شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 46
میں ان ہی دنوں تعطیلات گزار نے جشن کابل جانے والا تھا ..... جس کی پاکستان میں بہت تشہیر تھی اوربہت لوگ جایا کرتے تھے..... عظمت میاں کا خط آیا تو اس ’’بھوت ‘‘ کا انہوں نے سرسری تذکرہ کیا تھا ..... لیکن ..... میرے لیے ان کا یہ تذکرہ گویا ..... دیوانہ را ایک ہوئے بس است ..... میں نے کابل جانے کا اردہ قطعاً ترک کیا ..... اور سیدھا ہندوستان ہائی کمیشن پہنچا ..... ویز ہ ملنے میں دشواری نہیں ہوئی اور وہ بھی تین ماہ کا .....لاہور سے ٹرین میں بیٹھا ..... اور سیدھا بھوپال.....
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 46پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عظیم بھائی کے گھرچند روز کھڑی ‘ بھونریاں ..... کچوریاں ..... اور لوکی کی قلا قندکھائی ..... اپنی رائفل چار سو پچاس ایکسپریس صاف کر کے ..... پولیس کی رینج پر تین روز ..... روزانہ پانچ کارتوس فائر کیے اور ان کے ایک سپاہی کی معیت میں اٹارسی آپہنچا ..... یہاں..... موہن داس سپاہی مجھے اٹارسی کے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس مہابت خان کے سپرد کر گیا ..... مہابت عظیم بھائی کے شاگرد ..... اور بڑے شریف النفس پولیس افسر تھے ..... انہوں نے تو میرے ایسا خاطر مدارات کی کہ مجھے اب تک یاد ہے ..... ان کی بیگم ..... بھابھی سعادت النساء ..... ..... جو پردہ کرتی تھیں ..... کیسے عجیب کھانے پکاتی تھیں کہ آدمی کھانے کے ساتھ انگلیاں بھی کھا جائے.....
اب مہابت خاں صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے میرے سن وسال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا
’’بھیا..... یہ تو بڑے جغادریوں کا کام ہے ..... تم کا ہے کو اس چکر میں پڑتے ہو..... ‘‘
’’آپ سن لیجئے گا انشاء اللہ کہ میں نے اس جانور کو شکار کر لیا ..... ‘‘
’’جانور ..... جانور ہے ہی کب ؟!‘‘
’’کیا مطلب ..... ؟‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا
’’بھیا ..... جانور تو کوئی کبھی نظر نہیں آیا ..... ‘‘
’’پھر کیا ہے ..... ؟!‘‘
’’لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھوت پریت کا کام ہے ..... ‘‘
میں ہنس دیا ..... ’’کیا آپ بھی اس پر یقین کرتے ہیں ..... ؟‘‘
وہ سوچ میں پڑگئے .....’’پھر کوئی جانور کوئی نشان کیوں نہیں ملتا ..... ؟‘‘
بالآخر انہوں نے الٹا مجھے سے سوال کر دیا .....
’’مل جائے گا انشاء اللہ .....‘‘
وہ گہری سوچ میں تھے ..... ذرا دیر خاموشی رہی ..... ’’عظیم نے تم کو جانے سے منع نہیں کیا ..... ؟‘‘
’’وہ تو میرے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ..... ‘‘
’’اچھا ..... اللہ مالک ہے ..... ‘‘
باوجود یہ کہ میں دوبچوں کا باپ ..... اور تجربہ کار شکاری تھا لیکن مہابت خاں نے نجانے کیوں مجھے بہت کم عمر سمجھا ..... یہ بات میرے لیے بڑی خوشی کا باعث ہونا چاہیے تھی ..... لیکن میرے شکار کے تجربے کے پیش نظر نامناسب ..... اسی شام کھانے کے دستر خوان پر انہوں نے بتایا .....
’’بھیا ..... تمہارے بھگت گڑھ جانے کا انتظام کردیا میں نے ..... ‘‘
’’بہت عنایت .....‘‘
’’صبح سات بجے روانگی ہے ..... بیل گاڑی کا ہی سارا سفر ہے ..... فاصلہ زیادہ ہے ..... ‘‘
’’کتنا ..... ؟‘‘
’’یہی کوئی تیس میل ..... ‘‘
’’اس کا مطلب راستے میں ٹھہرنا ہوگا ..... ‘‘
’’ہاں ..... گوڑ دا ایک گاؤں ہے اٹھارہ میل پر ..... وہاں مکھیا کا گھر ہے اس میں کبھی میں بھی جاتا ہوں تو ٹھہر جاتا ہوں ..... وہیں ٹھہرنا ..... رات ہی گزارنا ہو گی ..... تمہارے ساتھ دو سپاہی جا رہے ہیں ..... ‘‘
’’سپاہیوں کی کیا ضرورت ہے ..... ؟‘‘
’’اب زمانہ بدل چکا ہے بھیا ..... ہم لوگ بھی بہت احتیاط کرتے ..... عظیم میاں صاحب سے بات کرنا ..... وہ بھی ریٹائرمنٹ کی سوچ رہے ہیں ..... ‘‘
’’اچھی بات ہے .....‘‘
سپاہیوں کو انہوں نے نہایت کارآمد ہدایات دی تھیں ..... اس لیے ان کا سلوک میرے ساتھ سارا وقت نہایت مودبانہ رہا ..... جس کا مزید تذکرہ آگے آئے گا .....
دوسرے دن صبح میں تیار ہو کر نکلا تو گاڑی بھی موجود تھی ..... اور دونوں سپاہی بھی ..... گاڑی بان کا نام تھا جنگی ..... مسلمان تھا ..... یہی کوئی پچاس کی عمر، دبلا پتلا ..... مجھے جھک کر سلام کیا ..... دونوں سپاہی وردی پہنے تھے ..... انہوں نے سلیوٹ کیا ..... اسی وقت خاں صاحب بھی نکل آئے ..... ان کو تو اور زبردست سلام اور سلیوٹ ہوئے .....
’’بھیا ..... اپنا خیال رکھنا ..... عظیم میاں کے سامنے اللہ مجھے سرخرو کرے ..... ‘‘
میں ہنس دیا .....
’’بھائی میاں آپ تو ایسے گھبرارہے ہیں جیسے میں یقیناًگیا ..... ‘‘
’’خدانہ کرے ..... خدانہ کرے ..... ‘‘
پھر انہوں نے دونوں سپاہیوں اور گاڑی بان سے راز دارانہ کچھ دیر گفتگو کی ..... اس کے دوران سپاہی وقتاً فوقتاً میرے طرف دیکھ لیتے ..... یقیناًان کو میرے بارے میں مزید ہدایات دی جارہی تھیں ..... ذرا دیر بعد میں ان سے رخصت ہوا .....
آؓبادی میں تو گاڑی پر نہیں بیٹھا ..... گاڑی کے ساتھ ساتھ ہی چلتا رہا ..... دونوں سپاہی بھی میرے ساتھ رہے ..... ایک مسلمان تھا ..... ممتاز بٹ ..... مشرقی پنجاب میں لدھیا کا تھا ..... دوسرا ہندو ..... بھوپال کا تھا لالن..... دونوں اچھے قد کاٹھ کے پنتالیس پچاس کے پیٹے میں رہے ہوں گے .....بھوپال والے لالن کو یہ جان کر کہ میں بھی بھوپال کا ہوں بڑی خوشی ہوئی تھی وہ دونوں میرے ساتھ اسی ادب سے پیش آرہے تھے جیسے وہ مہابت خاں کے ساتھ پیش آتے ہوں گے .....
آبادی سے چند میل نکل کر میں گاڑی میں بیٹھ گیا ..... اب جس راہ پر گاڑی چل رہی تھی وہ کوئی ہائی گریڈ سطح کی سڑک تو تھی نہیں..... کچی سڑک تھی جس پر کنکری کوٹی گئی تھی ..... لیکن گاڑیوں کی آمدروفت نے دونوں طرف کنکروں کو پیس کر کسی قدر گہرائی پیدا کر دی تھی .....
بیلوں کی رفتار بھی ہمیشہ ایک ہی جیسی ہوتی ہے ..... یہی تین سے چار میل فی گھنٹہ ..... اگر بیل چھوٹے ہوئے تو تین میل ..... قدر آور ہوئے تو چار میل بس ..... گاڑی بان ان کے کیل چبھوتا ہے دم مڑوڑتا ہے ..... لیکن چند قدم تیز ہونے کے بعد یہ نامعقول جانور پھر اپنی رفتار سے ہی چلتا ہے ..... البتہ جو بیل صرف گاڑی سواری کے ہوتے ہیں وہ خوب چلے ہوئے مضبوط اور بڑے تیز ہوتے ہیں ..... یہ پانچ میل بھی کر سکتے ہیں لیکن اوسط وہی چار میل آتا ہے .....
کھیتوں اور فصلوں کے ایک طول طویل سلسلے کے درمیان سے گزر کر گاڑی بالا خر ویرانے نے داخل ہوگئی ..... اب سپاہی بھی گاڑی پر سوار ہوگئے ..... میں آگے کی طرف منھ کیے ..... گاڑی بان جنگی کے عین عقب میں بیٹھا تھا ..... اور دونوں سپاہی گاڑی کے پچھلے حصے میں ..... گاڑی میں خوب موٹا گدا بچھا ہوا تھا ..... اس لیے کوئی خاص تکلیف نہیں تھی .....
جنگل شروع ہوا تو میں نے پہلے بارہ بور کی بندوق نکالی ..... اور اس کارتوس لگا کر سامنے رکھ لی ..... پھررائفل نکالی اور اس کو بھی لوڈ کر کے ایک طرف رکھ لیا ..... سپاہی بغور میری حرکات کا معانہ کرتے رہے ..... بولے کچھ نہیں .....
ان دونوں کے ہاتھ میں بھی توڑے دار ..... Muzzle Loading بندوقیں تھیں ..... جو انہوں نے گاڑی پر اس طرح رکھی تھیں کہ نال کا رخ جنگل کی طرف رہے .....
’’آپ تو بہت بڑے شکاری ہوں گے بھیا ..... ‘‘
میں مسکرایا ..... ’’ہاں شکار کرتا ہی رہتا ہوں ..... ‘‘
شیر چیتا بھی مارا ہوگا ..... ‘‘ ممتاز بٹ نے پوچھا
’’ہاں ..... مارا ہے ..... ‘‘ میں اس وقت تک کل چھیا سٹھ شکار کر چکا تھا ..... جس میں تیس سے اوپر آدم خور شیر بھی شامل ہیں ..... غالباً اسی تعداد میں چیتے بھی مارے ہوں گے ..... مجھے یاد نہیں ..... اور لاتعداد ریچھ ..... اور سور ..... !
’’تم لوگوں نے ..... ؟ ‘‘
’’نہیں جناب ..... یہ آپ جیسے لوگوں کے کام ہیں ..... ہمارے پاس یہ توڑے دار بھی بہت بڑی بات ہے .....
’’کبھی شیر دیکھا ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’بہت بار جناب ..... ایس پی صاحب اور کمشنر صاحب کبھی بھی شکار پر آتے ہیں تو ہم دونوں ہی شکار کا انتظام کرتے ہیں ..... ‘‘
’’اچھا ..... تم لوگ تو بہت تجربے کار ہو گے ..... ‘‘
’’جی صاحب ..... ‘‘
’آپ نے جب بندوق لوڈ کی ..... اس وقت ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ پختہ شکاری ہیں ..... ‘‘ لالن نے کہا .....
’’ہاں ..... جنگل میں بے خبر رہنا اچھا نہیں ..... ‘‘
’’جی جناب ..... ‘‘
’’کیا ان علاقوں میں شیر ہیں .....؟ ‘‘
’’کافی تعداد میں ہیں جناب ..... ‘‘ جنگی بولا .....
’’بیر کنڈ تک کا سارا علاقہ شیروں کا علاقہ ہے صاحب .....‘‘ ’’لالن نے کہا ‘‘ اور کسی کسی جگہ گلدار بھی ہے ..... اور بہت بڑے گلدار ہیں ..... ‘‘
’’تم لوگ پہلے بھی بھگت گڑھ گئے ہو ..... ؟‘‘
’’گئے تو ہیں ..... ‘‘ ممتاز بٹ بولا ..... ‘‘ دوبار گئے ..... ‘‘
’’یہ جو تین آدمی گم ہوئے ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ..... ؟‘‘
وہ تینوں ہی خاموش رہے .....
میں بھی ذرا دیر انتظار کرتا رہا ..... میں جانتا تھا کہ وہ لوگ بھی غالباً بھوت وغیرہ کے خیال میں ہیں ..... آخر میں نے ہی یہ سلسلہ چھیڑا .....
’’خاں صاحب کہتے تھے ..... وہاں کوئی بھوت یہ کارروائی کر رہا ہے ..... ‘‘
’’ٹھیک ہی ہے جناب ..... ‘‘ان دونوں نے یک زبان ہو کر کہا .....
’’لیکن ..... کیا بھوت انسان کر مار کر کھاتا بھی ہے ..... ‘‘
’’کیا معلوم جناب ..... ان تینوں کو تو کھالیا ..... ‘‘لالن نے کہا
میں ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا ..... ’’کیا تم لوگ بھوت سے ڈرتے ہو ..... ؟ ‘‘
وہ دونوں حیرت زدہ مجھے دیکھنے لگے ..... ’’میں تو نہیں ڈرتا ..... ‘‘میں نے کہا .....
لیکن میرے یہ کہنے سے ان کو اطمینان نہیں ہوا ..... یہ میں جانتا تھا .....
لیکن اس کے بعد ممتاز بٹ نے بھوت کے قصے سنانا شروع کیے اور ہلاکت کے وہ واقعات بالتفصیل بیان کیے جو میں ان قصے کے آغاز میں تحریرکر چکا ہوں .....
(جاری ہے۔۔۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )