید عورتیں باہر خاموش بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ قاسم تھوڑی دیر رک کر پھراپنے دھیان میں چل دیا۔
وہ مناجات سے فارغ ہو کر واپس آیا تو پھر اسی راستے سے گزرا۔ اب بھی وہ عورتیں ویسی کی ویسی ہی بیٹھی تھیں۔ قاسم کو عبادت کا یہ انداز دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی وہ اپنے کمرے میں آیا تو سونیا اس کے کمرے میں موجود تھی۔ قاسم نے سرسری سے انداز میں سونیا سے پوچھا۔
’’سونیاً! یہ اس طرف۔۔۔گیلری کے بائیں کونے میں بہت سی عورتیں ایک برآمدے میں اجتماعی عبادت کر رہی ہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کون عورتیں ہیں؟‘‘
قاسم نے پہلی بار سونیا کو نام لے کر پکارا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے انتہائی معصوم نگاہوں کے ساتھ قاسم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی وہ !۔۔۔وہ عورتیں’’سسٹر میری‘‘ کی مرید ہیں۔ وہ عورتیں ’’آیا صوفیاء‘‘ کی راہبائیں نہیں، قسطنطنیہ کی معزز خواتین ہیں جو سسٹر میری کے نام کا دم بھرتی ہیں۔‘‘
قاسم تو اور کچھ سن ہی نہ رہا تھا۔ اس کے لیے ’’سسٹر میری‘‘ کا لفظ ہی حرف آخر ثابت ہوا اور اس کی شریانوں میں خون کی گردش بڑھ گئی۔ وہ’’ڈیمونان‘‘ کے منہ سے سن چکا تھا کہ ’’آیا صوفیاء‘‘ میں مارسی کو سب لوگ ’’سسٹر میری‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ قاسم کی آنکھوں میں چمک بڑھنے لگی اور اس کے دونوں ہاتھ اضطراری طور پر حرکت میں آگئے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرتا اور نکال دیتا۔۔۔پھر پیوست کرتا اور نکال دیتا۔ وہ اسی طرح مضطرب رہا۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے نہ جانے کیوں سونیا کی خوشامد شروع کر دی۔
’’سونیا! تم اتنی حسین ہو کہ تمہیں کسی مشرقی ملک کی شہزادی ہونا چاہئے تھا۔ تمہاری آنکھوں میں لعل بدخشانی جیسی چمک اور ہونٹوں میں گلاب کے پھولوں جیسا گداز ہے۔ میں تمہیں دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ خداوند کو تمہیں بنانے کے لئے کتنی روشنیاں جمع کرنی پڑی ہوں گی۔‘‘
یہ کسی مرد کا آخر حربہ ہو سکتا تھا۔ یعنی کسی عورت کو دام فریب میں جکڑنے کا آخری حربہ تھا۔ یہ واقعی آخری حربہ تھا۔ دنیا میں ایک بھی عورت ایسی نہیں جو اپنی تعریف پر خوش نہ ہوتی ہو۔ تعریف چاہے جھوٹی، غیر متوقع اور بے موقع ہی کیوں نہ ہو۔ بہرطور عورت کی کمزوری ہے۔ چنانچہ قاسم نے بھی سونیا کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ قاسم کی زبان سے اس قدر اچانک اور بے ساختہ تعریف سن کر سونیا لذت پذیرائی کے نشے میں جھوم سی گئی۔ اس کی آنکھوں میں یکلخت سرخ سرخ ڈورے تیرنے لگے اور جس میں تعریفی الفاظ نے سرشاری کا رس گھول دیا۔ اس کا ایک ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پر جا پڑا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اس کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ وہ قاسم سے یہی کہنا چاہتی تھی۔۔۔کہ آپ چپ کیوں کر گئے۔۔۔بولئے نا! اور بولئے!۔۔۔بلکہ بولتے رہئے۔ قاسم جیسا وجیہہ، شکیل اور حسین مرد قسمت والیوں کی تعریف کر سکتا تھا۔ سونیا نے اپنی قسمت پر ناز کرنا شروع کر دیا۔ قاسم نے اس کی ہیجانی کیفیت دیکھی تو سمجھ گیا کہ تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا ہے۔ چنانچہ اپنے کارآمد حربے کا اثر دیکھنے کے لئے قاسم نے کہا۔
’’سونیا ! تم بہت حسین ہو۔ اور حسین چہرے جھوٹ بولتے اچھے نہیں لگتے۔ مجھے سچ سچ بتاؤ! میری خدمت کرنے سے پہلے بطریق اعظم نے تمہیں کیا ہدایات دیں؟‘‘
اب سونیا موم کی طرح پگھل چکی تھی۔ وہ بھلا قاسم سے کیسے کچھ چھپا سکتی تھی۔ چنانچہ اس نے فی الفور بتا دیا کہ واقعتاً بطریق اعظم نے اسے قاسم کی جاسوسی کے لئے مقرر کیا تھا۔ قاسم دل ہی دل میں اپنے آپ کو داد دینے لگا۔ اب اس نے سونیا کو مزید اعتماد میں لینے کے لئے انتہائی غیر محسوس طریقے سے اپنی باتوں کے جال میں جکڑنا شروع کر دیا۔ لیکن قاسم ایک بات کا اچھی طرح دھیان رکھ رہ تھا۔ اس نے پوری گفتگو میں ایک مرتبہ بھی یہ نہ کہا کہ وہ سونیا پر فریفتہ ہے وہ کوئی جھوٹی بات نہ کہنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر بعد سونیا پورے دل و جان کے ساتھ قاسم کی تابعدار بن چکی تھی اور جب وہ جانے لگی تو قاسم نے اس سے سرسری انداز میں پوچھا۔
’’اور ہاں۔۔۔یہ سسٹر میری کون ہے؟۔۔۔کیا کوئی راہبہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں! وہ ایک البانوی راہبہ ہے ۔ لیکن تمام راہباؤں سے بالکل مختلف۔ وہ چرچ میں صرف اتوار کے روز عبادت کرتی ہیں۔ باقی سارا وقت بند کمرے میں گزارتی ہیں۔ غالباً روحانیت کے کسی اونچے درجے پر بھی پہنچی ہوئی ہیں۔ کیونکہ جب وہ لیکچر دیتی ہیں تو سب عورتیں رونے لگتی ہیں۔ شہر کی بڑی بڑی امیر کبیر خواتین سسٹر میری سے برکت حاصل کرنے آتی ہیں۔ یقین جانئے! آیا صوفیاء میں ان کی عزت اور احترام ’’مدر سوزینا‘‘ سے بھی زیادہہے ۔
قاسم گہری دلچسپی سے سونیا کی باتیں سن رہا تھا اسے حیرت ہو رہی تھی کہ مارسی ان چند سالوں میں کس قدر بدل گئی تھی۔ نہ جانے کیا سوچ کر قاسم نے پھر پوچھا۔
’’کیا ان کے لیکچر میں صرف عورتیں ہوتی ہیں، مرد نہیں ہوتے؟‘‘
’’جی بالکل نہیں۔ وہ عموما! مردوں کے سامنے تو آتی ہی نہیں۔ اکثر پردے میں رہتی ہیں۔ ہاں! ۔۔۔کبھی کبھی تہوار یا کرسمس کے موقع پر وہ جب اجتماعی عبادات میں شریک ہوتی ہیں تو بغیر حجاب کے، ان کا چاند کی طرح روشن چہرہ دیکھ کر شرکاء محفل دیوانے ہو جاتے ہیں۔‘‘ سونیا نے آخری الفاظ شرارتاً مسکراتے ہوئے کہے۔ وہ اب قاسم کے ساتھ خاصی بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے قسم کے پاس رکے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ لیکن پھر اس کا جی جانے کیلئے نہ چاہ رہا تھا۔ اب وہ طوعا کرہا دروازے کی طرف مڑی اور مسرت سے بھرا ہوا دل لئے نکل گئی۔(جاری ہے)