شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 48

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 48
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 48

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس کتاب ’’شکار شاہ کار ‘‘ کے بعد ..... شکار کے متعلق جو کتاب زیر تحریر آنا ہے ..... انشاء اللہ تعالیٰ ..... وہ ہے ’’بلندیاں ..... اور سائے ..... ‘‘اس کتاب میں صرف ایک شکار کا نہایت مفصل واقعہ ہے ..... وہ ہے کہ کولوریڈو میں الک (ELK) کے شکار سے متعلق ..... اور ساری کتاب نہایت عمدہ تازہ تصاویر سے مزین ہے ..... انشاء اللہ ..... 
گورڈا میں لنگور بکثرت تھے ..... اور بہت بیباک ..... گاؤں کی گلی میں ان کا ایک گروہ اتر کر کھانے کے مواقع تلاش کر رہا ..... میں مغرب سے قبل کمرے سے نکلا ..... ہاتھ میں لوڈ کی ہوئی شاٹ گن لیے ..... اور اس کنویں کی طرف چلا جس کے نزدیک ہی درخت کے نیچے ہماری گاڑی کھڑی تھی اور اس کے ساتھ ہی بیل بندھے تھے ..... 

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ویسے تو لنگور میری پروانہ کرتے ..... لیکن بندوق کو وہ بھی پہنچانتے تھے ..... میرے باہر نکلتے ہی لنگور بھاگ کھڑے ہوئے..... میں گاؤں کے نزدیک ہی درختوں کے سائے میں گھومتا پھرتا رہا ..... اپنے کاموں سے فراغت حاصل کی ..... آبادی سے کوئی سوگز پر سرخ رنگ کی لومڑیوں کا ایک جوڑا نظر آیا چونکہ شام نزدیک تھی اس لیے شب بیدار جانور رفتہ رفتہ نکل رہے تھے ..... میں ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد کنویں کی طرف آیا تو ممتاز بٹ وہاں موجود تھا ..... اس نے میرے لیے کنویں سے تازہ پانی نکال دیا تو میں نے جگت پر بیٹھ کر وضو کیا ..... اور کمرے میں واپس آگیا ..... 
نماز کے بعد جنگی نے کھانے کے بابت دریافت کیا ..... اور کمرے میں ہی چٹائی پردستر خوان بچھایا گیا ..... میں نے اور ممتاز نے وہاں کھانا کھایا ..... اور لالن نے مکھیا کے گھر کھایا ..... !
گاؤں کی شام بڑی خاموش ..... افسردہ شام ہوا کرتی ہے ..... نہ کوئی رونق نہ چہل پہل نہ روشنی ..... رت جگے کا رواج شہر میں ہی ہوتا ہے ..... گاؤں والے تو بیچارے جلد ہی سناٹا کر کے سوجاتے ہیں ..... ویسے بھی ان کو صبح منھ اندھیرے اٹھنا ہوتا ہے ..... صبح میں جب اٹھا تو پانچ بجے کا وقت تھا ..... رات نیند اچھی آئی ..... مجھے نیند کی شکایت ویسے بھی کبھی نہیں ہوتی ..... سونے کی نیت سے لیٹتا ہوں تو چند منٹ میں نیند آجاتی ہے اور خوب گہری نیند سوتا ہوں اور صبح جس وقت بیداری کا ارادہ کروں اسی وقت آنکھ کھل جاتی ہے .....
میں نے بندوق اٹھا کر لوڈ کی ..... کمرے میں جلنے والی مٹی کے تیل کی لالٹین نے ایک خاص قسم کی تیل آمیز بوپھیلا رکھی تھی..... میں نے دروازہ کھولا تو تازہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یوں کمرے میں جیسے وہ ساری رات دہلیز پر بیٹھ کر اندر آنے کا انتظار کرتا رہا ہو ..... میں نے ذرا دیر پر دروازہ کھلا رہنے دیا ..... تاکہ نہ صرف کمرے کی ہوا بدل جائے بلکہ میری نظر باہر کی اندھیری فضا میں ملی جلی ستاروں کی ملگجی روشنی سے آشنا ہوجائے ..... ویسے بھی جنگل کے دیہاتوں میں یکبارگی گھر سے باہر نکل آنا اچھا نہیں ہوتا ..... ذرا تو قف کر کے دیکھ بھال کر کے قدم باہر نکالنا بہتر ہوتا ہے ..... 
دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی نزدیک سے ایک کتے نے بھونکنے کا سلسلہ شروع کر دیا ..... لیکن یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہا..... 
یہ بات نہیں کہ میں سب سے پہلے بیدار ہوا تھا ..... گاؤں کے اکثر لوگ اٹھ چکے تھے ..... وہ لوگ صبح خیز ہوتے ہیں ..... اپنے روزمرہ کے کام منھ اندھیرے ہی شروع کردیتے ہیں ..... ایک کسان ہل کاندھے پر رکھے بیلوں کو ہنکا تاگلی سے گزر گیا ..... 
جانوروں کے باڑوں میں بھی کسی قدر حرکت معلوم ہوتی تھی ..... لوگ چارے پانی کا انتظام کر رہے ہوں گے ..... کسی گھر سے دودھ بلونے کی آواز آنے لگی تھی ..... 
میں نزدیک ہی اپنے کام ختم کرکے کنویں پر آگیا ..... صابن اور تولیہ میں ساتھ لایا تھا ..... کنویں پر دو عورتیں پانی بھر رہی تھیں..... مجھے دیکھ کر انہوں نے چہرے پر گھونگھٹ کھینچ لیا ..... لیکن ان کو اتنا خیال ضرور تھا کہ ڈول بھر کر میری طرف رکھ کر ہٹ گئیں..... کنویں سے جو تازہ پانی نکلتا ہے وہ ہمیشہ سردیوں میں نیم گرم ہوتا ہے ..... گرمیوں میں وہی پانی سرد ہوجاتا ہے ..... میں نے کسی جیولا جسٹ سے قدرت کے اس انتظام کے بارے میں سوال کیا ..... لیکن تعجب ہمیشہ ہوتا رہا ..... اس وقت بھی جو پانی ان عورتوں نے کھینچ کر مجھے یا نیم گرم تھا ..... اچھا خاصا نیم گرم ..... میں نے خوب اطمینان سے ہاتھ منھ دھوئے ..... پھر وضو کیا ..... اور بندوق ہاتھ میں لئے اپنے کمرے میں آگیا ..... 
اب مشرق کی وسعتوں پر روشنی چمکدار فوج نے ظلمت شب کا لباس چاک کر دیا تھا ..... اور اندھیروں کے لشکر میں افراتفری شروع ہوچکی تھی ..... 
میں نے فجر کا دوگانہ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا ..... اس کے بعد وظائف و تلاوت میں مشغول رہا..... اس دوران صبح ہوگئی تھی ..... ممتاز اور جنگی دونوں کمرے کے کھلے دروازے سے جھانک کر جا چکے تھے ..... اور میں ابھی لباس تبدیل کر ہی رہا تھا کہ جنگی ناشتے کی کشتی اٹھائے آگیا ..... ممتاز بھی ساتھ تھا ..... میں نے لباس تبدیل کر کے ناشتہ کیا ..... اور تھوڑے دیر بعد ہم لوگ اس گاؤں کو خیر باد کہہ کر بھگت گڑھ کی طرف چل نکلے ..... 
گاؤں کے کھیتوں سے گزرتے ہی نیل گایوں کا ایک منداملا ..... ان کے پیٹ خوب پھولے ہوئے تھے یقیناانہوں نے کسی فصل پر شبخون مارا تھا ..... نیل گائے ..... نہایت کھبوڑ ..... یعنی پُرخور ..... جانور ہے مسلسل کھائے جاتا ہے ..... اور بے حد کھاتا ہے ..... دس بارہ نیل گائے اگر کسی کھیت میں رات کو گھس جائیں تو صبح تک اس کھیت کا اور ساتھ ہی کھیت کے مالک کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں ..... اس لیے فصل نکلتے ہی کسان اپنے کھیتوں کے نزدیک ایک چوبارے یا مچان بنا کر ان پر رات گزارتے ہیں اور اگر رات کو نیل کھیت پر حملہ کریں تو ان کو ٹین بجا کر یا اور کوئی آواز کر کے بھگاتے ہیں ..... 
برما میں شمال مشرق کے جس علاقے میں شکار کے لیے میرا جانا ہوا وہاں گنے کی فصلیں تھیں اور ان پر جنگی ہاتھی حملہ آور ہوتے تھے..... ان کو بھگانے کے لیے فصلوں کے مالکان نے دھماکے سے پھٹنے اور آواز کرنے والے پٹا کے بنا رکھے تھے ..... میں رات کو ان دھماکوں سے ہی اچانک گھبرا کر اٹھابیٹھا ۔خیال آیا برما میں بھی وہ سلسلہ نہیں چل نکلا جو ان دنوں کمبوڈیا میں جاری تھا ..... میرا میزبان ملٹن تو بھی نزدیک ہی سورہا تھا ..... 
میرے اٹھنے سے اس کی آنکھ بھی کھل گئی ..... 
’’کیا بات ہے ..... ؟‘‘اس نے پوچھا 
’’دھماکے ہو رہے ہیں ..... یہ فائر تو نہیں ہیں ..... پھر کیا ہیں ..... ؟‘‘ 
’’اوہ ..... سو جاؤ ..... یہ گنے کے کھیتوں پر ہاتھیوں کو بھگانے کے لیے دھماکے کیے جا رہے ہیں ..... ‘‘
میں مطمئن ہو کر لیٹ گیا .....صبح ملٹن نے یہ بات بالتفصیل بتائی ..... ! 
سردی کے زمانے میں سانپ نہیں ہوتے ..... خصوصاً ابتدائے سرما سے آغاز بہار تک سارے سانپ گہرے گڑھوں اور سوراخوں میں گھسے رہتے ہیں ..... اگر کوئی دن بہت گرم ہو تو کبھی کبھی کوبرا بلکہ کنگ کوبرا نکلتا ہے ..... اور کوئی سانپ نہیں نکلتا.....!میں سانپ سے ہمیشہ گھبراتا ہوں ..... اور اس کے نظر آتے ہیں اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہوں ..... امریکہ کے جن علاقوں میں اب مجھے شکار کے مواقع ملتے ہیں وہاں سانپ نہیں ہوتے ط اس لیے کہ سخت سردی ہوتی ہے ..... سانپ ان دنوں میں نہیں نکلتا..... 
گاڑی کا راستہ اب واضح تو تھا لیکن بہت ناہموار ..... پھر بھی میں گاڑی میں ہی رہا ..... ممتاز اور لالن گاڑی ہی میں رہے ..... یہاں سے راستہ ایک پایاب ندی کے کنارے پر ہولیا تھا ..... جو پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی چلی گئی تھی ..... اس ندی میں بھی گہرائی قطعی نہیں تھی اور اس کا پاٹ بھی خوب جوڑا ..... کوئی بیس پچیس گز کا تھا جس میں سفید سفید پتھروں کا بستر تھا ..... پانی کی ایک تیز رونالی ایک کنارے کے ساتھ ساتھ رواں تھی ..... وہاں پانی کی گہرائی پانچ سات انچ رہی ہوگی اس قسم کی ندیوں میں ..... جن کو چشمہ کہنا بہتر ہے..... پانی بہت معطر اور صاف ہوتا ہے ..... لالن نے ندی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ..... ’’یہ گھونگھی ندی ہے ..... ‘‘
’’پانی تو صاف ہوگا ..... ‘‘ میں نے پوچھا 
‘‘جی ہاں ..... پانی تو صاف ہوتا ہے ..... میلوں اسی طرح بہتی ہے ..... نربدا میں گرتی ہے ..... ‘‘
’’ہوں ..... ‘‘
’’اب سارا راستہ اس کے کنارے کنارے ہی ہے ‘‘ 
یہ واقعہ ہے کہ جس قدر قدرتی حسن اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو بخشا ہے وہ اور کہیں کم دیکھنے میں آیا ..... الایہ کہ امریکہ یا کینڈا میں یہ حسن تلاش کیا جائے ..... کہنے کو وسط ہند کے علاقے گرم ہیں ..... لیکن بارش کی کثرت کے نتیجے میں پانی کی افراط نے ان علاقوں کی وادیوں اور گھاٹیوں میدانوں اور پہاڑی دامنوں کو اس قدر کثیر درخت ..... جن میں بے شمار پھل دار درخت ہوتے ہیں اور سبزہ و پھول عطا کیے ہیں کہ ان کہ فریفتہ ہوجانے کو دل چاہتا ہے ..... 
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )

مزید :

کتابیں -شکاری -