شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 47
لالن اس کی تائید کرتا جاتا تھا ..... بیچ بیچ جنگی بھی واقعات کر کڑیاں ملاتا جاتا تھا ..... یہ بیانات میرے لیے کارآمد بھی تھے اور عجیب بھی ..... ابھی تک ان لوگوں کو وہ بھوت نظر بھی نہیں آیا تھا جس نے چند انسانی زندگیوں کے چراغ بجھا دئے تھے .....
میں سوچ رہا تھا کہ ایک پنتھ دوکاج ..... اگر آدم خور شیر یا چیتا نہیں ہوا تو بھوت تو مل ہی جائے گا ..... اور اگر نہ بھی ملا تو اس کو بھگا کر اس کی لنگوٹی پر تو قبضہ کر ہی لوں گا ..... بھاگے بھوت کے لنگوٹی ہی بھلی ..... !
کورڈا ..... ان لوگوں کے بیان کے مطابق اٹھارہ میل تھا ..... دوپہر کے قریب ہم لوگ ایک چشمے کے کنارے ٹھہرے ..... اس وقت بعد دوپہر کا ایک بج رہا تھا ..... اونچے اونچے درخت ..... برگد ..... نیم پیپل ..... اور کہیں کہیں سال ..... سال کہ درخت بھی بلند و بالا اور خوب گنجان ہوتے ہیں ..... جنگلوں کی گنجانی اور سائے کی وجہ سے ان علاقوں کے رہنے والے شیر اکثر دن کے وقت گھومنے پھرنے کے عادی ہو جاتے ہیں .....
چشمے کے کنارے ایک صاف سبزہ زار پر جنگی نے دری بچھا دی ..... میں اپنی رائفل ہاتھ میں لے کر ہی گاڑی سے اترا ..... اس لیے کہ میں نہیں چاہتا کہ کسی موذی جانور سے اچانک ملاقات ہواور میں اس کے لیے آمادہ نہ ہوں ..... ! ویسے بھی مجھے ادھر ادھر چلنا پھرنا اور کسی نہ کسی جھاڑی کی آڑ میں بھی جانا ہی تھا .....
چشمہ کیا تھا ..... ندی تھی ..... پایاب ..... اور شفاف ..... میں نے مطمئن ہو جانے کے بعد چشمے کے پانی سے خوب اچھی طرح وضو کیا ..... اور ذرا دیر ندی کے صاف‘ شیریں اور ٹھنڈے پانی میں پاؤں رکھے بیٹھا رہا..... ان علاقوں کے چشموں اور ندیوں کا پانی کچھ اتنا سرد نہیں ہوتا .....
ایران کے چشموں کا پانی اس قدر سرد ہوتا ہے کہ ذرا دیر اس میں ہاتھ بھگونے یا پیرڈا لے رہنے کے بعد سردی معلوم ہونے لگتی ہے ..... اس لیے کہ وہ پانی برف کا ہوتا ہے ..... میں تہران کے قیام کے دوران گرمیوں کے دنوں اکثر بچوں کو اور بیگم کو ساتھ لے کر ’’سدفرح ناز‘‘ ’’کرج‘‘ یا ’’منتشک‘‘ چلا جاتا تھا ..... البتہ ان کے تعین میں حکومت کا ہاتھ کم ..... عوام کا شوق زیادہ کار فرما رہتا ہے .....
ایران کے عوام سیر تفریح ‘ پکنگ اور خوشی وقتی کے شائق ہوتے ہیں ..... اکثر خنک اور نسبتاً گرم شاموں کو گنجان آبادیوں کے لوگ مضافات میں نکل کر کہیں اور نہیں تو سڑک کے کنارے ہی صاف جگہ پر فرش بچا کر سما وار گرم کرتے ہیں ..... اور کھاتے پیتے ہیں .....
ایرانی چائے بہت پیتے ہیں ..... اس لیے ہر خاندان ایک سماوار ساتھ رکھتا ہے ..... جہاں بیٹھے وہاں سماوار میں پانی بھرا اور روشن کر دیا ..... ذرا دیر میں پانی گرم ہوجاتا ہے اور چائے کا دور برابر چلتا رہتا ہے ..... کھانا پینا ہی ان کی زندگی ہے .....
میں نے وہاں دوپہر کا کھانا کھایا ..... اس کے بعد دو رکعت قصر ظہر کی نماز ادا کی ..... لیکن تمام وقت میں ہوشیار بھی رہا اور گاہ بہ گاہ بیلوں کی طرف دیکھ لیتا تھا .....
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ..... جانور ..... اپنے دشمن کو خوب جانتے ہیں ..... اکثر بیل شیر کی بوخاصی دور سے سونگھ لیتے ہیں ..... میں ہمیشہ اس قسم کے جنگلی اشارات پر نگاہ رکھتا ہوں ..... امریکہ میں جو لوگ کبھی کبھی میرے ساتھ شکار کو جاتے ہیں وہ میرے عادات و حرکات کو تعجب سے دیکھتے ہیں ..... لیکن یہ سب حرکات میری طبیعت کا حصہ بن گئی ہیں ..... باوجود یکہ کئی سال سے مجھے شیر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اوراب میں غالباً اس کام سے ریٹائر بھی ہوگیا ہوں ..... لیکن پچاس سالہ عادتیں اب کیا بدلیں گی ..... اور بدلنا بھی نہیں چاہتے اس لیے کہ .....
ہر بیشہ گمان میر کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ با شد
امریکہ کے بعض علاقوں ..... کولورریڈو ..... واومنگ ‘ مانٹینا ..... اور نارتھ ڈکوٹا ..... وغیرہ کے جنگلوں میں سیاہ ریچھ بڑی تعداد میں ہے ..... اور رسائل و اخبارات میں کبھی کبھار انسان پر ان کے حملے اور زیادتی کے قصے شائع ہوتے رہتے ہیں .....
ریچھ کے علاوہ بھیڑ کے ..... جنگلی کتے ..... اور شیر کی قبیل کا کتے سے بڑا ..... تقریباً تیندوے کے قدو قامت کا جانور پوما بھی ہوتا ہے ..... (PUMA)جسے پہاڑی شیر (MOUNTAIN LION) بھی کہا جاتا ہے ..... ان میں سے بعض شیر خوراک ملنے اور سکون وامن ہونے کے باعث کافی بڑے بھی ہوجاتے ہیں .....
بیلوں کو ذرادیر کے لیے نیم آزاد کر دیا گیا ..... بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی رسی دراز کردی گئی تھی ..... پانی بھی پلا دیا گیا ..... بیل اکثر پانی کو آلودہ نہیں کرتے ..... ان کے برعکس بھینس اس کام میں نہایت کثافت دکھاتی ہے ..... پانی سے بھینس کو خصوصی دلچسپی بھی ہوتی ہے ..... تالاب ‘ جو ہڑ‘ ندی نالا ..... جہاں داؤ لگے ضرور پانی میں گھس جاتی ہے ..... پانی میں گھستے ہی فراغت کا کاروبار شروع کر دیتی ہے ..... اور یہ کام بڑی دیر جاری رکھتی ہے ..... خدا جانے کس قدر پانی اس کے مثانے میں بھرا ہوتا ہے ..... کھانے سے فراغت کے بعد میں روانگی کے لیے تیار ہوگیا ..... حیرت یہ تھی کہ لالن ..... نے بھی وہی کھانا کھایا جو ہم لوگوں نے نوش کیا ..... ہندو ہونے کے باوجود اس کی یہ رواداری میرے لیے بڑی تعجب خیز تھی ..... لیکن میں نے اس پر تبصرہ نہیں کیا .....
ایک بارپھر بیل گاڑی روانہ ہوگئی ..... سارا راستہ مختلف جانور جا بجا نظر آتے رہے ..... ہرن ..... چیتل ..... نیل گائے ..... سانبھر ایک جگہ پہاڑی کے دامن میں بارہ سنگھے بھی نظر آئے ..... جب کوئی جانور نظر آتا ..... لالن یا ممتاز بٹ کا تقاضا ہوتا کہ ’’مار دیجئے صاحب ‘‘ جب انہوں نے کئی بار یہ بات کہی تو میں نے ان سے پوچھا ..... ’’تم ہر جانور کو مار دینے کا تقاضا کیوں کرتے ہو..... ؟ ‘‘
’’صاحب شکار ہے ..... ‘‘ لالن نے کہا .....
’’میں اس شکار کے لیے تو نہیں آمادہ ہوں ..... ‘‘
’’آپ نکلے تو شکار کے لیے ہیں ..... ‘‘
’’میں جس جانور کے شکار کا ارادہ کرکے نکلتا ہوں صرف اسی کو مارتا ہوں ..... ایسا نہیں کرتا کہ جو جانور نظر آئے اس کو بے سبب ہلاک کردوں ..... اگر میں ایسا کرنے لگوں تو پھر مجھے شکاری نہیں کہا جائے گا ..... تباہ کار کہا جانا چاہیے ..... ‘‘وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے رہ گئے .....
ہم لوگ عصر کے وقت گورڈا میں وارد ہوئے ..... مکھیا فوراً ہی آگیا ..... سپاہیوں سے اس کی بات چیت ہوئی ..... اس کے بعد اس نے آکر مجھے سلام کیا ..... تعظیم کی اور ذرا بعد ہی اس کا وہ کمرہ ..... جسے وہ لوگ عزت عام میں کوٹھا کہتے تھے ، کھل گیا ..... صفائی کی گئی اور میرا سامان وہاں رکھ دیا گیا ..... سپاہیوں کے ٹھہرنے کا انتظام بھی نزدیک ہی کے گھر میں ہوگیا ..... وہاں سے بھگت گڑھ بارہ پندرہ میل تھا .....
عصر کی نماز میں نے اس کمرے میں ادا کی ..... اس کے بعد نوٹ بک کھول کر بیٹھ گیا او وہ یادداشتیں بناتا رہا جو کئی دن سے التوا میں رہ گئی تھیں ..... ان یادداشتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب یہ داستانیں بیان کی جاتی ہے .....
لیکن ..... ہندوستان میں شکار کا یہ قصہ گویا شیر یا چیتے کے شکار کا آخری واقعہ ہے ..... یہ سلسلہ اس قصے کے ساتھ ختم ہو رہا ہے ..... میرا آئندہ ہندوسان جانا بھی مشکل اور شیر کا شکار کرنا ناممکن ہوچکا ہے ..... اگرچہ اب بھی جگہ جگہ شیر آدم خور ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو مقامی تدابیر کے ذریعے یا تو گرفتار کر دیا جاتا یا ہند کے گیم ڈپارٹمنٹ کا کوئی افسر ہی اس کو مار لیتا ہے ..... جن لوگوں کے اثرو رسوخ کے ذریعے میں شکار کر لیتا تھا وہ لوگ بھی بیشتر یا تو ہندوستان ترک کر چکے ..... یاریٹائر ہو کر اپنا اثر کھو چکے ..... یا کچھ وفات پاگئے ..... ہندوستان میں اب کوئی ایسا عزیز رشتے دار ..... یا دوست باقی نہیں رہا ‘ جو میرے لیے شیر کے شکار کا انتظام کرے ..... ویسے بھی ..... چونسٹھ سال کی عمر کو پہنچا ..... اب وہ برداشت ‘ طاقت اور پھرتی باقی نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی ..... مجھے اصولاً بھی شیر کے شکار سے ریٹائر ہوجانا چاہیے البتہ شکار سے میں کبھی ریٹائر نہیں ہونے کا ..... انشا ء اللہ .....
اب آدم خور شیروں کے قصے تو ختم ہوگئے ..... کتابیں تو انشاء اللہ ضرور شائع ہوں گی اور شکار جاری ہی رہے گا ..... لیکن اب قصوں کا تعلق بیشتر امریکہ سے ہوگا ..... یا ان ممالک سے جہاں میں شکار کے لیے جاؤں ..... میں فرضی افسانے نہیں لکھتا ..... شکار سے متعلق میرے لکھے ہوئے ساری قصے حقیقت پر مبنی واقعات ہیں جو میں اپنے شکار کے بارے میں قلم بند کرتا رہتا ہوں ..... (جاری ہے)