یہ 2 صدیوں کا قصّہ ہے چند لوگ کاندھوں پر بیلچے ہاتھوں میں ہتھوڑے تھامے ریل کی جادو نگری میں داخل ہوئےخود نکل سکے نہ نئے آنیوالوں کو روک سکے

یہ 2 صدیوں کا قصّہ ہے چند لوگ کاندھوں پر بیلچے ہاتھوں میں ہتھوڑے تھامے ریل کی ...
یہ 2 صدیوں کا قصّہ ہے چند لوگ کاندھوں پر بیلچے ہاتھوں میں ہتھوڑے تھامے ریل کی جادو نگری میں داخل ہوئےخود نکل سکے نہ نئے آنیوالوں کو روک سکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:1
انتساب
ریل گاڑی کے نام
دو چار برس کی بات نہیں یہ 2 صدیوں کا قصّہ ہے کہ چند لوگ کاندھوں پر بیلچے دھرے اور ہاتھوں میں وزنی ہتھوڑے تھامے ہوئے ریل کی جادو نگری میں داخل ہوئے اور پھروہ خود وہاں سے نکل سکے اور نہ ہی نئے آنے والوں کو اندر آنے سے روک سکے۔
میں اپنی یہ کتاب دنیا بھر کے ان ہزاروں لاکھوں ریلوے ملازمین اور ریل گاڑی کے مداحوں کے نام منسوب کرتا ہوں جن کی شب و روزکی انتھک محنت اوربے پایاں محبت اور لگن کے باعث ریل گاڑی کا پہیہ گھوما اور پھرگھومتا ہی رہا-یہاں تک کہ نقل و حمل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا اور یوں 6 کلومیٹرفی گھنٹہ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی گاڑی کی رفتار 600 کلو میٹر فی گھنٹہ تک جا پہنچی۔
محمد سعید جاوید کابیانیاتی تخصص
دامن ِ ادبِ ا ردو میں ایسے مصنفین کی کمی نہیں جو شعر و ادب کی کلاسیکی روایت کے برعکس تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ تھے۔ ایسے شعراء اور مصنفین نے اردو ا دب کے دامن کو زندگی کے دیگر شعبوں سے منسلک کیا۔ایسے ادباء اور شعرا میں شعبہ طب،انجینئرنگ،بیوروکریسی اور زندگی کے جملہ شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ایک طویل فہرست ہے۔پچھلی دہائی میں ایک نام جو اسی نوع کے ادباء کی اسی فہرست میں شامل ہوا وہ محترمی محمد سعید جاوید کا ہے۔پاکستان میں بینکنگ کے شعبے کا انتخاب کیا اورپھر طویل عرصے تک سعودی عرب کے ایک بڑے ہسپتال میں بطور مدیر مالیات متمکن رہے۔ پاکستان واپس آئے تو لاہور کے ایک بڑے نجی ہسپتال کے منتظم بن گئے۔ مگرتابہ کے! 
طبیعت میں تخلیق کا کرب تھا        جہاں بھی گئے داستاں لے کے آئے
چنانچہ واقعات و حوادث اور سوانح کے اظہار کا مطالبہ ہوا۔یوں داستانِ حیات بعنوان”اچھی گذر گئی“ تحریر کرکے اردو سوانح نگاری میں قابل قدر اضافہ کیا جس پر انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، پھر ”مصریات“ کے نام سے پہلا سفر نامہ لکھا جو اس قدر دلچسپ پیرائے میں تحریر ہوا کہ اشاعت کے فورا ً بعد ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو آیا۔ اور پھر اسپِ ِقلم نہیں رکا، بلکہ ”ایسا تھا میرا کراچی“ لکھ کر اگر کہا جائے کہ تہلکہ مچا دیا تو مبالغہ نہ ہو گا۔اس کتاب میں انھوں نے کراچی میں اپنے طویل قیام کی یادیں اور کراچی کی سماجی، تاریخی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ رقم کردی ہے۔اس شاہکار کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب مسلسل کئی ماہ تک کراچی پر لکھی گئی بہترین کتاب قرار پائی۔ ایسا تھا میراکراچی  کو پرانے کراچی پر حوالہ جاتی کتب میں شامل کرلیا گیا ہے۔یہاں تک کہ بی بی سی نے بھی اس کتاب کو مصدقہ مانتے ہوئے اپنے پروگرام میں اسی کتاب کے اقتباسات و مندرجات سے استفادہ کیا۔ علاوہ ازیں کراچی ہی کے ایک قدر دان نے اس پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی ہے۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -