جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر31

Mar 02, 2018 | 04:33 PM

شاہد نذیر چودھری

بھیا آپ نے شیطان کا نام تو سنا ،اسکے کام بھی دیکھتے ہیں لیکن میں تو اسکا متر تھا ،بالکا تھا ،میری رگوں میں دوڑتے خون میں شیطان کی پلیدی تھی،نس نس منتر کی بنت کاری تھی ،میرا جوڑ جوڑ کالے شبدوں سے جوڑا گیا تھا ۔ایسے میں کون دل کو سوچتا ہے ،کسے دماغ کی خبر ہوتی ہے،وہ تو اپنی ناف تلے حیوانیت کی قلقاریاں مارتا ہے۔۔۔ میں تو بلوغت سے ابھی کوسوں دور تھا لیکن لذت کی سرکشی جس کا احساس مجھے سترہ سا ل کی عمر میں ہوا تھا اورکوئی بھی جوان بالغ ہونے کے بعد اپنی سرکش حیوانی جبلت کا اسیر ہوتا ہے،یہ مجھے اس وقت بھی محسوس ہوتی تھی جب میں بچہ تھا،میرے اندر شانتی،سرور اور ہیجان اس وقت بھی برپا ہوتا تھا جب ہر کوئی مجھ ایسے بچے کو معصوم کہہ کر پیار کرتاتھا ۔گنگو مجھ سے بڑا تھا لیکن وہ تو نفس کا غلام تھا ،بہت بڑا ہتیارا تھا ۔
ہم پر ٹیچر زرینہ نے دروازہ کھول دیا تھا ۔میں اب روزانہ چھٹی ہوتے ہی بیگ اٹھاتااور ٹیچر زرینہ میری انگلی تھام کر اسکے گھر چلا جاتا۔یوں جیسے کوئی بچے کو ساتھ لئے چلتا ہے۔سکول میں جب کوئی ٹیچر ملتی ،دیکھ کر کہتی’’ زرینہ یہ تمہارا کیا لگتا ہے ۔۔۔؟‘‘

جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ رکتی،لحظہ بھر میری جانب دیکھتی اور بال جھٹک کر کہتی ’’ میرا سٹوڈنٹ ہے ‘‘
’’ اچھا اچھا ‘‘ وہ کہتی ’’ ہم نے جانا شاید تمہارا بھانجھا بھتیجا لگے ہے ‘‘ 
جب وہ چلی جاتی تو ٹیچر زرینہ دھیرے سے میرا ہاتھ دباتیں اورمعنی خیزانداز میں پوچھتیں ’’ بابر تم میرے کیا لگتے ہو ؟‘‘
’’ آپ میری ٹیچر ہیں ‘‘ میں اس سمے ایک بچہ ہی ہوتا تھا ۔
’’ اچھا ‘‘ وہ میری طرف غور سے دیکھتیں،ان کی نظروں میں چمک ابھرتی، یاقوتی ہونٹوں پر دھیرے سے مسکراہٹ بکھرتی ’’ کوئی اپنی ٹیچر سے یوں بھی ملا کرتا ہے ‘‘ 
’’ اور کیا لگتا ہوں؟ ‘‘ میں پوچھتا 
’’ بہت کچھ ،میرا سب کچھ تم ہو بابر حسین ‘‘ ٹیچر زرینہ مجھ سے والہانہ محبت کرنے لگ پڑی تھیں۔جب میں انکے گھر جاتا تو سب سے پہلے میرے لئے لنچ تیار کرتیں ،پھر بڑے اہتمام سے کھانا کھلاتیں،واش روم میں اپنے ساتھ لیکر جاتیں اور اپنے ہاتھوں سے ہاتھ منہ دھلاتیں ۔ان کی امی خیال کرتیں کہ زرینہ کا دل لگ گیا ہے ۔کتنی ممتا بھری محبت سے بابر حسین کا خیال رکھ رہی ہے انکی بیٹی۔بیٹی کو یوں خوش ہوتے دیکھ کر ان کے جیون میں نئی بہار آگئی ۔۔۔۔۔لیکن یہ بات میں جانتا تھا یا ٹیچر زرینہ یا پھر وہ حرامی گنگو کہ ہم میں کیسا رشتہ پروان چڑھ چکا ہے ۔۔۔
ایک دو ہفتہ یونہی بیت گیا ۔
پھر اچانک یوں ہوا کہ پتا گرو نے میرے باپ سے کہہ کر نو دنوں کے لئے ایک عمل کرانے کے لئے شمشان گھاٹ میں بلالیا جہاں میں نے سیاہ راتوں میں ایک عمل کرنا سیکھا۔یہ عمل معمولی نہیں تھا۔ا سمیں حاضرات کا چلہ تھا جو ان ظالموں نے ایک چھوٹے سے بچے پر آزمایا ۔اس دوران مجھے ٹیچر زرینہ کا رتی بھر خیال نہیں آیا ۔حاضرات کے عمل میں مجھے بے پناہ شکتی ملی ،گیان ملا ،میری سوچیں بدلیں لیکن جسم تو وہیں کا وہیں رہا تھا ۔تن میں کچھ نہیں بدلا ۔
جس روز میرا حاضرات کا عمل پورا ہوا مجھے واپس بھیج دیا گیا ۔گھر آتے ہی سب سے زیادہ مجھے جس کی طلب محسوس ہوئی وہ ٹیچر زرینہ تھیں۔میں اسی رات ان سے ملنے کے تڑپ گیا لیکن اماں بھی اداس تھی اس لئے وہ رات میں نے بے چینی میں گزاری اور اگلے روز جب میں سکول گیا تو معلوم ہوا ٹیچر زرینہ نہیں آئی ۔وہ دو روز سے چھٹیوں پر تھی۔
گنگو تو مجھ سے زیادہ بے تاب تھا ،چھٹی ہوتے سار ہی وہ کلبلانے لگا’’ چلو ببر کتنے روز ہوگئے ہیں تیری ٹیچر زرینہ سے میل ملاپ کئے‘‘
میں خود بے قرار تھا ۔کچھ دیر بعد ہی میں ٹیچر زرینہ کے گھر کے سامنے کھڑا تھا ۔ دروازہ کھٹکھٹایاتو ٹیچر زرینہ کی امی نے دروازہ کھولا ۔ جونہی مجھ پر نظر پڑی ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اورزبان دبا کر چیخیں ’’ تو پھر آگیا ‘‘


میں نے حیران ہوگیا کہ انہیں ہوا کیا ہے ۔مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر رونق آجایا کرتی تھیں ،یہ چیخ کیوں رہی ہیں،کس بات پر ناراض ہیں ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ۔انہوں نے جھٹ سے دروازہ بند کرنا چاہاتو گنگو تیزی سے بولا ’’ مائی کو کیا ہوگیا ببر،دیکھتا ہوں دروازہ کیسے بند کرتی ہے ‘‘ اس نے ٹیچر زرینہ کی امی کے دماغ کو پکڑا اور بند ہوتا ہوا دروازہ پھر کھل گیا ’’ تو چلا جا ۔۔۔ اب کبھی نہ آنا‘‘ اب کے ان لہجہ قدرے نرم تھا ۔
میں نے دروازے کو پکڑ لیا ’’ میں ٹیچر زرینہ سے ملے بغیر نہیں جاوں گا‘‘
’’ دفع ہوجا ۔تو کوئی بچہ وچہ نہیں ،پورا حرامی ہے،میری بچی کی جان کھارہا ہے تو ،کیوں میری بچی کے پیچھے پڑگیا ہے بے شرم ‘‘
یہ سن کر گنگو بولا’’ ببر کوئی گڑ بڑ ہے ‘‘

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’دیکھ ناں کیا گڑ بڑ ہے ‘‘میں نے کہا اور پھر ٹیچر زرینہ کی امی سے کہا ’’ میں نے ایسا کیا کام کردیا ہے ‘‘
’’ مجھ سے پوچھتا ہے کیا کام کردیا ہے۔اپنے کرتوت دیکھ،جب تجھے کل ہی بولا تھا اب نہ آیا کرنا تو پھر کیوں چلا آیا ‘‘ انہوں نے آنکھیں پھاڑ کر ڈانٹا۔
’’ میں کب آیا تھا کل۔۔۔‘‘ اچانک میرے منہ سے نکلا ’’ میں تو ایک ہفتہ سے ٹیچر سے ملا ہی نہیں ‘‘
’’ اچھا تو پاپی ، تو جھوٹ بھی بولتا ہے ،وہ کیا تیرا بھوت تھا جو روزانہ آتا تھا ‘‘ انہوں نے دروازہ چھوڑا اور قہر بھری نظروں سے ایسی بات کہہ دی جسے سن کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی ۔(جاری ہے ) 

جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں