"پاکستان اور افریقہ سمیت کلائمٹ چینج سے شدید متاثر خطوں کو ماحولیاتی اہداف کے حصول کے قابل بنانے کے لئے فنانسنگ ناگزیر ہے، امیر ممالک ذمہ داری نبھاتے ہوئے مساوات کی بنیاد پر فیصلے کریں، یہ زیادتی و ناانصافی ختم کی جائے کہ صرف غریب ملک ہی قیمت چکاتے رہیں، ترقی یافتہ ممالک بھی زہریلی گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کریں۔ لاس اینڈ ڈیمج ایڈاپشن، میٹیگیشن اور عملدرآمد سمیت کلائمٹ چینج سے متعلق دیگر تمام سلگتے معاملات اور مسائل پر متوازن اور پرعزم پیش رفت کی جائے، پاکستان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے جو حق ہے خیرات نہیں "
کاپ 29 میں پاکستان نے اپنا یہ اصولی اور مبنی برق حق موقف پوری قوت سے پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے نہ صرف اپنا بلکہ دیگر متاثرہ ممالک کا مقدمہ بھی بھر پور انداز میں پیش کیا۔
13 نومبر 2024 کو وزیراعظم شہبازشریف نے کوپ 29 سے خطاب میں واضح کیا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ، متعدد دیگر ممالک بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہیں، دنیا نے توجہ نہ دی تو مزید درجنوں ممالک پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ 2022 میں پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین اور فصلیں تباہ ہوئیں، امیر ممالک نے کوپ 27 اور کوپ 28 میں کئے گئے وعدے آج تک پورے نہیں کئے، حتیٰ کہ 10 برس پہلے پیرس ایگریمنٹ کے تحت کئے گئے سہانے وعدوں پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔
کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے۔ جس تباہی کا سامنا ہم نے کیا، کوئی اور ملک تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم اپنے وسائل کے اندر رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کی سرتوڑ کرشش کر رہے ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اقدامات تنہا نہیں کرسکتے، ہمیں عالمی برادری کی حمایت اور مدد کی ضرورت ہے، وقت آگیا ہے کہ کلائمٹ فنانس کو گرانٹ کی صورت میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے، ہم اور دیگر ترقی پذیر ممالک کلائمٹ فنانس کے نام پر قرض کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ کاربن کا اخراج آج بھی بڑھ رہا ہے اور جی 20 ممالک سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، اس لئے ان 20 امیر ترین ممالک کو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں بھی زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ غریب ممالک کی تنزلی کی قیمت پر امیر ہونے والے ممالک نے آج پاکستان جیسے غریب معاشروں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے، ہمیں کلائمٹ جسٹس کی آج سے پہلے اتنی شدید ضرورت نہیں تھی اور ہم شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم کلائمٹ ایکشن پر زیادہ خرچ نہیں کرسکتے، 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، گلوبل کلائمٹ سلوشن کا حصہ بننے کے لئے بھی پوری طرح تیار ہیں، لیکن تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔
کوپ 29 پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے اہم لمحہ تھا کیونکہ اُن ممالک کا گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ دراصل باکو کانفرنس ناکامی کی نہج سے واپس آئی ہے، ابتدائی طور پر تقریباً 200 ممالک کے نمائندے اور مندوبین کسی حتمی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے جس کے بعد طویل مشاورت اور بحث و مباحثے کا دوسرا دور ہوا۔ ابتدائی طور پر 250 ارب ڈالر فنڈز جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی، الائنس آف سمال آئی لینڈ نیشنز اور دیگر ترقی پذیر ممالک نے اس پر شدید احتجاج کیا تو امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، یورپی یونین اور دیگر ترقی یافتہ ملک نے ترقی پذیر دنیا کو کلائمٹ چینج کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لئے سالانہ 300 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
غریب ممالک نے اس رقم کو ماحولیاتی بحران پر موثر طور پر قابو پانے کے لیے نا کافی قرار دیا ہے جبکہ وہ اس مسئلے کے ذمہ دار بھی نہیں۔ پاکستان سمیت غریب ممالک کا اصرار تھا کہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے سالانہ کم از کم ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ مالی وسائل درکار ہیں، تاہم اس ہدف پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جسے ان ممالک نے اپنی توہین قرار دیا ہے۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ 2022 میں سندھ میں سیلاب سے ہونیوالے جانی و مالی نقصانات تقریباً 3 ارب ڈالر ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی۔ کلائمٹ فنانس کی مد میں بھی پاکستان کو اب تک محض موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے، یہ رقم بھی گرانٹ نہیں ہے بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔
کاپ 29 میں ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک نے کلائمٹ فنانس اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں اپنا پورا حصہ ڈالنے سے متعلق کوئی واضح پالیسی نہیں دی، اسی طرح فوسل فیول کے معاملے پر بھی واضح پالیسی نہیں آئی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کاربن مارکیٹ کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ مارکیٹ کاربن کریڈٹ کی تجارت، ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور ماحول دوست منصوبے شروع کرنے میں سہولت دے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے واضح کیا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد کے اندر رکھنے کا ہدف برقرار رکھنے پر اتفاق رائے دنیا کو بدترین حالات تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ناگزیر ہے، تاہم کانفرنس کے مجموعی نتائج زیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ واضح نتائج حاصل نہ ہونے کے باوجود 300 ارب ڈالر کے مالی وسائل کی فراہمی پر اتفاق رائے خوش آئند ہے جس سے کم از کم امید کی کرن ضرور پھوٹی ہے، مستقبل میں ان وسائل میں اضافہ بھی ممکن ہو سکتا ہے، تاہم اصل کامیابی اُس دن ہو گی جب مالی وسائل کی فراہمی کے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، اس لئے تمام ممالک کے لئے لازم ہے کہ وہ اس نئے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے باہم مل کر کام کریں۔
کاپ 29 میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے اور ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے اہداف کو بھی مزید آگے بڑھایا گیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے غیریقینی صورتحال کی موجودگی میں اس پیش رفت کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے، لیکن ماہرین اس سے زیادہ خوش نہیں۔ اُن کے مطابق یہ محض ایک وعدہ ہے اور سنگین مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اس معاملے پر منزل پر پہنچنے کے لئے ابھی بہت رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کاپ 29 میں طے پانے والے مالیاتی معاہدے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں ابھی بہت کام باقی ہے۔ جن معاہدوں پر اتفاق رائے ہوا ہے، اب اُن پر مکمل اور بروقت عملدرآمد ضروری ہے۔ اس میں ناکامی پر نہ صرف کوپ 29 میں حاصل ہونے والی کامیابی ضائع ہو جائے گی بلکہ دنیا کے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے کی جانے والی عالمگیر کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
نئی رپورٹس بھی دنیا کو وارننگ دے رہی ہیں کہ 2024 ایک اور گرم ترین سال ثابت ہو گا۔ شدید موسمی حالات کے باعث دنیا کو اربوں ڈالر کے نقصانات ہوں گے اور دنیا کا سیاسی منظر نامہ بھی مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔پاکستان کو اس وقت دہری مشکلات کا سامنا ہے۔ شہباز حکومت ملکی معشیت کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن
ایک سیاسی جماعت کے احتجاج کے باعث حالات استحکام کی طرف نہیں بڑھ رہے اور حکومت کو بیک وقت کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ نائب وزیراعظم جناب اسحاق ڈار کی کوششوں سے 28 فرروری کو پاکستان کو ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے500 ملین ڈالر موصول ہو گئے ہیں۔ یہ رقم موسمیاتی تبدیلی اور آفات سے نمٹنے کے لئے استعمال ہو گی اور ساتھ ہی زرمبادلہ ذخائر میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان نے کلائمٹ چینج کے خطرات سے نمٹنےکیلئے آئی ایم ایف کو ایک ارب ڈالرفنڈز کی باضابطہ درخواست بھی دے رکھی ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار باصلاحیت اور بااثر شخصیت ہیں، ماضی میں ان کی کوششوں اور کامیابیوں کو دیکھ کر قومی امکان ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو فنڈ دینے پر رضامند ہو جائے گا۔
مفاد پرستی کےسیاسی عزائم پر مبنی احتجاج اور دھرنوں میں گھرے پاکستان جیسے ملک کے لئے قومی ترقی اور کلائمٹ چینج جیسے لمحہ موجود کے سنگین مسئلے سے نمٹنا آسان نہیں۔ وزیراعظم بھی واضح کر چکے ہیں کہ احتجاج کے نام پر بدامنی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ قیام امن، معاشی استحکام، روزگار اور کلائمٹ چینج جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی مکالمہ وقت کی ضرورت ہے، اس کے لئے پی ٹی آئی کی قیادت کو ذاتی انا اور ضد چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا۔ ترقی کا واحد راستہ اور امید کی کرن صرف یہی ہے کہ سیاسی انا پرستی اور الزامات کی سیاست چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔