عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 77
وہ بریٹا کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اورا س دل اسے بتا رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ سب سے پہلے سیدھا ’’مورگن‘‘ کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔اور یہ دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا کہ بریٹا سچ مچ مورگن کے کمرے میں موجود تھی۔ رومیل کے دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لینے لگے۔ اس نے انتہائی احتیاط سے نپے تلے قدم اٹھانا شروع کر دیئے تاکہ آواز پیدا نہ ہو۔ کچھ دیر بعد وہ قاسم کے کمرے کی کھڑکی سے باہر موجود تھا۔ یہاں سے وہ کمرے کے اندر دیکھ سکتا تھا ۔ کمرے میں مشعل روشن تھی۔ رومیل نے دیکھا کہ بریٹا قاسم کے بستر کے نزدیک کھڑی تھی اور قاسم ابھی تک بستر پر ہی لیٹا ہوا تھا۔ رومیل کا دل یہ منظر دیکھ کر بہت تیزی کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ اس کی سانسیں اپنے سینے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ مشعل کی روشنی میں اندرونی منظر پر غور کرنے لگا۔۔۔اس نے دیکھا۔۔۔کہ بریٹا۔۔۔اب قاسم پر جھک رہی تھی۔ اور پھر وہ قاسم کے سینے کی جانب جھکی ہوئی دکھائی دینے لگی۔
رومیل کے ہونٹ اور حلق خشک ہوگیا۔۔۔بریٹا، قاسم کے سینے پر جھک کر نہ جانے کیا کر رہی تھی۔۔۔اور پھر اچانک بریٹا سیدھی ہوئی۔۔۔اس کا دایاں ہاتھ فضا میں بلند ہوا۔ رومیل کو بریٹا کے ہاتھ میں ایک چمکدار خنجر کی جھلک نظر آئی۔ لیکن اگلے لمحے وہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کوینکہ بریٹا خنجر کا وار ۔۔۔کر چکی تھی۔ بریٹا اپنے منہ بولے بھائی قاسم کے سینے پر خنجر کا وار کر چکی تھی۔ رومیل نے آنکھیں بند کر لیں اس سے دیکھا نہ گیا کہ مورگن جیسے بہترین سپاہی کو یوں ایک عورت بے خبری میں قتل کر دے لیکن اب وہ کچھ نہ کر سکتا تھا وہ تو کچھ اور جان کر یہ سب کچھ دیکھنے آیا تھا۔۔۔لیکن یہاں تو کہانی ہی کچھ اور تھی۔
بریٹا نے مورگن کو قتل کر دیا تھا۔۔۔لیکن یہ کیا؟؟۔۔۔رومیل کو ایک اور منظر دکھائی دیا۔۔۔قاسم بچ گیا تھا۔ جس وقت بریٹا ایک بہن کی حیثیت سے قاسم کا ماتھا چومنے لگی تھی۔۔۔اسی وقت قاسم کی آنکھ کھل گئی تھی۔ لیکن مکر کرکے پڑا رہا۔۔۔اور جس وقت بریٹا۔۔۔ایک’’عیسائن‘‘ بن کر مسلمان جاسوس کو قتل کرنے جا رہی تھی۔قاسم نے پوری طرح آنکھیں کھول دیں اور بریٹا کا خنجر والا ہاتھ پکڑ لیا۔ بریٹا قاسم پر جھکی تو اس لئے تھی کہ اس نے دنیا میں ایک بھائی بنایا تھا اور وہ اس بھائی کو آخری وقت میں پیار دینا چاہتی تھی لیکن بریٹا قاسم کا ماتھا چومنے سے پہلے رک گئی تھی۔ اسے خیال آیا کہ چالاک قاسم جاگ نہ جائے ۔۔۔اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور دل پر پتھر رکھ کر دین مسیح کے اس دشمن کا کام تمام کرنے کے لیے وار کر دیا۔ لیکن قاسم تو پہلے ہی جاگ چکا تھا۔ چنانچہ قاسم نے بروقت اس کا وار روک لیا۔۔۔اور مسکراتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 76پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیا بات ہے بہن!۔۔۔مجھ سے کیا قصور ہوگیا ہے۔۔۔جس کے لئے تم میری جان لینا چاہتی ہو؟‘‘
’’تم۔۔۔تم۔۔۔تم دغا باز ہو۔۔۔تم نے ایک بہن کے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے۔ تم نے مجھے اپنی محبت کی جھوٹی کہانی سنا کر مجھے دین مسیح کے خلاف استعمال کیا ہے میں تمہاری جان لے کر اپنا قرض چکانا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
بریٹا بہت غصے میں تھی۔ قاسم بھی حیران تھا کہ آخر بریٹا کے سامنے اس کا راز کیسے افشاء ہوگیا۔۔۔وہ یہی سوچ رہا تھا کہ بریٹا نے پھر کہا۔
’’تم نے مارسی کو ورغلایا اور اسے دین مسیح کے خلاف استعمال کیا۔۔۔اور پھر مجھے ورغلا کر تم دوبارہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔۔میں تمہاری حقیقت جان چکی ہوں۔ تم مورگن نہیں۔۔۔قاسم بن ہشام ہو۔‘‘
اب قاسم کے لیے مزید چھپے رہنا ممکن نہ تھا۔ اس کا پول کھل چکا تھا۔ اس نے کچھ دیر کے لیے سر جھکا لیا۔ بریٹا اسے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یکلخت وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی اور اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔ تم مجھے پہلے روز بھی بتا دیتے کہ تم مسلمان ہو۔ تب بھی تمہیں اپنا بھائی بنا لیتی۔ میں تو مسلمانوں کو برا سمجھتی ہی نہ تھی۔۔۔ہائے۔۔۔ایک وہ مسلمان تھا جس نے دوران جنگ با اختیار فاتح ہو کربھی میری اس وقت مدد کی جب درد زچگی میں جان دینے والی تھی۔ اور ایک تم مسلمان ہو جس نے میری سادگی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور مجھے بہن بنا کر دھوکا دیا ہے ۔۔۔‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ قاسم اس کے سامنے سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ اس نے پہلی بار سر اٹھایا۔۔۔اس کی آنکھوں میں بھی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں اور وہ نگاہ حسرت بریٹا کے چہرے پر ڈال کر بریٹا سے مخاطب ہوا۔
’’میں نے تمہیں کوئی دھوکا نہین دیا بریٹا بہن! میں اب بھی تمہارا بھائی ہوں۔ ڈیمونان کے ساتھ میرا کچھ پرانا حساب کتاب تھا۔ وہ میرے باپ اور بھابھی کا قاتل ہی نہ تھا بلکہ ’’ادرنہ‘‘ میں 20سال تک ’’ابوجعفر‘‘ بن کر رہ رہا تھا۔۔۔اور سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کا قاتل تھا۔۔۔اس نے کلیسا کی پرانی خدمت گار ’’مارتھا بیگم‘‘ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور مارسی کو اغواء کرکے لے گیا۔ لیکن یہ باتیں اگر میں تمہیں پہلے بتا دیتا تو بات نہ بنتی۔ میرے کردار کی وجہ سے مسلمانوں کو کچھ مت کہو۔۔۔میں وہی مسلمان ہوں جو بوسنیا کی گلی میں تمہاری کراہیں سن کر بروقت تمہاری مدد کو پہنچا تھا۔۔۔ہاں میں وہی شخص ہوں۔۔۔اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ اس وقت تمہاری سہیلی’’ماریا‘‘ میرے بھائی کی بیوی ہے ۔۔۔اور اس کا نام مریم ہے۔۔۔اور تمہاری بوسنیائی شہزادی میری بیوی ہے اور اس کا نام حمیرا ہے ۔۔۔تمہارے ’’بارٹا کوزین‘‘ کا نام اب عباس ہے۔۔۔میں تو تمہیں اسی روز سے بہن بنا چکا ہوں جبکہ تم نے چند دن پہلے مجھے بھائی کہا ہے اب تم بتاؤ۔۔۔کیا میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے؟‘‘
بریٹا پرسکتہ طاری ہوچکا تھا۔ وہ ہکا بکا کھڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا ۔قاسم نے مریم، عباس اور شہزادی حمیرا کا حوالہ دے کر بریٹا کو سچ مچ استعجاب کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔ جس مسلمان نوجوان کو وہ گزشتہ سال سے سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتی آئی تھی وہ یہی تو تھا۔ قاسم اگر اس دن نہ ہوتا تو بریٹا کی زندگی بچتی نہ اس کے بچے کی۔ خود بریٹا اور رومیل نے اپنے بیٹے کا نام اسی واقعہ کی نسبت سے رکھا ہوا تھا وہ سلطان مراد کی بجائے اب اپنے بیٹے کو سولٹن کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ بھی تو سلطان کا ہی بگڑا ہو الفظ تھا۔ بریٹا کی آنکھیں آخری حد تک کھلی ہوئی تھیں اور وہ پلکیں جھپکنا بھول چکی تھی۔ قاسم گزشتہ کئی روز سے اس کے ساتھ تھا لیکن وہ اسے پہچان نہ سکی تھی۔ وہ اسے پہچانتی بھی کیسے۔ زچگی کے وقت اس نے قاسم کو دیکھا تونہ تھا۔ وہ تو صرف یہ جانتی تھی کہ ایک مسلمان نوجوان نے مشکل وقت میں اس کی مدد کی تھی۔
کمرے سے باہر کھٹکا سنائی دیا۔ یکلخت قاسم اور بریٹا دونوں اچھل پڑے۔۔۔یہ کون ہو سکتا تھا؟ قاسم نے پھرتی سے اپنی شمشیر بے نیام کر لی لیکن بریٹا اندازہ لگا چکی تھی قاسم نے برہنہ شمشیر لئے باہر نکلنا چاہا تو بریٹا نے اس کا دامن تھام لیا۔
’’بھیا! باہر مت جاؤ لگتا ہے رومیل نے ہماری باتیں سن لی ہیں۔ تلوار واپس نیام میں ڈالو۔ رومیل تمہارا دشمن نہیں۔‘‘
قاسم نے رومیل کاسنا تو اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ بریٹا نے پھر اس سے کہا ’’بھیا مجھے معاف کردو۔ تم نے پہلے روز ہی مجھے بتا دیا ہوتا۔ میں تو پچھلے سات سال سے اٹھتے بیٹھتے تمہارے لئے دعائیں کرتی آئی ہوں۔ تم ملے بھی تو ان حالات میں۔۔۔آج اگر میں نے کچھ کر دیا ہوتا تو میں حشر کے روز تمہیں کیا منہ دکھاتی۔‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ قاسم کوئی جواب دیتا ، رومیل آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور چہرہ غیض و غضب سے انگارے کی طرح دہک رہا تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا اور گرجدار آواز میں بولا۔
’’دغا باز مہمان!۔۔۔میں تمہیں قتل کرنے کے لئے نہیں۔۔۔میں تمہیں صرف یہ کہنے کے لیے آیا ہوں کہ تم علی الصبح قسطنطنیہ سے نکل جاؤ۔ ہم نے تمہارے احسان کا جتنا بدلہ دینا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ تم ہم سے وصول کر چکے ہو۔ لیکن پھر بھی میں اپنی بیوی اور بیٹے کے صدقے تمہاری جان بخشی کرتا ہوں۔۔۔ہاں اگر سورج نکلنے کے بعد تم مجھے قسطنطنیہ میں دکھائی دیئے تو میں سارے شہر کی پولیس تمہارے پیچھے لگا دوں گا اور تمہاری جان لے کر رہوں گا۔‘‘
قاسم کے ہاتھ میں بھی تلوار برہنہ تھی۔ لیکن قاس نے اپنی تلوار کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور حسرت ناک نگاہوں سے بریٹا کی جانب دیکھا۔ بریٹا کے چہرے پر بلا کی اداسی تھی۔ آج قدرت نے اسے بے پناہ دردناک منظر کا حصہ بنا دیا تھا۔ وہ ہر دونوں صورتوں میں تکلیف جھیل رہی تھی۔ رومیل ، قاسم کو رسوا کرکے نکال رہا تھا۔ لیکن بریٹا تو درحقیقت اپنے بھائی کو آج ملی تھی۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ قاسم وہی شخص ہے جس نے بوسنیا میں بریٹا کی جان بچائی تھی۔۔۔