عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 78
بریٹا کی قاسم کے ساتھ تمام ناراضگی جاتی رہی۔ لیکن اب وہ کیا کرتی۔ ایک طرف خاوند تھا اور دوسری طرف محسن۔بریٹا نے انتہائی عاجزانہ انداز میں اپنے خاوند کی جانب دیکھا اور دوڑ کر اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
’’رومیل! خدا کے لیے قاسم کو کچھ مت کہنا۔ یہ چلا جائے گا۔ میں وعدہ کرتی ہوں یہ چلا جائے گا۔‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی قاسم بول اٹھا’’آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ میں چلا جاتا ہوں۔ میں صبح کا انتظار بھی نہیں کرتا۔ میں ابھی جاتا ہوں لیکن جاتے ہوئے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ میں نے آپ لوگوں کو کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میرا مقصد عظیم ہے۔ جو آپ کو بہت جلد نظر آجائے گا۔ میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ اور اگر قسطنطنیہ میں ہم فاتح بن کر آئے تو سب سے پہلے آپ سے ملنے کے لیے آؤں گا۔‘‘
قاسم کے لئے اب یہاں سے چلا جانا ہی بہتر تھا۔ کیونکہ ابھی تو رومیل اسے جانے کی اجازت دے رہا تھا۔ لیکن صبح جب رومیل کو ڈیمونان اور راہباؤں کے قتل کی خبر ملے گی تو شاید اس وقت وہ قاسم کو جانے کی مہلت بھی نہ دے۔ قاسم کو یہ تسلی تھی کہ رومیل، ڈیمونان کے قتل کی خبر سن کر بھی اس کا راز فاش نہیں کرے گا کیونکہ اس طرح رومیل خود پھنستا تھا۔ شہنشاہ یقیناًاسے قتل کرا دے گا۔ کیونکہ اس نے سلطان کے ایک خطرناک جاسوس کو اپنے گھر میں پناہ دے کر سنگین جرم کیا تھا۔ قاسم کو یقین تھا کہ رومیل اس واقعے کو ہمیشہ خفیہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ قاسم نے اپنا سامان اٹھایا اور رومیل کے اصطبل سے اپنا گھوڑا لے کر رات کی تاریکی میں روانہ ہونے لگا۔
بریٹا اور رومیل اسے درد بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔۔۔ہائے! مذہب کتنی بڑی دیوار بن گیا تھا۔ دونوں طرف کے انسان ایک دوسرے کو چاہتے تھے لیکن مذہب کی سیسہ پلائی ہوئی دیواریں ان کے درمیان حائل تھیں۔ بریٹا سے قاسم کی روانگی کا منظر دیکھا نہ گیا اور وہ ہچکیاں لیتی ہوئی کمرے کی جانب دوڑ گئی۔ قاسم نے رومیل پر آخری نظر ڈالی اور دروازے سے نکل گیا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 77پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلی صبح ڈیمونان کے قتل کی خبر پر لگا کر اڑی اور آنا فانا پورے شہرمیں پھیل گئی۔آج صبح سے ہی ہر طرف یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ رومن کیتھولک چرچ کے جاسوسوں نے ’’آیا صوفیاء‘‘ کے بطریق اعظم ثانی کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا ہے۔ بطریق اعظم ثانی کے ہمراہ چرچ کی دو راہبائیں اور ایک کوچوان بھی مارا گیا۔ شہر کے چھوٹے چھوٹے کلیاؤں کے پادریوں نے لوگوں کو مشتعل کرنے میں دیر نہ لگائی اور دوپہر کے قریب یونانی کلیسا کے پچانوے فیصد پادری ہزاروں لوگوں کو لئے قصر شاہی کے سامنے موجود تھے۔
شہشناہ کا محافظ دستہ لوگوں کو محل کے قریب آنے سے روک رہا تھا۔ لوگ پورے جذبے کے ساتھ رومن کیتھولک چرچ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور پاپائے روم کو گالیاں دے رہے تھے۔ آج قسطنطین میں موجود رومن کیتھولک چرچ کے تمام پادری اور راہب جو حال ہی میں شہنشاہ کی دعوت پر قسطنطنیہ وارد ہوئے تھے لوگوں کے غیض و غضب سے چھپتے پھر رہے تھے۔ ’’رومہ‘‘ کے پوپ کا خصوصی نمائندہ’’کارڈنیل اسیڈور‘‘ خود اپنی جان بچانے کے لیے شہنشاہ کے پاس بیٹھا تھا۔ شہر کی پولیس ہنگاموں پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔ لیکن جذبات کا طوفان تھمنے کو نہ آتا تھا۔ وزیراعظم نے شہشناہ کو مشورہ دیا کہ ’’رومہ‘‘ کے پادریوں کو فی الفور واپس بھیج دیا جائے۔ لیکن ’’قسطنطین‘‘ ایسا نہیں کرناچاہتا تھا قسطنطین دونوں کلیساؤں کی صلح چاہتا تھا۔ وہ چند دن بعد ’’آیا صوفیاء‘‘ میں دونوں کلیساؤں کی ایک بڑی مجلس منعقد کرنے والا تھا جس کی صدارت’’کارڈنیل اسیڈور‘‘ کر رہا تھا۔ لیکن اب تو شہنشاہ کو اپنی تمام کوششیں ضائع ہوتی دکھائی دیں۔ بالآخر شہنشاہ مجور ہو گیا کہ سہ پہر کے قریب خود لوگوں کے سامنے آیا اور اس نے اپنے محل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر باآاواز بلند لوگوں کو مخاطب کیا۔
’’قسطنطنیہ کے عوام!
میری بات غور سے سنو! میں کہتا ہوں یہ سب کچھ جو ہوا، یہ عثمانیوں کی سازش تھی۔۔۔‘‘ اس قسم کے مضمون پر مشتمل ایک طویل تقریر کرکے شہنشاہ نے لوگوں کو گھروں میں واپس بھیج دیا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ شہنشاہ کی تقریر سے بہت کم لوگ مطمئن ہوئے تھے۔
بریٹا اور رومیل ڈیمونان کے قتل کی خبر سن کر سکتے میں آگئے اور دونوں بے بسی سے ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے۔ رومیل کو مذہب سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ڈیمونان کے قتل کو اتنا زیادہ محسوس نہ کیا تھا۔ لیکن بریٹا کو تو جیسے چپ لگ گئی۔ ایک طرف مذہب تھا اور دوسری طرف جذبات ۔ رومیل کے دل میں البتہ اتنا خدشہ ضرور تھا کہ قتل کی تفتیش کا رخ اگر ان کے گھر کی طرف مڑ آیا تو وہ کیا جواب دے گا۔ کیونکہ آیا صوفیاء کی سفید بگھی اس کے گھر کے سامنے تقریبا نصف گھنٹہ کھڑی رہی تھی۔۔۔لیکن یہ شاید حسن اتفاق تھا کہ تفتیش کا رخ رومیل کے گھر کی جانب نہ مڑا۔ خود آیا صوفیاء کے بطریق اعظم نے یہ کہہ کر ڈیمونان آخری وقت کسی پادری کی دعوت پر گیا تھا۔ بطریق اعظم یہ نہ بتا سکا کہ ڈیمونان کس پادری کی دعوت پر گیا تھا۔ قاسم کی منصوبہ بندی ہی ایسی تھی کہ ڈیمونان کے قتل کا سراغ نہ لگایا جا سکا۔ قسطنطنیہ کی خفیہ پولیس نے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا تھا۔ لیکن انہیں قاتل کا سراغ نہ مل سکا۔ حتیٰ کہ کئی روز گزر گئے اور کلیساؤں کی مجلس کا دن سر پر آگیا۔
کلیساؤں کی مجلس سے صرف تین دن پہلے قاسم ایک بار پھر ’’آیا صوفیاء‘‘ کے سامنے نمودار ہوا۔ اس دوران وہ ایک سرائے میں مقیم رہا تھا اور اس نے اپنا کام بدستور جاری رکھا تھا۔ ان دنوں میں وہ قسطنطنیہ میں مقیم بعض مسلمان تاجروں کے ساتھ روابط پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ اس نے کچھ خفیہ سرگرمیاں بھی سر انجام دی تھیں جن کا نتیجہ بہت جلد سامنے آنے والا تھا۔ اس کا سامان ابیھ تک سرائے میں رہی رکھا تھا۔ آج قاسم نے ’’آیا صوفیاء‘‘ میں داخل ہونے کی نیت سے ادھر کا رخ کیا تھا۔ آج وہ گھوڑے پر بھی سوار نہ تھا لیکن ایک عجیب بات تھی آج ایک بار پھر قاسم نے اپنی گردن میں پادریوں والی صلیب لٹکا رکھی تھی اور زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ اس مرتبہ یہ صلیب رومن کیتھولک چرچ کی نہ تھی۔’’آیاصوفیاء‘‘ کے یونانی کلیسا کی ہی تھی۔ قاسم صاف ستھرے اور سادہ لباس میں تھا اور اس کے سر پر کلغی والی نیلے رنگ کی قیمتی ٹوپی بھی رکھی تھی۔ قاسم چرچ کے سامنے موجود خوبصورت باغ میں سے گزرتا ہوا چرچ کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ دروازے کے دونوں طرف دو پتھر نصب تھے جہاں باوردی پہرے دار لمبے لمبے نیزے لئے کھڑے تھے۔ پچھلے ایک ہزار سال سے انہی پتھروں پر آیا صوفیاء کے پہریدار کھڑے رہا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں پتھروں پر دو دو گڑھے پڑ چکے تھے جو دراصل پہریداروں کے قدموں کے نشانات تھے۔
قاسم بڑی لاپرواہی سے چلتا ہوا چرچ میں داخل ہوگیا۔ اسکے سامنے سب سے پہلے ایک وسیع و عریض ہال تھا جو تقریباً مربع شکل میں تھا اور جس کی وسعت شمالاً جنوباً 235فٹ تھی۔ بیچ کے گنبد کا قطر 107فٹ اور چھت کی اونچائی185فٹ تھی۔ پوری عمارت میں170دیوہیکل ستون تھے۔ اپنے سر پراس قدر اونچی چھت دیکھ کر قاسم کے دل پر چرچ کا رعب طاری ہونے لگا۔ چاروں طرف کی دیواروں میں غلام گردشیں اور سینکڑوں محراب بنے ہوئے تھے۔
قاسم کے سامنے ہال کے 170ستون’’ابوالہول‘‘ کے مجسموں کی مانند کھڑے تھے۔ ہال میں عبادت کرنے والوں کے لیے قیمتی کرسیاں بچھی تھیں جن کا رخ مشرق کی جانب تھا۔ کرسیاں دونوں طرف بچھی تھیں اور درمیان میں ایک دبیز قالین بچھا کر چلنے کے لیے روش بنائی گئی تھی۔ قاسم اس روش پر چلنے لگا۔ اس ہال کے علاوہ ’’آیا صوفیاء‘‘ کی عمارت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہال کے چاروں طرف اعلیٰ قسم کے سنگ مرمر سے بنی راہداریاں تھیں جن میں بشپوں، پادریوں اور راہبوں کے کمرے اور دفاتر تھے۔ ان کمروں کی دوسری منزل پر چرچ کے بڑے عہدیدار مقیم تھے اور بطریق اعظم ثانی کا خاص کمرہ بھی یہیں تھا۔ چرچ کی تمام راہباؤں کے کمرے بھی دوسری منزل پرتھے۔ یہ راہبائیں’’نن‘‘ یا’’سسٹر‘‘ کہلاتی تھیں۔ ان کا لباس سفید تھا اور ان کی قمیضوں کے کالر سرخ ہوا کرتے تھے جو لڑکی راہبہ بن جاتی، وہ عمر بھر دنیاوی آلائشوں سے بظاہر دور رہتی۔ لیکن کون جانتا تھا کہ سفید لباسوں میں ملبوس یہ ’’ننیں‘‘ کب چرچ کے تاریک کمروں میں اپنے لباس سرخ کر لیتی ہیں۔(جاری ہے)