باوا جی مسلسل 3 رات خواب آتے رہے”تم نے ہماری کپتانی کرنی ہے یا انگریزی فوج کی“ فوج کو خیر باد کہا، ویرانے کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور پھر اللہ کے ہی ہو گئے

باوا جی مسلسل 3 رات خواب آتے رہے”تم نے ہماری کپتانی کرنی ہے یا انگریزی فوج ...
باوا جی مسلسل 3 رات خواب آتے رہے”تم نے ہماری کپتانی کرنی ہے یا انگریزی فوج کی“ فوج کو خیر باد کہا، ویرانے کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور پھر اللہ کے ہی ہو گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:42
باوا جی کا اصل نام برکت علی، تخلص انیس اور آپ لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ انڈین آرمی میں کپتان کے عہدے پر فائز تھے۔بہترین انگریزی بولتے تھے مگر بات ہمیشہ پنجابی زبان میں کرتے۔ بقول باوا جی آپ کو مسلسل 3 رات خواب آتے رہے اور یہی فرماتے؛”تم نے ہماری کپتانی کرنی ہے یا انگریزی فوج کی۔“ آپ نے فوج کو خیر باد کہا۔ سالاروالہ کے ویرانے کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور پھر اللہ کے ہی ہو گئے۔ آپ متقی، پر ہیز گار، سادہ اور باریش تھے۔ساری عمر اللہ کے دین کی تبلیغ میں گزر دی۔ آ پ نے اپنے کردار اور گفتار سے لاکھوں بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھایا۔ دن رات عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے۔  ”ترتیب شریف“جیسی شہرہئ آفاق کتاب لکھی۔ انتہا ئی سادہ اور کھدر کا لباس پہنتے جس میں کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔ سادہ غذا کھاتے،روزے رکھتے اور”اللہ ہو“ کا ایسا ورد کرتے لگتا سینکڑوں لوگ ورد کر رہے ہیں۔ اللہ ہو کی ایسی آواز پھر کبھی بھی میری سماعت سے دوبارہ نہیں ٹکرائی۔ سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتا تھا۔ سالاروالے سے دارالاحسان تشریف لے گئے۔ وہیں وفات پائی اور اپنے حجرے میں ہی دفن ہوئے۔ آپ کا شاندارمزار ان کے عقیدت مندوں کی ان سے عقیدت کا بھر پور عکاس ہے۔ آپ کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
خدا رحمت کند این پاک طینت را    
پانی کا تالاب۔۔سوکھی کتابیں؛
میرا بھائی شہباز احمدحمید مسلسل ان کے ہاں جاتا رہا اور آج بھی ان کی درگاہ پر تواتر سے حاضری دینے والوں میں سے ہے۔ باوا جی سالار والا سے دارالاحسان سمندری منتقل ہو گئے تو یہ وہاں بھی جاتا رہا۔ باوا جی کا ایک اور معجزہ جو ان کی اللہ سے قربت کا واضح ثبوت ہے۔ میرے بھائی شہباز کی زبانی؛
”بھائی جان! میں باوا جی کے پاس گیا ہوا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد کا واقعہ ہے کہ باوا جی اپنے آستانے سے باہر نہر کنارے ٹہل رہے تھے۔ ایسا کم کم ہی دیکھنے میں آتا تھا۔(باوا جی کا آستانہ سمندری روڈ پر ہے۔ سڑک اور ان کے آستانے کے بیچ سے نہر بہتی ہے۔)لگتا تھا انہیں کسی کا انتظار تھا۔ اتنے میں ایک سانولے رنگ کاآدمی بس سے اترا اور آستانے کی جانب چلنے لگا۔ اسے دیکھا تو باوا جی بولے؛”اچھا تم ہو جسے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ پانی میں گری کتابیں سوکھی کیسے نکل آتی ہیں۔“ یہ فقرہ سن کر جیسے اس کے پاؤں جم گئے تھے۔ وہ حقا بکا ہو گیا۔ یہ شخص ملتان کا عیسائی تھا۔ ملتان میں اپنے دوستوں سے مذھبی بحث کے دوران وہ حضرت شاہ شمس تبریز ؒ سے منسوب یہ روایت ماننے کو تیار نہ تھا جس کے مطابق؛”ایک روز شاہ شمس تبریز ؒ نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی کتابیں اٹھا کر پانی کے تالاب میں پھینک دی تھیں۔ مولانا نے شدید ڈانٹ ڈپٹ کی تو آپ جلال میں آئے اور کتابیں پانی سے باہر نکالنے لگے۔ سب ایسے سوکھی تھیں کہ ان پر پڑی دھول بھی دکھائی دے رہی تھی۔ مولانا ششدر رہ گئے اور پھر اپنے مرشد کے عشق میں ایسے کھوئے کہ شہکار پہ شہکار تخلیق ہوتے چلے گئے۔یہ عیسائی شخص یہ سب ماننے سے انکاری تھا۔ اس کے دوستوں نے کہا؛”یقین نہیں آتا تو سالار والے چلے جاؤ کرایہ ہم سے لو وہاں باوا جی یہ سب کیسے ممکن ہے سمجھا دیں گے“۔ وہ اسی تجسس کا جواب پانے اور اس گتھی کو سلجھانے دارالاحسان پہنچا تھا اور باوا جی کا پہلا فقرہ سن کر ہی وہ مبہوت ہو چکا تھا۔باوا جی کی اگلی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی؛”نہر میں کود جاؤ۔“ وہ سہم گیا اور انکاری ہوا۔ اس کے پیچھے چلتے 2 آدمیوں نے اسے اٹھا کر نہر میں پھینک دیا۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -