عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 79
قاسم روش پرچلتا ہوا اگلی نشستوں پرجا بیٹھا۔ اس کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کے فرضی مجسمے نصب تھے۔ یونانی کلیساؤں میں مسیح کے مجسموں کو نصب کیاجاتا تھا۔ قاسم بظاہر عبادت میں مشغول ہوگیا۔ وہ دیر تک ایک ہی حالت میں آنکھیں بند کئے اور سر جھکائے بیٹھا رہا۔ وہ بظاہر مناجات پڑھ رہا تھا۔ لیکن درحقیقت وہ مارسی کے بارے میں سوچ رہا تھا مارسی اس چرچ میں راہبہ تھی۔ وہ جب سے چرچ میں داخل ہوا تھا۔ اس کے خون کی گردش میں تبدیلی آچکی تھی۔۔۔نہ جانے کس قدم پرمارسی سامنے آجائے۔ وہ ایک گھنٹے تک سرجھکا کر اسی طرح بیٹھا رہا۔ وہ ابھی اور بھی بیٹھا رہتا کہ اچانک اسے اپنے بائیں شانے پر کسی کے ہاتھ کا نرم دباؤ محسوس ہوا۔ قاسم کے تن بدن میں سردی کی لہر دوڑ گئی۔ اسے اپنی ریڑھی کی ہڈی سنسناتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اگلے لمحے قاسم نے آنکھیں کھول دیں۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ ایک بوڑھے فادر کا ہاتھ تھا جس کے چہرے پر باپ جیسی شفقت اور آنکھوں میں ماں جیسی محبت تھی۔ یہ ’’آیا صوفیاء‘‘ کا ایک پرانا پادری تھا۔ قاسم کواپنا باپ’’ہشام‘‘ یاد آگیا اور قاسم نے اپنے دل میں بوڑھے پادری کیلئے پر خلوص جذبات محسوس کئے ۔۔۔قاسم مسکرا دیا۔ بوڑھا پادری مسکرا دیا۔
’’مجھے فادر بروس کہتے ہیں میری عمر 70سال ہے ۔۔۔آپ شاید مہمان ہیں۔ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘‘
بوڑھے پادری نے انتہائی شفیق لہجے میں قاسم سے کہا تو قاسم عاجزی سے مسکرا دیا اور بولا’’معزز فادر! میں تھریس کے چرچ سے آیا ہوں۔ خداوند یسوع مسیح کے خادموں میں شامل ہوں اور اپنے مرکز کی بقاء کیلئے دعا گو ہوں۔‘‘
’’تھریس کا چرچ۔۔۔وہ۔۔۔وہ جسکا بشپ لیمارک ہے؟‘‘
قاسم نے فوراً جواب دیا’’جی ہاں! معزز لیمارک کی خصوصی اجازت سے قسطنطنیہ کا سفر کیا ہے میں نے۔ انہوں نے مجھے روانہ کرنے سے پہلے بطریق اعظم کے نام ایک خط بھی دیا ہے۔‘‘
تھریس کا کلیسا عثمانی عملداری میں تھا۔ حکومت ’’سلطان‘‘ کی تھی۔ لیکن تھریس کی عوام زیادہ تر عیسائیتھی۔قاسم نے تھریس کا نام اسلئے لیا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ’’تھریس‘‘ کے کلیسا میں تعینات’’بشپ لیمارک‘‘ کے ساتھ ڈیمونان کے براہ راست تعلقات تھے۔ قاسم نے لیمارک کی طرف سے خط بھی خود ہی لکھا تھا۔ قاسم کی بات سن کر بوڑھا ’’فادر بروس‘‘ بہت خوش ہوا اور قاسم کو اٹھ کر اپنے ساتھ بغلگیر ہونے کے لئے کہا کچھ دیر بعد بوڑھا بروس قاسم کو لئے بطریق اعظم کے کمرے کی جانب جارہا تھا۔
بطریق اعظم کی رہائش گاہ دیکھ کر قاسم دنگ رہ گیا۔ یہ کسی بادشاہ کی خوابگاہ سے کم نہ تھی۔ کمرے کے دروازے پر باوردی دربان مستعد کھڑے تھے۔ بطریق اعظم کا کمرہ درحقیقت ایک بڑا ہال تھا جس میں ایک دبیز ایرانی قالین بچھا تھا اور اطلس و کمخواب کے بھاری بھرکم پردوں کے ذریعے اس کمرے کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ چھت کے درمیان میں ایک سنہری فانوس لٹک رہا تھا جس میں قیمتی یاقوت جڑے ہوئے تھے۔
پردوں کے آگے پیچھے بطریق اعظم کی خاص خادمائیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔ ایک حسین خادمہ جس نے ننوں کا لباس پہن رکھا تھا بوڑھے بروس اور قاسم کولے کر بطریق اعظم کے کمرہ ملاقات میں پہنچی ۔ وہ بروس اور قاسم کو منقش دروازے کے سامنے چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ بروس نے دروازے کو دھکیلا اور اندر داخل ہوا۔
کمرے کی مغربی دیوار کے ساتھ ایک خوبصورت تخت بچھا تھا جس کے دائیں بائیں بطریق اعظم کی حسین خادمائیں کھڑی تھیں۔ اور تخت پر بوڑھا بطریق اعظم کھدر کا انتہائی سادیہ لباس پہنے جلوہ افروز تھا۔ بطریق اعظم کے جسم پر سادہ لباس راہبانہ فقر کو ظاہر کرتا تھا۔ بطریق اعظم نے قاسم اور بروس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ قاسم اور بروس بطریق اعظم کے سامنے بچھی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تب بطریق اعظم نے بروس سے سوال کیا۔
’’کیا بات ہے بروس!کیسے آنا ہوا؟ اور یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟‘‘
بوڑھا بطریق اعظم بھی بروس کا ہم عمر تھا۔ اس نے سوال کیا تو بروس بولا۔
’’آسمانی باپ!یہ نوجوان ، بشپ لیمارک کے چرچ سے آیا ہے۔ اس کا نام فادر ’’ایرون‘‘ ہے۔ اور یہ آپ کے نام بشپ لیمارک کا خط بھی لایا ہے۔‘‘
بطریق اعظم نے کسی قدر چونک کر قاسم کی جانب دیکھا اور قدرے سخت لہجے میں کہا۔
’’بشپ لیمارک کا خط؟۔۔۔کہاں ہے وہ خط؟‘‘
بطریق اعظم جانتا تھا کہ بشپ لیمارک بطریق اعظم ثانی ڈیمونان کو خط لکھا کرتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے بوڑھے بطریق اعظم نے خود کبھی لیمارک کی تحریر نہ دیکھی تھی۔ دراصل غیر ملکی جاسوسوں کے ساتھ تمام تر رابطہ ڈیمونان خود رکھتا تھا۔ بطریق اعظم اگرچہ اسلام دشمنی اور مکاری میں ڈیمونان سے دو ہاتھ آگے تھا لیکن عثمانی سلطنت کے زیر سایہ چلنے والے تمام چرچ ڈیمونان ہی سنبھالا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لیمارک کا خط دیکھ کر وہ کسی قدر پریشان ہوا۔ اور وہ سوچنے لگا کہ اب تو باقی تمام علاقوں سے آنے والے پیغامات اور جاسوسوں کے ساتھ بھی اسے ہی ملنا پڑے گا۔ کیونکہ ڈیمونان تو مر چکا تھا۔ بطریق اعظم کو یہ کام مشکل محسوس ہوا بہرحال اس نے بشپ لیمارک کا خط کھولا اور پڑھنے لگا۔ لکھا تھا۔
’’عزت مآب مقدس باپ، جناب سربراہ کلیسا ہائے قسطنطنیہ ، بطریقاعظم آیا صوفیاء کے نام!۔۔۔ بشپ لیمارک خادم دین یسوع مسیح بشپ برائے کلیسا ہائے تھریس و گردونواح کی جانب سے۔۔۔ہولی فادر! یہ نوجوان فادر ایرون آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ معزز بطریق ڈیمونان کی شہادت کے بعد میں نے پورے غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس نوجوان ایرون کی آیا صوفیاء کو شدید ضرورت ہے۔
ایرون میرے ہاتھوں میں پل کر جوان ہوا ہے اور میں اس کی طرف سے ہر طرح کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ فادر ایرون گوناگوں صلاحیتوں کا مالک نوجوان ہے جو آپ کے زیر سایہ رہ کر دی ہولی چرچ کے لئے توقع سے زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
مناجات میں دعاؤں کی درخواست!
فقط
بشپ کلیسا ہائے تھریس۔۔۔لیمارک۔‘‘
بطریق اعظم جوں جوں خط پڑھتا گیا اس کے چہرے کی لکیروں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور خط پڑھ کر اس نے خط کے اختتام پر لگی مہر کو بڑے غور سے دیکھا۔ یہ مہر چند پہلے قاسم نے قسطنطنیہ کے ایک سادہ لوح زرگر کو بھاری رقم دے کر بنوائی تھی۔۔۔مہر دیکھ کر بطریق اعظم کے چہرے پر کسی قدر اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ لیکن اس کی پوری تسلی نہ ہوئی۔ اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو قاسم کی آنکھوں میں پیوست کرتے ہوئے پوچھا۔
’’دیکھو نوجوان! آج کل قسطنطنیہ میں پرانے شناساؤں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہم صرف لیمارک کا خط دیکھ کر تمہاری بات کا یقین نہیں کر سکتے۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم تھریس کے کلیسا سے آئے ہو؟‘‘
قاسم نے کھڑے ہو کر اور تعظیم کی حالت میں آگے کی طرف جھک کر بطریق اعظم کی خدمت میں عرض کی ’’مقدس باپ! آپ نے بجا فرمایا۔۔۔میرے پاس اس پریشانی کا حل یہ ہے کہ آپ مجھے آیا صوفیاء کے تہہ خانے میں قید کر لیں اور اس دوران اپنا ایلچی بھیج کر تھریس کے چرچ سے تصدیق کروالیں۔ میں حرف شکایت زبان پر نہ لاؤں گا۔‘‘
بطریق اعظم نے قاسم کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھا لیکن اس مکار بوڑھے کی تسلی ہونے میں ابھی گنجائش باقی تھی۔ چنانچہ اس نے فورا کہا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔۔۔یہی طریقہ بالکل ٹھیک ہے۔ ہم تمہیں لیمارک سے تصدیق تک آیا صوفیاء کے قید خانے میں پابند سلاسل رکھیں گئے۔‘‘
وہ قاسم کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن قاسم کوئی معمولی جاسوس تو نہ تھا کہ بطریق اعظم کی چال میں آجائے۔ قاسم نے اپنے چہرے کو سپاٹ رکھا۔ بطریق اعظم نے تو یہاں تک کیا کہ مسلح دربانوں کو قاسم کی گرفتاری کے لئے اندر بھی بلا لیا۔ لیکن جب قاسم ٹس سے مس نہ ہوا تو بوڑھا بطریق اعظم پہلی مرتبہ ہنس دیا اور دربانوں کو واپس جانے کا اشارہ کیا۔ اب وہ قاسم سے مخاطب ہوا تو اس کا لہجہ نرم تھا۔
’’نہیں، ہم تمہیں گرفتار نہیں کرتے۔ تمہیں اگر لیمارک نے بھیجا ہے تو یقیناًقسطنطنیہ کی بہتری کے لیے بھیجا ہوگا۔۔۔اچھا ہوا تم آگئے۔ عثمانی سلطنت میں موجود ہمارے سینکڑوں کلیساؤں کا انچارج ڈیمونان تھا۔ اب ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ ہم عثمانی سلطنتوں میں پھیلے اپنے جاسوسی کے نظام کو سنبھال سکیں۔۔۔تم اگرچہ ابھی صرف فادر ہو۔ اور ڈیمونان کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ لیکن تم ہمارے براہ راست ماتحت رہ کر عثمانی سلطنت میں موجود کلیساؤں کا کام نمٹانے میں ہماری مدد تو کر سکتے ہو۔۔۔چنانچہ میں تمہیں اپنا مشیر برائے کلیسا ہائے خارجہ مقرر کرتا ہوں۔ تین روز بعد یہاں دونوں کلیساؤں کی مجلس منعقد ہونے والی ہے۔ ایسے موقع پر اگر مشرقی کلیساؤں کی بات چل نکلی تو مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت پڑے گی۔ کیا تم اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار پاتے ہو؟‘‘
قاسم کے دل میں خوشی سے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ اسے بالکل بھی توقع نہ تھی کہ اسے اتنے اہم کام پر مامور کیا جائے گا۔ وہ تو چاہتا یہی تھا کہ کسی طرح دونوں فرقوں کی مجلس کو سبوتاژ کر سکے۔ چنانچہ قاسم نے فوراً جواب دیا۔
’’جی مقدس باپ! میں آپ کو ابھی بتا سکتا ہوں کہ ایڈریانوپل، تھریس، سربیا، بوسنیا، والیشیا اور البانیا کے علاوہ ساحل اناطولیہ کے ساتھ ساتھ دی ہولی آرتھوڈکس کے ماتحت چار سو سے زیادہ چرچ ہیں جن کا براہ راست تمام نظام آیا صوفیا ء کے ماتحت چلتا ہے اور اس پورے علاقے کو صرف چار یونانی الاصل بشپ سنبھالتے ہیں۔۔۔مزید ایک چرچ کا نام لے کر تمام معلومات میں آپ کے گوش گزار کر سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ سلطان محمد خان اور مسلمانوں کے بارے میں بھی میرے پاس خاطر خواہ معلومات ہیں۔ جہاں تک دین عیسوی کی تعلیمات جاننے کا تعلق ہے تو خداوند کے کرم سے میں ان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہوں گا۔‘‘
قاسم نے بڑی تفصیل کے ساتھ بطریق اعظم کو جواب دیا۔ اور پہلی بار بطریق اعظم کے چہرے پر مکمل اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ یہ قاسم کی خوش نصیبی تھی کہ مجلس کے صرف تین روز قبل قاسم اتنی بڑی مہم سر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب اسے پورے اعتماد اور احتیاط کے ساتھ اپنا منصب نبھانا تھا۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی خلش تھی کہ ابھی تک اس کی بیتاب آنکھوں کے سامنے مارسی کا چہرہ نہ آسکا تھا۔ لیکن اس نے بے صبری نہ کی اور اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب سات سال کی جدائی کے بعد وہ اپنی مارسی کی موٹی موٹی آنکھوں کو پھر دیکھ سکے گا۔
قاسم خیالات میں گم تھا کہ بطریق اعظم کی آواز سنائی دی’’ٹھیک ہے میرے بچے ایرون! ہم اپنی رہائش کے نزدیک ہی تمہارے لئے کمرے کا بندوبست کرتے ہیں۔ تم آج سے تمام پیغامات کے نگران ہو۔ تم فوری طور پر اپنا کام شروع کر دو۔ تاکہ م رومن کیتھولک فرقہ والوں کے سامنے بھرپور معلومات اور پوری شان و شوکت سے مجلس میں بیٹھ سکیں۔‘‘
اچانک بوڑھے بروس نے بطریق اعظم سے سوال کیا’’مقدس باپ!۔۔۔کیا اس مجلس میں شہنشاہ قسطنطنیہ بھی شریک ہوں گے؟‘‘
’’ہاں، شہنشاہ تین روز بعد آیا صوفیاء آئے گا۔ لیکن مجھے روقمی کارڈنیل کی زیر صدارت بیٹھنے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے اس لئے میں نے سوچا ہے کہ شہنشاہ سے صدارت کے مسئلے پر بات کروں گا۔‘‘
قاسم کے دل میں خوشی کا دیا جلا۔ گویا نفرت کی زمین تو پہلے سے تیار تھی۔ قاسم کو تو صرف فصل کاٹنا تھی۔ قاسم نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا۔
’’اوہو! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں مقدس باپ! کیا قسطنطی نے کارڈنیل اسیڈور کو مجلس کی صدارت بخش دی ہے؟ اس طرح تو رومی کلیسا والے بغلیں بجائیں گے۔ مقدس باپ! آپ تو جانتے ہیں کہ فادر ڈیمونان کی شاہدت کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ ایسی صورت میں ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ کارڈنیل ہمارے اجلاس کی صدرات کرے۔ آپ ضرور اس سلسلے میں کچھ کیجئے۔‘‘
بطریق اعظم کو قاسم کی باتیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ درحقیقت وہ خود اس اجلاس کی صدارت چاہتا تھا۔ وہ آیا صوفیاء کا سربراہ تھا اور کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ رومی کلیسا کا معمولی کارڈنیل اس کے ہوتے ہوئے اجلاس کی صدارت کرے۔ وہ تو رومی کلیسا کے پوپ جان نکلسن پنجنم کو بھی اپنے سے کم تر سمجھتا تھا۔ پھر ایک کارڈنیل کی کیا حیثیت تھی۔ قاسم کی بات سے اسے محسوس ہو اکہ ڈیمونان کے قتل کے بعد صدارت کے لئے شہنشاہ پر زور دینا اب پہلے کی نسبت آسان ہے۔ چنانچہ اس نے قاسم کو شاباش دی اور کہا۔
’’میرے بچے ایرون! میرے دل میں تمہارے لئے بہت سی امیدیں پیدا ہونے لگی ہیں۔ خاوند کرے کہ تم ان امیدوں پر پورے اترو۔ تم سب سے پہلے یہ کام کرو کہ آج رات ہی میرا نمائندہ بن کر قسطنطینوی افواج کے سپہ سالار ’’رانڈ ڈیوک نوٹاراس‘‘ سے ملو۔ اور اسے آیا صوفیاء کے موقف سے آگاہ کرو۔ اسے بتاؤ کی بطریق اعظم کے ہوتے ہوئے مجلس میں کارڈنیل اسیڈور کی صدارت آیا صوفیاء کے لئے توہین آمیز ہے۔ مجھے امید ہے کہ سپہ سالار ہماری حمایت کرے گا۔ کیونکہ نوٹا راس ایک کٹڑ مذہبی انسان ہے اور یونانی کلیسا کا سچا پیروکار ہے۔‘‘
قاسم کی تو گویا لاٹری کھل گئی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ اب واقعتاً قسطنطنیہ کے خاتمے اور قیصر کی ہلاکت کا وقت آگیا ہے۔ اسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ یاد آئی۔۔۔’’اذا ھلک قیصرا، فلا قیصر بعدہ‘‘۔۔۔جب قیصر ہلاک ہوگیا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا۔‘‘۔۔۔وہ سوچ رہا تھا تائید ایزدی اس کے ساتھ قدم بقدم چل رہی ہے اس نے بطریق اعظم کے پہلے حکم پر لبیک کہا اور سپہ سالار نوٹاراس کے گھر جانے کے لئے تیار ہوگیا بعدازاں کافی دیر تک بطریق اعظم اور قاسم کے درمیان بہت سے باتیں ہوئیں۔ لگ بھگ ایک گھنٹہ بطریق قاسم کو آئندہ حکمت عملی سے متعلق ہدایات دیتا رہا اور پھر بطریق اعظم نے قاسم کو جانے کی اجازت دے دی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )