..شیر کی دھاڑ سن کر میں بھی گھبراگیا ..... اور بیل جو بے قابو ہو کر بھاگے اور قیامت آگئی ..... میں گاڑی کی باڑ کو دونوں طرف دونوں ہاتھوں سے تھامے ..... جنگی بیلوں کی راسوں سے نبردآزما ..... اور بیل ..... خراٹے بھرتے دمیں اٹھائے ..... بگٹٹ ..... میں نے گھوم کر دیکھا تو لالن اور ممتاز دونوں پوری رفتار سے گاڑی کے تعاقب میں جان چھوڑ کر بھاگتے ہوئے ..... اور ان کے پیچھے دس پندرہ گز کے فاصلے پر شیر ..... نہایت سبک رفتاری سے ان کی طرف آتا ہوا ۔
یہ مضحکہ خیز ..... اور خوفناک صور ت حال بیس تیس گز تک قائم رہی ..... اسی دوران میں کسی نہ کسی طرح رائفل سنبھال کر اچھلتی کودتی گاڑی سے کود گیا ..... اور سنبھلتے ہی میں نے پلٹ کر شیر کا نشانہ لیا ..... اب وہ مجھ سے بیس تیس گز پر تھا .....
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ممتاز اورلالن اپنی بدحواسی میں ہرن کی طرح بھاگتے میرے پاس سے گزرے اورگاڑی کی طرف نکلے چلے گئے ..... شیر کی پیشانی سامنے تھی ..... اور مجھے دیکھ کر وہ بھی رک گیا ..... اس کا رکنا ہی اس کے حق میں موت کا پیغام ثابت ہوا ..... چار سو پچاس ایکسپریس کی گولی سیدھی اس کے سر میں لگی ..... اور وہ جہاں تھا وہیں کچی دیوار کی طرح گر گیا ..... میں اس کے تشنج او جانکنی کی کیفیت سے واقف ہوں..... لیکن فوراً ہی میں ہٹ کر کوئی دس قدم پر ایک درخت کے تنے کی آڑ میں آگیا .....اور وہاں سے شیر کو نشانے پر لئے رہا ..... تاآنیکہ شیر کی جان نکل گئی اور اعضا ڈھیلے ہوگئے .....
میں نے بریج کھول کر فائر کیا ہوا کارتوس نکال کر دوسرا لگادیا ..... بریج بند کر کے گھوڑے چڑھائے اور نال شیر کی طرف کر کے آمادہ کھڑا رہا ..... اس وقت مجھ کو نہ گاڑی یاد تھی نہ ممتاز اور لالن ..... نہ میں کسی طرف دیکھنے کے لیے تیار تھا ..... لیکن بے خبر میں کبھی نہیں ہوتا .....
جس درخت کے تنے کی آڑ لئے میں کھڑا تھا ..... اس پر ..... چھال پر نیچے رگڑ نے کی آواز آئی اور چھال کے کچھ ٹکڑے مجھ پر گرے ..... میں گھبرا کے پیچھے ہٹا ..... اور ایک چھوٹی بیل کی خشک جڑ سے الجھ کر چاروں شانے چت زمین پر گر گیا ..... رائفل ہاتھ سے نکل کر ساتھ ہی گری ..... خدا کی عنایت کہ اس طرح گرنے کے بعد بھی فائر نہیں ہوئی .....
میں گرا تو ضرور ..... لیکن گرتے ہی میں کس پھرتی کے ساتھ زمین سے اٹھا ہوں اس کا بیان کرنا بھی ممکن نہیں ..... بعد میں اپنی تیز رفتاری بلکہ سریع حرکت پر دل ہی دل میں خوب ہنسا ..... اٹھتے اٹھتے میں رائفل اٹھائی ..... اب میں نے درخت کے اوپر کی طرف دیکھا ..... اللہ اکبر ..... !
سیاہ ریچھ ..... درخت پر ..... نیچے اترنے کو تیار ..... !
غالباً وہ نیچے اتر رہا تھا ..... اس کے پنجوں کی رگڑ سے درخت کی چھال ٹوٹ کر ریزے مجھ پر گرے تھے ..... اس عرصے میں ریچھ نے میرے گرنے کی آواز سنی ہوگی اور ٹھہر کر نیچے کی طرف دیکھا تو میں نہایت پھرتی کے ساتھ اٹھتا نظر آیا ..... اور وہ ٹھہر گیا .....
میں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ گرنے کی وجہ سے ٹانگ کی معمولی چوٹ سے درد کو نظر اندا ز کرتے ہوئے اس درخت سے حتی الامکان دور ہٹ گیا ..... غالباً دس پندرہ گز ..... درخت کا وہ حصہ جہاں ریچھ تھا نظر نہیں آیا ..... مجھے اپنا مقام پھر بدلنا پڑا..... میں یہ نہیں جانتا تھا کہ شیر کی لاش پر سے بھی نظر ہٹاؤں ..... ابھی معاملہ اطمینان بخش طور پر ختم نہیں ہوا .....
ایک شکاری کے ساتھ ان کے ناتجربہ کارانہ عجلت نے بڑا خوفناک خادثہ پیش کر دیاتھا ..... وہ یوں کہ انہوں نے شیر پر گولی چلائی ..... شیر گرا اور یہ بمعہ اپنے تین احباب اور چھ سات مدد گاروں کے جوش مسرت کے عالم میں لپک کر شیر کے پاس پہنچ گئے ..... اس کے قریب کھڑے ہو کر انہوں نے رائفل کی نال سے اس کو ٹہوکا دیا .....
شیر یکبارگی اٹھا ..... اس کے اٹھنے کے دھکے سے شکاری صاحب الگ گرے..... شیر نے دو آدمیوں کو تھپڑ مارے کہ ایک کا چہرہ آدھا رہ گیا ..... دوسرے کے شانے کی ہڈی کا لباس اتر گیا ‘ اور ہڈی نکل آئی ..... تیسرے کو کمر سے پکڑ کر دو جھٹکے دیئے تو اس کا دم نکل گیا..... غرضیکہ کئی آدمیوں کو نیم جان چھوڑ کر جھاڑیوں کی طرف چلا ..... لیکن غائب ہونے سے پہلے ہی اس کی قوت نے جواب دے دیا..... اور دوبارہ گر گیا .....
شیر جیسے غیر معمولی طاقتور ..... متحمل اور خوفناک جانور سے اس قسم کی حرکات بعید نہیں ہیں، رائفل کی گولی جسم میں گھس کر فوری طور سے بڑا صدمہ پہنچاتی ہے اور اعضاء کو معطل کردیتی ہے ..... اس کا مجھے ذاتی طور سے تجربہ ہے ۔اس لیے کہ ریوالور کی ایک گولی ایک بار مجھے لگ چکی ہے اور ابھی تک میری ران میں موجو دہے ..... اگر چہ اس واقعے کو تقریباً ستائیس سال گزر چکے..... !
اگر قویٰ مضبوط اور طبیعت میں غیر معمولی برداشت کی استعداد ہو تو پہلے صدمے کے اثر سے اعصاب دس منٹ کے اندر اندر نکل آتے ہیں..... میں گولی لگنے کے تقریباً پانچ منٹ میں اس صدمے پر قابو پا چکا تھا لیکن اس کے اثرات کو زائل ہونے میں کوئی بیس منٹ لگے ..... یا شاید آدھا گھنٹہ کیونکہ اس عرصے میں لوگ مجھے ہاسپٹل لے گئے ..... ایکسرے لیا گیا ..... اس کے بعد میں کمرے میں لٹا دیا گیا ..... جہاں پندرہ بیس ہم کار مجھے گیرے کھڑے میرے موت یا موت سے پہلے کی خوف و ہراس کی کیفیت کے منتظر تھے ..... لیکن میں ان کی توقع کے خلاف نہیں رہا تھا ..... پان کھارہا تھایہ کہہ کر کہ شاید یہ زندگی کا آخری پان ہوگا .....
یہ بھی بجائے خود ایک دلچسپ افسانہ ہے ..... جو میری انگریزی زبان مین زیر تالیف کتاب DUEL WITH DEATH کا حصہ ہے ..... بہرحال .....
ریچھ درخت پر نظر آگیا ..... وہ اترنے کا ارادہ ملتوی کر کے دوبارہ بلند تر شاخ پر پہنچ کر بیٹھا مجھے دیکھنے کی کوشش میں تھا ..... شیر جس طرح گراتھا اسی طرح پڑا تھا ..... ریچھ چھوٹے قسم کا سیاہ ریچھ تھا جس سے مجھے کوئی پرخاش نہیں تھی ..... اور اس کو مارنے کا کوئی جواز معلوم نہیں ہوا۔ خصوصاً اس حال میں کہ وہ خود مجھ سے ڈر کر درخت سے اترنا ملتوی کرتے ہوئے اوپر ہی بیٹھا رہ گیا تھا .....
اب مجھے تین ’’بہادروں ‘‘ کا خیال ہوا ..... جو دُم دبا کر بھاگ لئے تھے ..... اور غالباً ابھی تک بھاگے چلے جا رہے ہوں گے..... !
میں نے اب شیر اور ریچھ کو وہیں رہنے دیا ..... شیر کو مرے تقریباً آدھا گھنٹہ تو گزر ہی گیاہوگا ..... گھڑی میں نے نہیں دیکھی تھی..... اندازہ ایسا ہی تھا ..... میں نے اب رائفل نیچی کرلی ..... پہلے تو اپنی حالت کا جائزہ لیا ..... کپڑے جھاڑ کر کانٹے اور تنکے علیحدہ کئے ..... گاڑی سے کودنے میں کوئی ضرب نہیں آئی تھی ..... گرنے میں ایک پتھر پر ٹانگ لگنے سے کسی قدر ضرب آئی ..... لیکن ایسی کہ میں نظر انداز کر سکتا تھا ..... رائفل بھی بحمداللہ بخریت تھی ..... میں اب پولیس کے ان دو سور ماؤں کی فکر و تلاش میں تھا۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )