امریکا میں الیکشن کی گہماگہمی ہے اور گلی محلے طرح طرح کے بینرز سے سجے ہیں۔ پاکستان کی طرح وہاں بھی سیاست دان عوام کو خوب سہانے سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف انتخابی شور ہے تو دوسری جانب ملک میں تاریخ کا گرم ترین موسم گرما ختم ہو رہا ہے۔ کیلی فورنیا کے جنگلات آگ میں جلنے سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبورہیں۔ محض چند دنوں میں دو سمندری طوفانوں نے فلوریڈا میں تباہی مچا رکھی ہے جس سے سیکڑوں مکانات اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ ہوا۔ ملک کا کوئی بھی حصہ خطرناک اثرات سے محفوظ نہیں۔ امریکا کو کلائمٹ چینج سے سالانہ 150 ارب ڈالر نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اس وقت بظاہر تو امریکی صدارتی امیدوار ماحولیاتی تبدیلی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے، لیکن انہیں یہ ادراک ضرور ہے کہ خاموش ووٹرز ان کےمستقبل کی کایہ پلٹ سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس نے انتخابی مباحثوں کے دوران جب بھی ماحولیاتی تبدیلی پر لب کشائی کی، اُس سے تنازعات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اُن سے بار بار پوچھا گیا کہ برسراقتدار آکر عوام کو ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائیں گے، لیکن دونوں نے کسی نے کبھی بھی واضح جواب نہیں دیا۔
ہیرس امریکی شہریوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تسلیم بھی کرتی ہیں اور اس کو "حقیقت" بھی قرار دیتی ہیں، لیکن ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی سوچ و فکر کا اظہار نہیں کرتیں۔ وہ ماضی میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کلین انرجی میں سرمایہ کاری کے اقدامات کا ذکر کرتے نہیں تھکتیں، لیکن واضح اور جامع پلان پر دو ٹوک جواب دینے کے بجائے دامن بچا کر نکل جاتی ہیں۔ ہیرس انتخابی مہم کے دوران کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کےلئے کوئی تفصیلی منصوبہ تو پیش نہیں کر سکیں، لیکن ان کی انتخابی مہم چلانے والی ویب سائٹ کے مطابق بطور صدر وہ امریکیوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف متحد ہونے، کلائمٹ جسٹس، ماحولیاتی تباہی سے بچاؤ اور ماحول دشمن عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے جیسے اقدامات کریں گی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ کلائمٹ جسٹس کو آگے بڑھائیں گی، کرہ ارض کی حفاظت کریں گی، قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی انتظامیہ صلاحیت پیدا کریں گی، آلودگی پھیلانے والے اسٹیک ہولڈرز کو جوابدہ بنائیں گی اور "لاکھوں نئی ملازمتیں" پیدا کریں گی۔
اُدھر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایسے سوالات سے خوش نہیں ہوتے۔ انتخابی مباحثوں یا میڈیا ٹاک کے دوران جب بھی اُن سے کلائمٹ چینج کا سوال ہوا، وہ اپنا کوئی پلان دینے کے بجائے صاف صاف جواب دینے کے بجائے اُلٹا بائیڈن ہیرس انتظامیہ پر برسنے لگے۔ ٹرمپ تو ایک قدم آگے بڑھ کر کلائمٹ چینج کو "دھوکا" قرار دیتے ہیں۔ 2014 میں ایک ٹویٹ میں انہوں نے گلوبل وارمنگ کو بار بار دھوکا قرار دیا جبکہ 2015 میں گلوبل وارمنگ کو "پیسہ کمانے والی صنعت" تک کہہ ڈالا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بادی النظر میں فوسل فیول کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ انتخابی بحث کے دوران دعویٰ کیا کہ انہوں نے "تیل کا بزنس ایسا چلایا جیسا پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا" اور ہیریس کی جیت کا مطلب تو فوسل فیول کا خاتمہ ہوگا"۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ڈیموکریٹک پارٹی جیت جاتی ہے تو فوسل فیول پر پابندی لگا دے گی اور ملک کی تباہی شروع ہو جائے گی۔
کلائمٹ چینج پر اُن کا موقف عمل ناقابل فہم ہے۔ ایک طرف خود کو شمسی توانائی کا حامی قرار دیتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے سولر فارمز زیادہ ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف الیکٹرک گاڑیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، لیکن دوسری جانب ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک ٹرمپ کی کابینہ میں شمولیت کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کا تو جواب تو نہیں دیا بلکہ اس کے بجائے"ایٹمی وارمنگ" کو بڑا خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ برسر اقتدار آکر پیرس معاہدے سے نکل جائیں گے۔ اپنی گزشتہ مدت صدارت کے دوران اس معاہدے سے امریکا کو نکال لیا تھا لیکن سال2021 میں امریکہ دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی کلائمٹ پالیسیوں کو "ڈرل، بے بی، ڈرل" قرار دے کر مذاق اڑایا، ماہرین کےمطابق "ڈرل، بے بی، ڈرل" کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آکر رقبے کے لحاظ سے امریکا کی سب سے بڑی ریاست الاسکا میں قدیم ٹنڈرا کے لاکھوں ایکڑ رقبے پر تیل کی تلاش کے لئے کھدائی کی اجازت دے دیں گے، ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ ختم کریں گے اور اپنی پہلی مدت صدارت کی طرح امریکا کو پیرس ایگریمنٹ سے نکال لیں گے۔
معروف امریکی ٹی وی اے بی سی نیوز کے مطابق کلائمٹ چینج دونوں صدارتی امیدواروں کے لئے اہم نہ بھی ہو، لیکن یہ اشو نوجوان ووٹرز کے دل کے بہت قریب ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر کلائمٹ ایکٹوسٹس کی مہمات اور احتجاج نے بھی عوام میں کافی شعور پیدا کر دیا ہے۔
گارڈین لکھتا ہے کہ اُن خاموش نوجوان ووٹرز کا حق رائے دہی نتائج میں فیصلہ کن ثابت ہو گا جو ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہیں۔ حالیہ سمندری طوفان ہیلین اور ملٹن کی تباہی کافی حد تک نوجوانوں کی ترجیحات کا تعین کرے گی۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی بحران ممکنہ طور پر امریکی صدارتی انتخابی نتائج کو متاثر کر سکتا ہے ، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، کسی بھی دوسرے مسئلے سے زیادہ، تیزی سے گلوبل وارمنگ کے حوالے سے گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
سائنس دان اور خود امریکی میڈیا متفق ہے کہ صدارتی انتخابات کا نتیجہ اس بات کا تعین کرے گا آیا دنیا کی سب سے بڑی معشیت امریکا کرہ ارض کو گرم کرنے والی زہریلی گیسوں میں اپنا کردار اور آلودگی کس قدر کم کرے گا، اسی طرح یہ بھی تعین ہو گا کہ گلوبل وارمنگ کو نسبتاً کس حد تک محفوظ حدود میں رکھا جا سکے گا۔ 2024 کے صدارتی نتائج دیکھ کر ہی دیگر ممالک بھی فیصلہ کریں گے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے فیصلوں اور اقدامات میں انہوں نے کس حد تک آگے جانا ہے۔ موسمیاتی سائنس دان متفق ہیں کہ دنیا بھر میں پے در پے آفات سے بچنے کے لئے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج تیزی سے کم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
امریکا جیسی سپر پاور ہو یا پاکستان جیسے دیگر ترقی پذیر ملک، ماحولیاتی تبدیلی سب سیاسی جماعتوں کے منشور میں خوشنما الفاظ کے ساتھ تحریر ہے، لیکن عملی اقدامات کا مرحلہ آتے ہی ان گنت بہانوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ امیر ممالک عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں (COPs) میں بڑے وعدے اور دعوے کرتے ہیں جن پر مجبور غریب ملک یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن یہ سفاک فیصلہ ساز قوتیں سندھ کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے گاؤں پوٹھو ماچھی کی سمیرا ماچھی یا فلوریڈا کے شہر بونیل کے کلنٹن کا دکھ نہیں سمجھ سکتے۔ ایک کا گھر سیلاب نے تباہ کر دیا تو دوسرے کا سمندری طوفان نے، سیاست دان اپنے اقتدار اور روشن مسقبل کٖے لئے ووٹ تو مانگ رہے ہیں، لیکن سمیرا اور کلنٹن کے ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ کے پیچھے وہ کرب نہیں دیکھ پاتے جو قطب شمالی سے قطب جنوبی تک ہر گزرتے دن کےساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ کوئی سیاست دان ان بچوں کا درد اور خوف محسوس نہیں کرتا جن کے سر پر چھت نہیں۔
وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور فوری ایکشن ناگزیر ہے، وہ گھڑی آن پہنچی ہے کہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔