شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 49
پاکستان کے وہ علاقے جو شمالی مغرب کی طرف ہیں ..... وہاں بھی حسن کا یہی عالم ہے ..... بلکہ سوات ..... ایبٹ آباد ..... کوہ مری کے بھی شمال کے علاقے ..... چترال ..... اور گلگت و اسکردو وغیرہ جہاں جہاں میں گیا ہوں ..... سارے علاقے قدرت کی فیاضی سے سرفراز ہیں ..... میرے پاس ان علاقوں کی صدہا تصاویر تھیں ..... افسوس کہ آتشزدگی کے باعث میرے سارے البم جل کر خاک ہوگئے.....
مجھے تو اب اس دریا کا نام بھی یاد نہیں رہا جو کالام کے ہوٹل کے نیچے سے گزرتا ہے ..... ہوٹل کسی قدر بلندی پر تھا ..... اس کے ساتھ سڑک اور سڑک کے بعد دریا ..... نجانے وہ دریائے سوات ہے یا دریائے کابل ..... یا جو کچھ لیکن اس کا پانی بھی شفاف سرد اور شیریں ہے ..... اتنا سرد کہ اس میں نہانا ممکن نہیں .....
میں ان علاقوں میں کافی سفر کرتا رہا اور شکار بھی کرتا رہا .... لیکن وہ زمانہ جبکہ میں شکار کے لیے جاتا تھا ..... ریاستی دور تھا اور میرآف ہنزہ ..... جن کا نام اب مجھے یاد نہیں ..... حکمران ہوا کرتے تھے ..... شکار کی اجازت کے لیے خود ان سے مل کر درخواست کرنا ہوتی تھی ..... ان سے دو ایک بار ملاقات ہوئی ..... اجازت تو انہوں نے بادل نخواستہ دی ..... لیکن کئی بار ملے ہی نہیں ..... والی ریاست تھے ..... میری کوئی سرکاری یا درباری حیثیت نہیں تھی وہ تو امریکی ادارہ بین الاقوامی برائے ترقیات کی برکت تھی اس کے نام سے شناخت بھی ہوتی تھی اور عزت بھی ..... اس کی وجہ ..... صرف امریکہ ..... امریکہ کانام ہر جگہ ہر متوقع پر مشکلات کا حل ثابت ہوتا تھا .....
اس طرح چترال میں بھی ریاستی کاروبار کا دور تھا جب میں شکار کو پہنچا اور ’’مہتر چترال ‘‘ سے شکار کی اجازت کا مسئلہ پیش ہوا..... البتہ ..... ان سب والیان ریاست میں سب سے خوش اخلاق اور دلچسپ شخصیت میر آف ہنزہ کی ہی تھی ..... جن سے دو تین بار شرف ملاقات حاصل ہوا اور وہ جب بھی ملے اس حسن اخلاق سے جیسے بہت عرصے سے مجھے جانتے ہوں ..... میں دوبارہ ہنزہ گیا ..... اور مارکو پولو شیپ کے لیے کوشاں رہا ..... شکار نہیں ہوا ..... میں نے مارکو پولو شیپ دیکھے ضرور ..... ایسے خوش نصیب شکار بھی دنیا میں معمد ودے چند ہی ہوں گے جن کو مارکو پولو شیپ کا دیدار خود ان کے قدرتی علاقے میں نصیب ہوا ..... ہر ایک امریکی دوست گورڈن گارلک بھی ساتھ تھا ..... گورڈن گارلک ان دنوں واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے دفتر میں لاہور میں کام کرتا تھا ..... وہ ویٹرینری ڈاکٹر تھا اور پنجاب یونیورسٹی کے ویٹرینر کالج کی ترقی و توسیع کے منصوبوں میں امریکی مشاور کے طور پر متعین تھا.....
گورڈن گارلک شیر کے شکار کے لیے بھی ہندوستان گیا تھا اور لائسنس لینے اور متعلقہ امور کے علاوہ گائیڈ اور قیام وطعام کے لیے کافی پیسہ خرچ کیا ..... رائفل کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا میں نے اس کم از کم تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ ..... یہ ممکن ہوتو چار سو پچاس ایکسپریس خریدنے اور لے جانے کا مشورہ دیا تھا..... لیکن اس نے انہیں دنوں امریکہ کی ایک نو ایجاد رائفل تھری ہنڈ ڈویدابی میگنم کے بارے میں بڑھتا تھا جس کے بارے میں ویدربی کے کارخانے نے بہت مبالغے کے ساتھ تشہیر کی تھی۔ اس نے یہی رائفل امریکہ سے منگوائی اور نجانے کہاں لے جا کر اس کو فائر بھی کرتا رہا ..... وہ یہی رائفل لے کر شیر کے شکار پر گیا تھا ..... لیکن اس کو دس روز کوشش کے باوجود شیر نظر نہیں آیا ..... مجھے یقین تھا کہ اگر شیر نظر بھی آگیا اور اس نے فائر بھی کیا تو شیر زخمی ہوکر بھاگ جائے گا اور گارلک صاحب یا جو زخمی شیر کو تلاش کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکیں گے..... باقی بھی تو نامراد ہونا پڑے گا ..... زخمی شیر کو تلاش کرنا بہت تجربے ‘ مہارت اور ہوشیاری کا کام ہے .....
شیر کے شکار میں جو ناخوشگوار بلکہ افسوس ناک واقعات ہوتے تھے ان میں سے نوے فیصد زخمی شیر کی تلاش میں پیش آتے تھے ..... خود میرے شیروں کے شکار کے ضمن میں جو چند نہایت افسوس ناک یادیں ہیں وہ ان واقعات کی ہیں جو زخمی شیر کی تلاش کے دوران ہی پیش آئے..... !
تھری ہنڈرڈ ویدربی میگنم ..... شروع میں تو تشہیر اور تبلیغ کے نتیجے میں توجہ کا باعث بنی تھی ..... لیکن اب جبکہ میں خود امریکہ میں مقیم ..... ہر وقت ہتھیاروں کے وسائل کا مطالبہ کرنا اور خود شکار کے کاروبار میں مشغول ہوں ..... تھری ہنڈرڈ ویدربی میگنم کا کوئی مقام میری نظر میں نہیں ہے ..... آج بھی تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم دنیا کی بہترین اور اعلیٰ ترین رائفل ہے جس کو چھوٹے اور بڑے ہر شکار میں استعمال کیا جا سکتا ہے ..... میرے پاس اس بور کی ایک رائفل ہے ..... اچھی رائفل کی قیمت امریکہ میں اس وقت تقریباً پندرہ ہزار ڈالر ہے ..... خود ہالینڈ اینڈ ہالینڈ کارخانے کی بنائی ہوئی رائفل کی قیمت اسی ہزار ڈالر کے قریب ہے ..... یہاں بھی یہ رائفلیں صرف میلنرز ہی خریدتے ہیں .....
یہ کتاب میں ستمبر 1995ء میں قلم بند کر رہا ہوں .....پاکستان کے سیاسی ‘ اخلاقی ‘ معاشرتی ..... وغیرہ ..... حالات کے بارے میں رسائل جو کچھ مجھے بتا رہے ہین ان کا معاملہ میرے لیے کس قدر ہیبتناک ہے اس کا کسی کو شاید ہی انداز ہو سکے .....
کراچی کشت و خون کا شہر ہے ..... دن رات لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں ..... نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ عزت و آبرو ..... نہ مال..... نہ گھر کے اندر تحفظ ہے نہ گھر کے باہر ..... ! اب تک پاکستان میں جتنی حکومتیں بن چکی ہیں وہ ساری خراب کار تھیں ..... لیکن وہ رسائل اور اخبارات جو میرے مطالقعے سے گزر رہے ہیں ان کے مطابق موجودہ حکومت ان سب سے بدترین حکومت ہے ..... اور نااہلوں ..... خود غرضوں ‘ آبروریزی ‘ رشوت ستانی ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ اقربا پروری اور بے ایمان کا دور ہے ..... اور کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ..... !
ان حالات سے سے متاثر ہو کر میں نے ایک طویل نظم لکھی ہے جو ان دنوں کتابت کے مرحلے میں ہے اس کے بعدطباعت..... پھر اشاعت ..... انشاء اللہ تعالیٰ ..... ممکن ہے اس کے پڑھنے سے کسی ایک کی اضلاح ہوسکے ..... ایک شخص بھی متاثر ہوسکا تو یہ میرے کامیابی ہوگی .....
جیسا کہ میں نے گذشتہ صفحات میں لکھا شیر کے شکار کے قصے اس واقعے کے ساتھ اختتام کوپہنچتے ہیں ..... الحمداللہ ..... لیکن میری کتابیں پڑھنے والوں کی بڑی تعداد مصر ہے کہ شکار کے بارے میں شائع شدہ وہ دو کتابیں جو تین بتین سال پہلے لاہور کے ایک ناشر نے شائع کی تھیں اور اب کہیں دستیاب نہیں ہیں ان کو دوبارہ شائع کراؤں ..... چنانچہ میں ان دو کتابوں کی تلاش میں ہوں ..
پاکستانی ناشران نہ صرف یہ کہ مصنف کو نہایت رقمیں دے کے بیوقوف بنا دیتے ہیں بلکہ ان کی تصانیف اور تالیفات پر ’’جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ‘‘ کی مہر ثبت کر کے کتاب کو ہمیشہ کے لیے اپنی ملک میں شامل کر لیتے ہیں ..... مجھے میرے ایک قاری نے لاہور سے خط میں لکھا کہ قانون کے مطابق ناشر کتاب پر بے شک ’’جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ‘‘ لکھ لے ..... لیکن اس کتاب کے حقوق ناشر کے اختیار میں دس سال تک رہتے ہیں ..... اس کے بعد وہ حقوق مصنف کو واپس مل جاتے ہیں ..... ان کے خیال میں قانون ایسا ہی ہے ..... میری تو ساری تصنیفات تالیفات پر جملہ حقوق ناشر کے حق میں ہی محفوظ ہیں ..... میرا کوئی اختیار نہیں اور ان بے شمار کتب سے مجھے جو مالی منفعت حاصل ہوئی اس کا خیال ہی خجالت کا باعث ہے ..... تاہم مجھے کوئی شکایت نہیں ..... مجھے اللہ تعالیٰ سبحانہ نے اتنا سرفراز فرمایا کہ کتابوں سے منفعت ہونے یا نہ ہونے سے مجھے فرق نہیں پڑتا ..... میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہوں ..... لیکن تذکرہ اس ناانصافی اور دھو کے بازی کا ہے جو مصنفین و مولفین کے ساتھ کیا جاتا ہے..... اور مصنف صرف اس خیال سے کہ کم از کم نام تو ہوجائے گا کتاب کے جملہ حقوق ناشر کے سپر کر دیتا ہے ..... میرا بھی یہی حال ہے ..... میری کتاب کوئی ناشر شائع نہیں کرتا ..... غالباً میری کتابیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان سے کسی ناشر کو فائدے کی امید ہو ..... یا چھپنے کے بعد وہ خوب فروخت ہو سکیں ..... لہٰذا کوئی ان کو شائع نہیں کرتا ..... مقبول اکیڈمی کا شاید کوئی ایسا ذریعہ ہو کہ وہ سو دو سو کاپیاں کسی کے سر تھوپ کر اپنا خرچ نکال لیتے ہیں..... اس لئے وہ میری کتابیں بھی شائع کرتے جاتے ہیں ..... اور ہر کتاب پر ’’جملہ حقوق محفوظ ‘‘ لکھ لیتے یہ فرض کر کے کہ میں ان تمام باتوں سے بے نیاز ہوں ..... یا یہ کہ پرانے تعلقات کی بناء پر اعتراض نہیں کر سکتا ..... مجھے کم از کم یہ سکون ضرور ملتا ہے کہ میری کتاب شائع ہوجاتی ہے ..... !
ہاں تومیں کہہ رہا تھا کہ۔۔۔بیل گاڑی ..... تناور گھنے درختوں کے سائے مین ..... گھونگھی ندی کے شاداب امن پر چلی جار رہی تھی ..... کبھی کبھی جنگی خاں کے بیلوں کو ڈانٹتے یادھتکارنے کی آواز ہوتی ورنہ اب ہم سب خاموش تھے ..... میں جنگی کے عین پیچھے گاڑی کے اگلے حصے میں سامنے کی طرف منھ کئے بیٹھا تھا ..... رائفل میرے ساتھ اس طرح رکھی کہ فوراً اٹھائی جا سکے ..... شاٹ گن بھی لوڈ کی ہوئی ساتھ ہی رکھی تھی ..... سپاہی مجھ سے کسی قدر ہٹے ہوئے گاڑی کے عقبی حصے میں بیٹھے تھے ..... ان کی بندوقیں بھی ساتھ رکھی تھیں..... ہمیں گاؤں سے روانہ ہوئے کوئی دو گھنٹے گزر چکے تھے ..... ایک تو میرے ساتھ پان نہیں تھا اس لئے بار بار منھ میں کچھ ہونے کی خواہش ہوتی ..... ایک بار گاڑی دو پہاڑیوں کے درمیان گھاٹی سے گزرنے لگی تو میری نظر ان جھاڑیوں پر پڑی جن میں چرونجی کے پھل بکثرت تھے ..... میں نے جنگی سے کہا گاڑی روکے ..... اس نے راس کھینچ کر چمکارا اور روک لیا .....
دونوں سپاہی فوراً اتر گئے ..... ’’کوئی حکم ..... ‘‘ ممتاز نے پوچھا
’’اچار اچھے لگے ..... سوچا تھوڑے سے توڑ لیں ..... ‘‘
میں نے جواب دیا ..... اور اترنے کے لیے بڑھا .....
’’تو آپ بیٹھئے ..... ہم توڑ لیتے ہیں ..... ‘‘
اور دونوں نے اچار کی جھاڑیوں کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ انہیں جھاڑیوں کے پیچھے ایک زبردست شیر نے سرنکال کر وہ خوفناک دھاڑ سنائی کہ ان دونوں کے ہوش و حواس زائل ہوئے ہی ہوں گے .(جاری ہے)