عالمی یوم معذوراں اور ہمارا طرز عمل 

Dec 03, 2024 | 11:51 AM

محمد اقبال اعوان

اسلام وہ دین ہے  جو رنگ و نسل، ملت و تہذیب کی تفریق کیے بغیر انسانیت کی تکریم کا درس دیتا ہے۔  اسلام ہی وہ دین ہے جس میں معذوروں پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا دن 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تجدید عہد ہے کہ خصوصی افراد کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونے والی قرارداد 3/47 کے تحت اس دن کو منایا جاتا ہےـ خصوصی افراد معاشرے کے باقی  افراد سے بعض جسمانی حالات کے پیش نظر ، زندگی کے افعال ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔جسمانی معذوری کی تین اقسام ہیں۔ پہلے نمبر پر disability   ہے جس میں جسم کے کسی حصے کا غیر فعال ہونا ہے۔ دوسرے نمبر پر  handicap (معذوری ) ہے جس میں جسم  کے کسی حصے میں کمزوری یا معذوری کے سبب بعض افعال سر انجام دینے سے قاصر ہونا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر impairment ہے جس میں جسم کے کسی حصے میں بگاڑ کا پیدا ہو جانا ہے۔

اس لیے وہ تمام افراد خصوصی افراد کہلاتے ہیں جن میں حواس خمسہ میں سے کوئی حس متاثر ہو، چاہے سوچ سمجھ کی صلاحیت کم ہو اور دوسرے افراد کے ساتھ معاشرتی تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت کسی حد تک مفقود ہو۔ معاشرے کا مفید رکن بنانے کے لیے اردگرد کے نارمل لوگ ہی بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو خصوصی افراد کسی معمولی مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں، وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی طنزیہ باتوں کے باعث مزید مسائل کی گہرائی میں پھنس کر خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں اور معاشرہ مفید ارکان سے محروم ہو جاتا ہے۔

ادارہ شماریات کی پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ نوے ہزار ہے۔  ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر دس افراد میں سے ایک فرد خصوصی ہوتا ہے ۔شہری آبادی جو 39 فیصد ہے، کو خصوصی اداروں جیسی سہولت میسر ہے لیکن دیہی آبادی جو کہ 61 فیصد ہے، ان میں رہنے والے خصوصی افراد کے لیے ادارے موجود نہیں ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر خصوصی افراد تعلیم کی روشنی سے بے بہرہ ہیں۔ دیہاتوں میں خصوصی افراد و بچوں کے لیے خصوصی ادارے بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ پنجاب کے اندر 171 سپیشل ایجوکیشن سنٹرز کام کر رہے ہیں لیکن یہ سنٹرز  دور دراز دیہاتی علاقوں میں رہنے والے خصوصی بچوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ سب سنٹرز یونین کونسل کی سطح پر بنائے جائیں۔

 ان سنٹرز میں بچوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا جائے بلکہ ان سنٹرز پر بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بھی بندوبست کیا جائے تاکہ وہ بھی معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔خصوصی افراد کی تعداد کو معلوم کرنے کے لیے مناسب سروے کے ساتھ اس سے منسلک مسائل کی واضح نشاندہی ہونی چاہئے تاکہ اس کے مطابق اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت اور صحت بہت ضروری ہے ۔ صرف اسی صورت میں وہ معاشرے کے بہتر ممبر بن سکتے ہیں۔ اور ایسے رویے اپنانے کی ضرورت ہے جس میں خصوصی افراد دوسروں سے تعلقات بنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

 معاشرے کے نارمل افراد اور خصوصاً پڑوسی خصوصی افراد کی تربیت، ان کا کردار و احترام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ عالمی یوم معذوراں کو منانے کے لیے تقریبات کی جاتی ہیں، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں ، ریلیاں نکالی جاتی ہیں لیکن قابل افسوس امر ہے کہ جن کے لیے تقریبات نکالی جاتی ہیں لیکن ان کی بہتری کے لیے لفظی کہانیوں کے علاوہ کچھ اور خاص نہیں کیا جاتا۔ معذور لوگوں کو خصوصی افراد تو کہا جاتا ہے لیکن ان کے ساتھ خصوصی سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔

 لوگوں کو کچھ خاص کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے اردگرد کے خصوصی افراد کی تربیت میں ہاتھ بٹا سکیں، نہ کہ رکاوٹیں پیدا کریں۔ خصوصی افراد کے لیے قانون بھی موجود ہے لیکن نفاذ ناپید ہے۔ اگر وسائل کی کمی درپیش ہے تو ہر سرکاری سکول میں، خصوصی افراد کے لیے علیحدہ سیٹ اپ بنایا جا سکتا ہے جن کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پر ہو۔وقت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو تکنیکی، سائنسی، ادبی و اخلاقی تربیت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ تعلیم پر لگایا گیا آج کا پیسہ کل کے وسیع زرمبادلہ کا پیش خیمہ ہے ۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزیدخبریں