44ویں قسط،بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ

May 02, 2017 | 01:15 PM

کابل کا دریائے غوروند
آگے پھر البیرونی لکھتا ہے: ’’ملک کا بیش یعنی کابل کے قریب پہاڑوں سے ایک دریا نکلتا ہے جو اپنی شاخوں سمیت غوروند کہا جاتا ہے۔ اس دریا میں حسب ذیل ندیاں شامل ہیں۔
۱۔ غوزک گھاٹی کی ندی۔ ۲ ۔ شہر بروان کے نیچے درہ پنجہیر کی ندی۔ ۳۔ شروت ندی۔ ۴۔ ساؤندی جو شہر لبنگا یعنی لمغان سے گزرتی ہے۔ قلعہ دروتہ کے پاس یہ سب ندیاں مل جاتی ہیں۔ اور نور اور قیرات ندیاں اس میں گرتی ہیں۔ یہ سب مل کرشہر برشاور(پیشاور) کے سامنے ایک بڑا دریا بن جاتا ہے جو اپنے گھاٹ مہنارہ کے نام سے مشہور ہے جو اس کے پورب (یعنی مشرق) کنارے پر ایک گاؤں ہے اور قلعہ بیتور(تورڈیر) کے پاس شہر قندھار یعنی ویہند(ہنڈ) کے نیچے دریائے سندھ میں گرتا ہے۔‘‘(کتاب الہند )(اب یہ نام تبدیل ہوگیا ہے اور دریائے مہنارہ کے بجائے دریائے کابل یا لندے بولا جاتا ہے)

تینتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۶۔ کتاب یانرت پانینی ،کتاب شکہت برت ،یہ دونوں کتابیں علم نحو و صرف پرتھیں، قارئین پر واضح ہو کہ یہ دونوں ہی کتابیں مذکورہ مصنفوں نے اسی مذکورہ بالا قلعہ ’’لہور‘‘ میں تصنیف کی تھیں۔ اس وقت بھی پانینی ، پنی یا پنڑی کے نام پر اسی لاہورمیں جانب مغرب ایک مقام ہے جسے عام لوگ جانتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ مقام پنڑی پانینی کا آرام گاہ تھا۔ جو دیہند (ہنڈ) سے چار میل دو فرلانگ کے فاصلہ پرواقع ہے۔
(۷) کتاب شکہت برت کے متعلق البیرونی لکھتا ہے
’’یہ کتاب اوگربوت نے تصنیف کی ۔ہم سے بیان کیا گیا کہ شخص (اوگربوت) راجہ جے پال کے بیٹے انند پال کا جوہمارے زمانہ کا راجہ ہے، اتالیق اور معلم تھا۔ اس نے یہ کتاب تصنیف کرکے کشمیربھیجی۔ لیکن کشمیر والوں نے اس فن میں اپنے بڑھے ہوئے ہونے کے خیال اور غرور سے اس کی طرف توجہ نہیں کی اوگربوت نے راجہ سے اسکی شکایت کی اور اس نے شاگردی کاحق ادا کرنے کے لیے استادکی خواہش پوری کرنے کا ذمہ لیا اور دولاکھ درہم اور اسی قیمت کے تحفے کشمیر بھیجے تاکہ جولوگ اس کے استادکی کتاب میں مشغول ہوں ان میں تقسیم کیاجائے۔ نتیجہ یہ ہواکہ سب اس کتاب پر گرے اورکل دوسری کتابیں چھوڑ کر اسی کی نقل وکتابت کرنے لگے۔ وہ لالچ سے ذلیل ہوئے اور کتاب کی شہر و قدر ہوگئی۔ (کتاب الہند )
شہروں کے پرانے نام بدل گئے ہیں اورہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔۔۔شہروں کے ناموں کی حالت یہ ہے کہ اکثر نام ایسے ہیں جن سے اس وقت یہ شہر نہیں جانے جاتے اوپل کشمیری نے کتاب سنگھٹ کی شرح میں اس مضمون کے متعلق کہا ہے کہ شہروں کے نام بدل جایا کرتے ہیں خصوصاً جگہوں(عرصہ دراز ) میں چنانچہ ملتان کانام شب پورتھا۔ پھرہنسپور ہوا۔ پھر بگ پور پھر سانب پور، پھر مولستان، (مولستھان) یعنی اصلی جگہ۔ اس لیے کہ مول کے معنی اصل اور تان (تھان) کے معنی جگہ کے ہیں۔
نام بدلنے کے اسباب: جگ توایک طویل مدت ہے۔ لیکن اجنبی اور دوسری زبان بولنے والی قوم کے غالب آجانے کے وقت بھی توناموں کی تبدیلی بہت جلد ہوجاتی ہے۔ غیر قوم کی زبان سے ان کاادا ہونا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ ان کو اپنی زبانوں میں(یعنی تلفظ ولہجہ کے مطابق) بدل لیتے ہیں۔ (کتاب الہند )(جاری ہے)

45 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔

مزیدخبریں