ان دنوں شہر کے بااثر حلقوں میں ایک گہرا تاثر پایا جاتا ہے کہ دسمبر تک موجودہ حکومت کی جگہ ایک قومی حکومت قائم کردی جائے گی جس کے سربراہ بلاول بھٹو یا شاہد خاقان عباسی ہو سکتے ہیں، اسی طرح پی ٹی آئی کے حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں جیت کی توقع لگائے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے برے دن ختم ہونے والے ہیں اور اب بہت جلد انہیں ان کی قربانیوں کا صلہ ملنے والا ہے، اسی لئے ایک مرتبہ پھر سے عمران خان کے ساتھ کسی نئی ڈیل کی باتیں ہونے لگی ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ دسمبر تک وہ بھی جیل سے باہر آجائیں گے۔
یہ وہ خواب و خیال کی دنیا جس میں نون لیگ کے مخالف حلقے اس وقت سانس لے رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس دن سے حکومت بنی ہے، ایسی افواہوں کا کاروبار عروج پر ہے، ہر مہینے عمران خان کی رہائی کی تاریخ بدل جاتی ہے، جیل کے دروازے نہیں کھلتے، البتہ اس دوران ان کے اردگردقریبی لوگ ایک ایک کرکے پکڑے جاتے ہیں، پھر رہا ہوجاتے ہیں اور رہا ہونے کے بعد یا تو وہ پریس کانفرنس کرکے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا پھر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ تاہم عمران خان کی ابھی تک کوئی پریس کانفرنس ہوئی ہے نہ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کی ہے۔ شروع میں تو خیال تھا کہ جنرل فیض حمید کا نیٹ ورک کوئی انہونی کر دکھائے گا اور عمران خان کو ہیرو کی طرح جیل سے رہا کرواکر اقتدار کے سنگھاسن پر دوبارہ بٹھوانے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن جان کے لالے تب پڑے جب خود جنرل فیض حمید کی گرفتاری عمل میں آگئی اور پی ٹی آئی کا وکلاء گرڈ عدالتوں کی طرف لپکا کہ عمران خان کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں نہ چلایا جائے۔ وہاں پی ٹی آئی کے نوازے ہوئے ججوں نے وکلاء سے زیادہ پھرتی دکھائی اور آرڈر پر آرڈر پاس کرنے لگے، حکومت سے یقین دہانیاں مانگنے لگے۔ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد عدلیہ سے ایسی امیدیں لگائی گئیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کی کمند وہاں آکر ٹوٹ گئی جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گئے تھے، یہی نہیں بلکہ جسٹس منیب فاروق کے حوالے سے بھی ماحول گرم ہوگیا اور ان کو چپ سادھنا پڑی۔ ہمیں نہیں معلوم یہ کس جج کے بارے میں کہا گیا لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ جس کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے حق میں اگلے چیف جسٹس کے طور پر فیصلہ دیا وہاں پر کچھ ایسی آڈیو کالز بھی سنائی گئیں جس میں کسی جج کو اپنی اہلیہ سے کہتے ہوئے سنا جاسکتا تھا کہ ہم نے آپ کے مرشد کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، اس پر کمیٹی کے ممبران نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور کہا کہ ان کی تو تعیناتی بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ تاہم چونکہ ہم اس واقعے کے عینی شاہد نہیں ہیں، اس لئے اس کی ساری ذمہ داری اسلام آباد کے ان کورٹ رپورٹروں پر ڈالنی پڑے گی جن کے وی لاگز میں ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
اب جبکہ جنرل فیض حمید اور عدلیہ سے جڑی امیدیں موہوم ہو گئی ہیں اور اسلام آباد کے چھ ججوں کی جانب سے آئی ایس آئی کو دیوار سے لگانے کی سازش بھی طشت ازبام ہو چکی ہے اس لئے پی ٹی آئی نے اپنی امیدوں کے چراغ کا رخ اب امریکی انتخابات کی جانب موڑ لیا ہے اور بہانے بہانے سے عوام کو باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آئندہ ٹرمپ ہی جیتیں گے۔اب یہ افواہ سازی کا عمل اس قدر گہرا کردیا گیا ہے کہ کل کو اگر ٹرمپ ہار جاتے ہیں توپی ٹی آئی کے پراپیگنڈے سے متاثرخواتین و حضرات کہتے پائے جائیں گے کہ عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لئے عالمی اسٹیبلمشنٹ نے ٹرمپ کو ہروادیا۔
یہ ہے وہ عمومی فضا جس میں نون لیگ کے مخالف حلقے سانس لے رہے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ نون لیگ کا سب سے بڑا ایجنڈا نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنانا ہے۔ یہ ایک unfinishedایجنڈا ہے جس پر نون لیگ خاموشی سے عمل پیرا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرح اگر انہیں بھی انتظار ہے تو امریکی انتخابات کا ہے تاکہ سمجھ آسکے کہ اگلی امریکی انتظامیہ کون سی آرہی ہے جس سے بات چیت کی جا سکے۔ خیر سے اس وقت نواز شریف امریکہ جابھی رہے ہیں اور اس دورے کے دوران ان کی کچھ اہم ملاقاتیں بھی ہونی ہیں۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑے اور ٹرمپ جیتیں یا کاملا ہیرس، قرعہ فال نواز شریف کے نام کا نکل آئے۔
اس سے یاد آیا کہ 90کی دہائی میں جب ہماری اسٹیبلشمنٹ نے مرحوم غلام مصطفےٰ جتوئی کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا اور انہیں پنجاب کے وزٹ پر بھیجا جہاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف بھی ہمراہ تھے۔ اوکاڑہ پہنچے تو پنڈال سے وزیر اعظم نواز شریف کے نعرے لگ رہے تھے جس پر جتوئی صاحب دورے کو لپیٹ کر دوبارہ اسلام آباد چلے گئے کیونکہ پنجاب کے عوام کو اپنا لیڈر مل چکا تھا۔وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، نواز شریف پنجاب کے بلاشرکت غیرے لیڈر مانے اور جانے جاتے ہیں اور اسی برتے پر ان کی پارٹی گزشتہ چالیس برس سے اقتدار میں ہے۔ اب جبکہ پنجاب سے پی ٹی آئی کا پتہ کٹ چکا ہے اور پیپلز پارٹی کو اپنی جگہ بنانے میں پرانی تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے، ممکن ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد پنجاب سے دوبار وزیر اعظم نواز شریف کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جائیں اور نون لیگ مخالف کو کسی نئی افواہ، کسی نئے بیانئے کی ضرورت پڑ جائے۔ تھوڑا انتظار لازم ہے!