عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 76
ڈیمونان کی بگھی ہوا سے باتیں کرتی ہوئی اسی سمت میں جارہی تھی۔ ڈیمونان کے اوسان خطا ہوگئے۔ اور اب اسے محسوس ہونے لگاکہ اس کی چھٹی حس کس قسم کے خدشات کی نشاندہی کررہی تھی اس نے مضطرب ہو کر بگھی کے کوچوان کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔۔۔کوچوان!۔۔۔کوچوان!۔۔۔کوچوان!‘‘
لیکن کوچوان ہوتا تو سنتا۔ کوچوان تو اس وقت دنیا میں ہی نہیں تھا۔ اس کی لاش نئے کوچوان کے قدموں میں پڑی تھی۔
اب ڈیمونان نے کوچوان کو پکارنا بند کر دیا اور اپنا خنجر نکال لیا۔ اس کے پاس تلوار تو نہ تھی۔ وہ خنجر سے نئے کوچوان کا کام تمام کرنا چاہتا تھا۔ وہ چلتی بگھی میں اپنی نشست سے اٹھا اور بگھی کے اگلے پردے کو چاک کر دیا۔ دونوں راہباؤں کے رنگ ہلدی کی طرح زرد ہوگئے تھے اور رونے لگیں۔ ڈیمونان، بگھی کا پردہ چاک کرکے کوچوان کی نشست تک پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ کوچوان کو قتل کرنے کے لئے عقب سے اس پر جھپٹا۔ لیکن کوچوان جو کہ قاسم تھا۔۔۔اس سے بے خبر نہیں تھا۔ جونہی ڈیمونان نے عقب سے قاسم پر خنجر کا وار کیا۔ قاسم نے ایک طرف جھکائی دی اور ڈیمونان کا وار خالی چلا گیا۔ لیکن دیمونان، قاسم کے پہلو میں آگرا اور قاسم نے اپنا دایاں بازو اس کی گردن کے گرد حمائل کر دیا۔ اب بگھی فصیل کے بالکل نزدیک پہنچ چکی تھی۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 75پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم نے بائیں ہاتھ سے دونوں گھوڑوں کی لگامیں پوری قوت سے کھینچیں اور تھوڑی دیر کے بعد بگھی رک گئی۔ ڈیمونان کی گردن پر قاسم کی گرفت اس قدر سخت تھی کہ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے خنجر سے قاسم پر حملہ نہ کر سکتا تھا۔ قاسم کے چہرے پر سیاہ رنگ کا نقاب چڑھا تھا۔ چنانچہ ڈیمونان قاسم کو پہچان نہ سکا۔ بگھی رکی تو قاسم نے ڈیمونان کے خنجر والے بازو کو پکڑ کر مروڑ دیا۔ ڈیمونان کا خنجر بگھی کے فرش سے ٹکراتا ہوا نیچے جا گرا۔۔۔راہبائیں اتنی خوفزدہ تھیں کہ اس کے جسموں میں یہاں سے نکل بھاگنے کی بھی سکت نہ رہی تھی اور سب کچھ ہوا بھی تو آنا فانا تھا۔
قاسم اپنا بازو ڈیمونان کی گردن کے گرد حمائل کئے بگھی سے نیچے اتر آیا اور اسے فصیل کی جانب دھکا دے کر پھینک دیا۔ ڈیمونان پتھریلی فصیل کے ساتھ بڑی طرح ٹکرایا اور نیچے گر گیا۔ اب وہ اپنی تلوار نکال چکا تھا۔ قاسم کی تلوار جو نہ جانے کتنے سالوں سے ڈیمونان کے خون کی پیاسی تھی۔ وہ ڈیمونان جس نے ابو جعفر بن کر بیس سال تک مسلمانوں کو دھوکہ دیا تھا اور سلطنت عثمانیہ میں بغاوت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ قاسم کا باپ اور اس کی پہلی بھابھی سکینہ بھیا سی بغاوت کا لقمہ بنے تھے۔ قاسم کے دماغ میں تمام خیالات ایک ایک کرکے گرد کرنے لگے۔ لیکن ڈیمونان کو ختم کرنے سے پہلے قاسم نے دونوں راہباؤں کو بگھی سے نکالا اور ڈیمونان کے ساتھ فصیل شہر کے نزدیک کھڑا کر دیا۔ اب وہ ابوجعفر کی سزائے موت پر عمل کرنے والا تھا۔ اس نے ڈیمونان پر فیصلہ کن وار کرنے سے پہلے اپنے چہرے سے نقاب کھینچ کر اتار دیا۔
اب قاسم ڈیمونان کے سامنے تھا۔۔۔دونوں پرانے شناسا سات سال بعد مل رہے تھے۔ ڈیمونان نے فوراً قاسم کو پہچان لیا۔ تب قاسم نے کہا۔
’’ابوجعفر!۔۔۔تم نے یقیناًمجھے پہچان لیا ہوگا۔ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری موت میں اپنی تلوار سے لکھوں گا۔ آج دیکھو! میں اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے تمہارے شہر اور تمہارے گھر میں۔۔۔تمہارے سامنے آچکا ہوں۔ آخر بار اپنے گناہوں کی توبہ کر لو۔ کیونکہ تمہارے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ شاید اس توبہ سے ایک دو معاف ہو جائیں۔‘‘
ڈیمونان کا پورا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا۔ آج اسے اپنی موت کا سو فیصد یقین ہو چکا تھا۔ اس نے قاسم سے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’قاسم بن ہشام!۔۔۔خدا کے لئے مجھے مت مارو۔۔۔مجھے معاف کر دو۔ تم مجھ سے جتنی رقم اور دولت چاہو لے لو۔ لیکن مجھے معاف کر دو۔‘‘
قاسم یہاں ذاتی انتقام لینے کے لیے تو آیا نہیں تھا کہ اس کی فریاد پر اسے معاف کر دیتا۔ وہ تو ایک بہت بڑا مقصد لے کر آیا تھا جو ڈیمونان کی جان لے کر ہی پورا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ قاسم نے ڈیمونان کی فریادوں کی مطلق پرواہ نہ کی اور ایک بھرپور وار سے ڈیمونان کا کام تمام کر دیا۔ ڈیمونان کا سر تن سے جدا ہو کر راہباؤں کے سامنے آگرا اور بے اختیار ان کی چیخیں نکل گئیں۔ اب قاسم کو ایک ناپسندیدہ کام کرنا تھا۔ اسے دونوں راہباؤں کو بھی ختم کرنا تھا کہ اس کا راز فاش نہ ہو ۔۔۔اور اس کا ’’بڑا مقصد‘‘ بھی اچھی طرح سے پورا ہو سکے۔ چنانچہ اس نے جی کڑا کرکے دونوں راہباؤں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اور پھر وہاں سے واپس لوٹنے سے پہلے قاسم نے ڈیمونان کے لباس کی تلاشی لے کر مارسی کی انگوٹھی واپس نکال لی۔ اس کے بعد قاسم نے ایک انتہائی عجیب کام کیا۔ اس نے اپنی جیب سے ’’رومن کیتھولک چرچ‘‘ کی مخصوص صلیب نکالی، جو سونے سے بنی ہوئی تھی اور چھوٹی سی زنجیر کے ذریعے گلے میں لٹکائی جانے والی صلیب تھی۔ قاسم نے صلیب نکال کر پہلے ڈیمونان کے مردہ ہاتھ میں اس طرح تھما دی جیسے مرنے سے پہلے ڈیمونان نے قاتل کی گردن پر ہاتھ ڈالا ہو۔ اور پھر کچھ سوچ کر اس نے ڈیمونان کے ہاتھ سے صلیب واپس نکال لی اور دو راہباؤں میں سے ایک راہبہ کے ہاتھ میں تھما دی۔ دراصل اس راہبہ کی لاش ایسے زاوئیے پر گری تھی کہ قاتل پر حملہ کرنے کا شک صحیح معنوں میں پیدا ہوتا تھا۔ اب قاسم اپنے کام سے فارغ ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی اور اپنے لباس کو اتارنا شروع کر دیا۔ اس لباس پر خون کے چھینٹے تھے۔ اس لباس کے نیچے قاسم نے ایک اور لباس پہنچ رکھا تھا۔ قاسم نے اپنا خون آلود لباس اتارا اور اسے ایک گٹھڑی میں باندھ کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔
اب قاسم نے بگھی کا ایک گھوڑا کھولا اور اس پر سوار ہوگیا۔ اگلے لمحے وہ واپس شہر کی جانب جا رہا تھا۔ شہر کے درمیان سے گزرتے ہوئے قاسم نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لباس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بارے میں سوچا۔ کچھ دیر بعد وہ شہر کے گندے نالے پر سے گزر رہا تھا۔ جس میں شہر بھر کا گنداپانی ہر وقت بھرا رہتا تھا ۔۔۔قاسم نے نالے کے اوپر سے گزرتے ہوئے ہاتھ گھما کر گٹھڑی کو نالے میں پھینک دیا۔ کچھ دیر بعد بگھی کا گھوڑا بھی اس نے ایک تاریک گلی میں آوارہ چھوڑ دیا۔ اب ماسوائے اس خون آلود تلوار کے جو قاسم کے نیام میں تھی قاسم کے خلاف کوئی نشان نہ تھا۔ قاسم نے سوچا کہ تلوار کو گھر جا کر صاف کر لے گا۔
قاسم کو معلوم نہ تھا کہ بریٹاکے دل پر کیسا انقلاب گزر چکا ہے۔ بریٹا تو اس کی اصلیت جان چکی تھی۔ لیکن قاسم بے خبری کے عالم میں گھر کی جانب ہی چل کھڑا ہوا۔ آج قاسم نے اپنے پیچیدہ منصوبے کے پہلے حصے کو پوری طرح سرانجام دے دیا تھا۔ قاسم نے آج حقیقی پھرتی تو اس وقت دکھائی تھی جب وہ مارسی کا ذکر سننے کے بعد گھر سے نکل آیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے شہنشاہ کا جعلی خط کوچوان کو دے کر کہا کہ وہ اسے فادر ڈیمونان تک پہنچا دے۔ اور پھر یہ جعلی خط بھی حقیقت میں شہشناہ کا ہی ایک پرانا خط تھا جو آج سے سات سال پہلے شہنشاہ نے ڈیمونان کو ادرنہ ارسال کیا تھا۔ اس وقت قاسم ’’ادرنہ‘‘ میں شاہی سراغ رساں تھا اور یہ خط اس وقت اس کے ہاتھ لگا تھا جب ڈیمونان ’’ادرنہ‘‘ سے فرار ہو چکا تھا۔ قاسم نے کل ہی یہ خط اپنے سامان سے نکالا اور ایک تیز دھار چاقو کی مدد سے اس پر لگی ہوئی سطریں کھرچ دیں۔ اس کے بعد قاسم نے سیاہ روشنائی سے لاطینی زبان میں نئی سطریں لکھیں۔ اور اس طرح قاسم نے شہنشاہ کے سات سال پرانے خط سے بہت اہم کام نکال لیا تھا۔
قاسم نے خط کوچوان کے حوالے کیا اور خود بگھی کے پاس ہی چھپ کر کوچوان کو دیکھنے لگا۔ کوچوان نے سیدھا جا کے رومیل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعدجب کوچوان خط دے کر واپس لوٹا تو قاسم نے اسے بھوکے چیتے کی طرح دبوچ لیا۔ اگلے لمحے قاسم س کی گردن دبوچ چکا تھا۔
یہ سب تو ٹھیک تھا۔ لیکن قاسم بریٹا کے دل سے بے خبر تھا۔ بریٹا اس وقت بھی اپنے بستر پر اداس لیٹی اپنے دکھی دل کا درد بھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ آنسو بہا رہی تھی۔ بریٹا کی دونوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے دیکھ کر اس کے پاس کھڑا رومیل بے چین ہوگیا۔ اسے حقیقت حال کی خبر نہ تھی۔ چنانچہ اس نے کسی قدر ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’بریٹا! اب بس بھی کرو۔ تم نے مقدس باپ کی دعوت کرنی تھی کر دی۔ کیا ہوا اگر وہ مجبوری کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکے۔۔۔اور مورگن کا غم بھی نہ کرو۔ وہ تو ہے ہی آوارہ گرد۔ صبح سے شام تک شہر کی خاک چھانتا رہتا ہے۔۔۔آلینے دو اسے۔ آج میں اس کی اچھی خبر لیتا ہوں۔‘‘
رومیل کے آخری جملے بریٹا کے دل میں نشتر کی طرح اتر گئے۔ وہ جانتی تھی کہ مورگن اب نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ مورگن نہیں بلکہ ایک مسلمان جاسوس قاسم تھا۔ وہ فادر ڈیمونان سے قاسم کی اصل کہانی سن چکی تھی اور اسے صاف اندازہ ہوگیا تھا کہ یہی مورگن ہی وہ مسلمان جاسوس ہے وہ سوچنے لگی کہ اگر مورگن آجائے تو وہ اس کے ساتھ کس طرح پیش آئے گی۔ اس کے دل نے جواب دیا کہ وہ اسے قتل کر دے گی۔ کیونکہ مورگن نے اسے بہن بنا کر دھوکہ دیا۔
اور پھر رومیل کی بات سچ ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد بریٹا نے اپنے گھر کے دروازے پر وہی مخصوص دستک سنی جو قاسم دیا کرتا تھا۔ وہ ایک دم اچھل کر بیٹھ گئی اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔وہ پھر سوچنے لگی کیا وہ اس مسلمان جاسوس کو قتل کر پائے گی۔۔۔لیکن وہ رومیل سے چھپانا چاہتی تھی۔ وہ اسی گومگو کے عالم میں تھی کہ رومیل، قاسم کو لے کر کمرے میں داخل ہوا۔۔۔قاسم پر بریٹا کی نظر پڑی اور وہ بستر سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔’’سولٹن‘‘ اسی بستر پر ماں کے پہلو میں گہری نیند سو رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔۔۔اب بریٹا قاسم کو ایک ٹک گھورے جا رہی تھی۔ قاسم نے بریٹا کی نظروں میں اپنے لئے عجیب سی چیز دیکھی تو بوکھلا گیا اور گھبرا کر کہنے لگا۔
’’بریٹا بہن!۔۔۔خیریت تو ہے ؟۔۔۔لگتا ہے مقدس باپ کی دعوت جلد ختم ہوگئی۔ میں کیا کرتا۔ یہاں سے گیا تو تھوری دیرکے لئے تھا لیکن باہر نکلا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ’’رومن کیتھولک چرچ‘‘ کے پادری شہر میں کھلم کھلا اپنے مذہب کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں۔ مجھے یہ صورتحال دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور میں ان میں سے بعض پادریوں کے ساتھ بحث کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے دیر ہوگئی۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ دیر ضرورت سے زیادہ ہوگئی۔ کیونکہ یہاں تو سرے سے دعوت ہی ختم ہوگئی ہے۔‘‘
قاسم کی باتیں سن کر رومیل تو مسکرا رہا تھا لیکن بریٹا کے چہرے پر کوئی تبدیلی دکھائی نہ دی۔ دکھائی بھی کیسے دیتی۔ وہ تو حقیقت حال سے واقف ہو چکی تھی۔ بریٹا ابھی تک انتہائی سنجیدہ چہرہ لئے قاسم کوگھورے جا رہی تھیقاسم شرمندہ ہو کر بغلیں جھانکنے لگا۔ اس نے بالآخر کہا’’بریٹا بہن۔۔۔لگتا ہے تم مجھ سے بے حد ناراض ہو۔ میں دل سے معافی مانگتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ تمہیں ناراض نہیں کروں گا۔‘‘
لیکن بریٹا پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اب قاسم کا ماتھا ٹھنکا۔ ضرور کوئی اور بات تھی۔ اس نے گھوم کر رومیل کی جانب دیکھا۔ لیکن رومیل تو اپنے مخصوص انداز میں سادگی کے ساتھ مسکرا دیا۔۔۔قاسم دو قدم آگے بڑھا اور بریٹا کے نزدیک آکر ٹھہر گیا۔ اب وہ بریٹا کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ یہاں خاموشی نہ تھی۔ بریٹا کے صرف ہونٹوں پر خاموشی تھی۔ آنکھیں؟۔۔۔آنکھیں تو درد، کرب، دکھ اور اذیت کی بڑی کربناک کہانی سنا رہی تھیں۔ اب قاسم کو پہلی بار احساس ہوا کہ بریٹا کی مہر سکوت بلا وجہ نہیں۔ ضرور کوئی غیر متوقع بات ہوگئی ہے۔ کیونکہ بریٹا ایک ہی انداز میں شروع سے کھڑی تھی۔ اب تو رومیل بھی کسی حد تک سنجیدہ دکھائی دینے لگا۔ قاسم ایک قدم اور آگے بڑھا۔۔۔اور اپنا ہاتھ بڑھا کر بریٹا کے کندھے پر رکھنا چاہا تاکہ اسے منا ئے۔ لیکن اگلے لمحے بریٹا نے ایک ایسی حرکت کی کہ رومیل اور قاسم دونوں حیران رہ گئے۔ بریٹا نے غم و غصے کی شدت سے ہاتھ بڑھا کر قاسم کا گریبان پکڑ لیا اور بری طرح جھنجھوڑتے ہوئے چیخنے لگی وہ زور زور سے رو رہی تھی اور ساتھ کے ساتھ قاسم کو جھنجھوڑتی بھی جا رہی تھی۔
’’جھوٹے، مکار، فریبی، دغا باز۔۔۔تم نے ایک بہن کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔۔۔اور سچی بہن کو۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘
بریٹا بہت غصے میں تھی۔ وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ قاسم باربار رومیل کی جانب دیکھ رہا تھا کہ وہ اصل ماجرا بتا دے۔ لیکن رومیل کو بھی تو اصل ماجرا معلوم نہیں تھا وہ بھلا قاسم کو کیا بتاتا۔ وہ خود اپنی بیوی کی اس حرکت پر بوکھلا گیا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے بریٹا کو سنبھال لیا۔ اب وہ تسلی دے رہا تھا۔
’’بریٹا۔۔۔بریٹا۔۔۔اپنے آپ کو سنبھالو۔۔۔تمہیں کیا ہوگیاہے؟ کیا بات ہے؟ تم ’’مورگن‘‘ کو اس قدر کیوں ڈانت رہی ہو۔ مجھے بھی تو بتاؤ۔ بریٹا۔۔۔بریٹا۔۔۔‘‘
لیکن بریٹا تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے رومیل کے سنبھالنے پر قاسم کا گربیان تو چھوڑ دیا لیکن اب وہ خود بلند ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ اور پھر وہ دوبارہ بستر پر بیٹھ گئی۔ رومیل بھی اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اتنے میں قاسم نے کہا۔
’’لگتا ہے بریٹا بہن کی طبیعت ناساز ہے۔ انہیں اپنے دل کی بھڑاس مجھ پر نکال لینے دیں انہیں مجھ پر غصہ ہے۔ آپ انہیں غصہ اتارنے دیں۔‘‘
رومیل نے ایک بے نام سی نظر کے ساتھ قاسم کو دیکھا۔ قاسم کو بہت عجیب سا لگا۔ بریٹا کی ہچکیاں رک گئی تھیں اور وہ سسکیاں لے رہی تھی۔ قاسم نے اپنے آپ کو وہاں غیر ضروری محسوس کیا اور وہاں سے نکل آیا۔ وہ اپنے کمرے میں آیا اور اس نے سب سے پہلے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور اسے سب کی نظر بچا کر اچھی طرح دھو لیا۔ اب وہ بالکل صاف تھا۔ اس نے ابوجعفر کے قتل کا آخری نشان بھی بٹا دیا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے توتلواز نیام سمیت دیوار پر لٹکائی اور خود بڑی فکر مندی کے ساتھ بستر پر دراز ہوگیا۔وہ گھر واپس آکر اور بریٹا کا رویہ دیکھ کر بے حد پریشان ہو گیا تھا۔۔۔یا الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے؟۔۔۔وہ سوچنے لگا۔ آخر بریٹا کو ہوکیا گیا تھا؟ لیکن اسے کوئی جواب سجھائی نہ دیا۔ اسی فکر مندی کے عالم میں دیر تک اسے نیند نہ آئی۔ اور پھر جب اسے نیند آئی تو وہ سب کچھ بھلا کر نیند کی حسین وادی میں چلاگیا۔
بریٹا نے بہت زیادہ رولیا تھا اور اس کے من کی بہت سی بھڑاس آنسوؤں کے ذریعے نکل چکی تھی۔ وہ دیر تک روتی رہی۔ رومیل اس کا سر اپنے زانو پر ٹکائے اس سے پوچھتا رہا کہ آخر اس قدر رونے اور مورگن پر غصہ کرنے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ لیکن بریٹا نے رومیل کو کچھ نہ بتایا۔ صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
’’رومیل۔۔۔بس مجھے لیٹنے دو۔۔۔میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔‘‘
رومیل نے بریٹا کو آرام سے بستر پر لٹا دیا۔۔۔اور پیار سے اس کا سر دبانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بریٹا سو چکی تھی۔
لیکن رومیل کو نیند نہ آرہی تھی۔ وہ بار بار کروٹیں بدل رہا تھا اس کے ذہن میں بریٹا کے الفاظ گونج رہے تھے۔ جھوتے ، مکار، فریبی، دھوکے باز، تم نے ایک بہن کو دھوکا دیا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر مورگن نے بریٹا کو کیا دھوکہ دیا ہے؟ وہ دیر تک کروٹیں بدلتا رہا اور پھر وہ بھی خواب خرگوش میں کھو گیا۔
آدھی رات کے قریب رومیل کی آنکھ کھل گئی۔۔۔اس نے کروٹ بدلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی بیوی اپنے بسترپر نہیں تھی بریٹا کہاں گئی؟۔۔۔اس نے سوچا۔ اور پھر نہ جانے اس کے دل میں کیسا وسوسہ پید اہوا کہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور انتہائی احتیاط سے آواز پیدا کئے بغیر اپنے کمرے سے نکل گیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)