عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 75
کچھ دیرکے لیے کمرے میں خاموشی چھاگئی۔ پھر ڈیمونان بولا اور اس نے دھیرے دھیرے مارتھا اور مارسی کی کہانی بریٹا کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ سنانی شروع کردی۔۔۔یہی وہنازک وقت تھاجب قاسم ساتھ والے کمرے میں موجود نہ تھا۔ وہ تو مارسی کا سسٹر میری حیثیت سے ذکر سنتے ہی وہاں سے اٹھ گیا۔ اس کے کانوں میں جونہی مارسی کے زندہ سلامت قسطنطنیہ میں داخل ہونے کی خبر پہنچی۔ اس کے بدن پرجوش کی وجہ سے ہلکی سی کپکپی طاری ہوگئی۔
محبوب سے بچھڑنے کا دکھ آج ایک دم سے جوان ہوگیا تھا۔ وہ مارسی سے والہانہ محبت کرتا تھا۔ اس کے تو تصور میں بھی نہ تھا کہ مارسی قسطنطنیہ میں ہوگی۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کہ آج سے سات سال پہلے جب مارسی ’’البانیہ‘‘ لے جائی گئی تو وہیں کہیں گم ہوگئی یہ سن کر کہ مارسی قسطنطنیہ کے چرچ آیا صوفیاء میں ہے قاسم کے بدن کا ایک ایک بال کھڑا ہوگیا۔۔۔وہ اپنی مارسی سے مل سکے گا۔ وہ اپنی مارسی کو دیکھ سکے گا۔۔۔مارسی اس سے مل کر کیسا محسوس کرے گی۔ ان دردناک سوالات کی لذت نے اسے سرشارکردیا اب اسے ساتھ والے کمرے میں چھپنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تیزی سے اٹھااور انتہائی احتیاط کے ساتھ نہ صرف کمرے سے بلکہ مکان سے نکلتا چلا گیا۔ اب اسے اپنا اگلا قدم اٹھانا تھا اور اس کا اگلا قدم ابھی تھوڑی دیر میں ظاہر ہونے والا تھا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 74پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ادھر کمرے میں وہ نازک لمحہ آچکا تھا۔ جس نے بریٹاکے سامنے قاسم کی ساری قلعی کھول کے رکھ دی۔ قاسم تو جا چکا تھا لیکن اب مارسی کی اصل کہانی سن کربریٹا کے قدموں تلے سے زمین سرکتی جارہی تھی۔ قاسم نے اتنی لمبی چھوڑئی منصوبہ بندی کے دوران یہ سامنے کی بات نظر اندازکر دی کہ ڈیمونان جب بریٹا کو مارسی کی اصل کہانی سنائے گا تو قاسم کا پول خود بخود کھل جائے گا۔ اور اب تو بریٹا کہانی سن چکی تھی۔ اتنے بڑے راز کا انکشاف ہونے پراس کابدن لرزنے لگا اور اس کا سر چکرانے لگا۔ وہ ڈیمونان کی زبانی سن چکی تھی کہ مارسی کس طرح قاسم بن ہشام نامی ایک مسلمان نوجوان کے دام فریب میں جکڑی گئی تھی۔ ڈیمونان نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلے پہل تو وہ مارسی کو اغواء کرکے لایا تھا۔ البتہ اس نے بہت سی باتیں چھپا بھی لی تھیں۔ مثلا اس نے یہ نہیں بتایا تھاکہ’’ادرنہ‘‘ میں اس وقت تک ابوجعفر بن کر رہ رہا تھا۔ اور نہ ہی اس نے بتایا کہ ’’مارتھا‘‘ کو تو اس نے خود قتل کرکے راستے سے ہٹا دیا تھا۔ ڈیمونان نے اپنے آپ کو ’’ادرنہ‘‘ میں ایک پادری کے طور پر ہی ظاہر کیا اور اسے بتایا کہ وہ اس وقت ’’ادرنہ‘‘ میں موجود زمیوں یعنی باجگزار عیسائیوں کاپادری تھا۔
ابھی بریٹا یہ سوچ ہی رہی تھی کہ وہ ان لوگوں کے سامنے مورگن کاپول کھولے یانہ کھولے۔ اسی اثناء میں مکان کے دروازے پر دستک ہوئی۔ کمرے میں موجود سب لوگ چونک اٹھے۔ ڈیمونان نے حیرت سے کہا۔
’’کیا آپ کے بھائی گھر میں دستک دے کر آتے ہیں؟‘‘
اس سوال پر بیٹا اور رومیل دونوں سٹپٹا گئے۔ رومیل یکلخت اٹھا اور مکان کے دروازے پر یہ دیکھنے کے لیے چلا گیا کہ کون آیا ہے؟ بریٹا ابھی تک مخمصے میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ساتھ والے کمرے میں تو مورگن چھپا بیٹھا ہے اور ادھر اس کا سارا پول کھل چکا ہے۔ اس نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو۔۔۔مورگن پول کھل جانے کے ڈر سے نکل جائے۔ اسے بے حد دکھ بھی ہو رہا تھا کہ مورگن نے اسے بہن بنا کر دھوکہ دیا تھا اور اسے جھوٹ بول کر استعمال کیا تھا۔ بریٹا خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی۔ لیکن اسے منہ سے کچھ بولنے کی ہمت ہوئی۔ کچھ دیر بعد رومیل لوٹ آیا جس کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا چرمی لفافہ تھا۔ یہ بازنطینی دربار کا مخصوص لفافہ تھا جو پیغامات کی ترسیل کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ڈیمونان چرمی لفاظ دیکھ کر چونکا اور فی الفور رومیل سے سوال کیا۔
’’یہ کیا ہے؟۔۔۔یہ تو شہنشاہی پیغام لگتا ہے ۔۔۔کون لایا ہے؟‘‘
ڈیمونان بے صبرا ہونے لگا۔ رومیل نے لفافہ ڈیمونان کی طرف بڑھا دیا اور کہا۔
’’آپ کے کوچوان کو کوئی سپاہی دے گیا ہے۔‘‘
ڈیمونان کے لئے اس طرح کا اتفاق پہلی مرتبہ ہورہا تھا کہ شہنشاہ نے اسے قسطنطنیہ میں ہی مخصوص چرمی لفافہ بھیجا تھا۔ اسے بے حد حیرت ہورہی تھی۔کیونکہ اس طرح کے لفافے تو قسطنطنیہ کے دربار سے آج سے سات سال پہلے اس کے پاس ’’اورنہ‘‘ آیا کرتے تھے۔ اس نے عجلت سے لفافہ کھولا اور اس میں تہہ کئے رکھا ہو اچرمی کاغذ نکال کر تیزی سے پڑھنے لگا۔ یہ واقعی شہنشاہی پیغام تھا۔ مہر اگرچہ قدرے پرانی تھی لیکن خط کے اختتام پر اصل مہر بھی لگائی گئی تھی۔ کاغذ حیوانی جھلی سے بنا تھا اور اس پر سیاہ روشنائی سے چند سطریں تحریر کی گئی تھیں۔ ڈیمونان تیزی کے ساتھ پڑھنے لگا لکھا تھا۔
’’مقدس باپ ڈیمونان!
یہ شہنشاہی پیغام ہے کہ آپ ابھی اور اسی وقت شہنشاہ قسطنطنیہ قیصر قسطنطین کی خدمت میں حاضر ہوں۔ انتہائی اہم اور خفیہ مسئلے پر آپ کو طلب کیا جا رہا ہے ۔ فقط ۔۔۔شہنشاہ قسطنطین۔‘‘
ڈیمونان کا دماغ حیرت کی شدت سے سننا رہا تھا۔۔۔آج تک ایسا نہ ہوا تھا۔ اول تو شہنشاہ کا قاصد ڈیمونان سے ملے بغیر واپس نہ لوٹتاتھا۔ اور پھر اس طرح شہنشاہ نے اسے پہلے کبھی بلایا بھی تو نہ تھا۔ لیکن فرمی لفافہ اور شہنشاہ کی مہر بتا رہی تھی کہ مکتوب سچا ہے۔ ڈیمونان نے ایک لمحے کی دیر مناسب نہ سمجھی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے کھانے کے لیے رومیل اور بریٹا سے معذرت کی اور شہنشاہی پیغام کا عذر پیش کرکے ان دونوں سے اجازت لی اور اپنی راہباؤں کو ساتھ لئے شہنشاہ کے محل کی جانب چل کھڑا ہوا۔
شام کب کی ڈھل چکی تھی۔ رات کب کی شروع ہو چکی تھی جب ڈیمونان اپنی راہباؤں سمیت رومیل کے گھر سے نکلا تو گلی میں مکمل اندھیرا تھا۔ کوچوان کلیساکی سفید بگھی کو دروازے کے سامنے لئے کھڑا تھا۔ ڈیمونان نے کوچوان کی مستعدی کی دل ہی دل میں داد دی اور کوچوان سے کچھ کہے بغیر بگھی کا عقبی پردہ اٹھا کر بگھی میں سوار ہو گیا۔ راہبائیں بھی اس کے ساتھ ہی سوار ہوئیں۔ ڈیمونان نے بیٹھتے ہی کوچوان کو باآواز بلند ہدایت کی۔
’’قصر شہنشاہی کی جانب چلو!‘‘
بگھی قسطنطنیہ کی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ ڈیمونان آج ضرورت سے زیادہ بے چین تھا۔ اس کی چھٹی حس آج شروع ہی سے اسے خبردار کر رہی تھی کہ کچھ ہونیوالا ہے۔ اور اب مارسی کی انگوٹھی اور شہنشاہ کے خط کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ بے چین ہوگیا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ اسکی چھٹی حس کس قسم کے خدشات کی نشاندہی کر رہی تھی۔
اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی با پردہ بگھی کسی سنسان سڑک پر دوڑ رہی ہے۔ یکلخت اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے یہ کیا؟۔۔۔کوچوان اسے کہاں لے آیا تھا۔ یہ سڑک شاہی محل کی طرف تو نہ جاتی تھی۔ یہ سڑک تو شہر کی ایشیائی سمت کی جانب جاتی تھی ۔ اس طرف سے قسطنطنیہ کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اسے شہر کی عقبی سمت بھی کہا جا سکتا تھا۔ کیونکہ اس طرف کی فصیل میں کوئی دروازہ نہ تھا فیصل بھی کمزور اور چھوٹے قد کی تھی۔ عقبی فیصل بعض جگہ سے تو سمندرکے اس قدر نزدیک تھی کہ سمندر کا پانی دیوار کو چھونے لگتا تھا۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)