شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 45
ریگستانوں میں جہاں کوئی راہ کا نشان نہ ہوتا ہے نہ رہ سکتا ہے ..... اونٹ والے ستاروں کو دیکھ کر اپنے راستے اور سمت کا تعین کر لیتے ہیں ..... شاذ و نادر ہی راستہ بھولتے ہیں ..... مجھے تو ستارے دیکھ کر اپنی قسمت کے ستارے کی فکر ہوجاتی ہے ..... یا اپنی نانی اماں کی وہ تعریف یاد آجاتی ہے جو وہ مجھے میرے بچپن کے ایام میں گود میں اٹھا کر کہا کرتی تھیں .....
’’میرے بیٹے ماتھے چاند تھوری ستارا ہے ..... ‘‘
لیکن نہ اب وہ چاند نظر آتا ہے نہ ستارا ..... البتہ میری پیشانی اللہ تعالیٰ سبحانہ کے نور سے روشن ہے اور ستارا غائب ..... !
شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے ستارے کے ذریعے راستہ معلوم کرنے کا فن نہیں آتا ..... میں تو ستارے شناخت ہی نہیں کر سکتا اس لیے کہ سارے چمکنے والے مجھے ایک ہی جیسے نظر آتے ہیں ..... غرضیکہ اس روشنی کی طرف بھی دیر تک چلتے رہے اور فاصلہ جوں کا توں رہا ..... !
یہ ہم لوگوں کے سکول میں پڑھنے کا زمانہ تھا ..... میں نویں درجے میں اور احمد میرے ہم جماعت تھے، گاڑی پانچ نیل گایوں کے قریب قریب سے گزری ..... لیکن وہ بھاگے نہین ..... میں نے سوچا ایک کو گراہی دوں ..... پھر خیال آیا کہ اس ساڑھے تین چار سو کلو گرام وزن کے لحیم شحیم جانور کو ہم دو لڑکے کس طرح گاڑی میں رکھیں گے ..... گاڑی ادھر سے گزر گئی ..... سامنے دیکھا تو روشنی غائب..... بلکہ ایک ستارے جیسی روشنی عین دوسری طرف چمک رہی تھی .....
’’بھائی صاحب ..... یہ اگیا بیتال ہے ..... ‘‘
’’واقعی ..... ؟!‘‘ میں نے کہا .....
’’ہاں ..... قطعی اگیا بیتال ..... ‘‘
’’اگیابیتال ‘‘ کے قصے ان دنوں اناؤ میں عام طور سے سنے جاتے تھے ..... ان قصوں کی تشریح اور نہایت دلچسپ طریقے پر بیانات کی ذمہ داری ہمارے محلے کے ایک صاحب کے سر تھی جو منی خالو کے نام سے مشہور تھے ..... مجھے تو ان کے صحیح نام کا علم پہلے بھی نہیں تھا ..... اب بھی وہ میری یادداشتوں میں صرف مُنی خالو لکھے جاتے ہیں ..... محلے کے سارے چھوٹے بڑے ان کو اسی لقب سے پکارتے تھے..... یہ بھی یاد نہیں کہ ان کا مشغلہ کیا تھا ..... غالباً ضلع کچہری میں کوئی منشیانہ قسم کا کام کرتے تھے ..... اس سے زیادہ ان کی حیثیت معلوم نہیں ہوتی تھی .....مشغلہ کچھ بھی ہو ..... افواہیں پھیلانے میں ان کا جواب نہیں تھا .....
’’اگیا بیتال ‘‘ کا قصہ بھی ان ہی کی ذہنی پیدوار تھی ..... لیکن یہ واقعہ ہے کہ اناؤ جا جابجا میں نے ’’اگبا بیتال ‘‘ کا نام اور قصے سنے ..... یہ بھی کہ اس کا وجود صرف میدانوں میں ہوتا ہے .....
کہتے والوں کے مطابق ..... ’’اگیا بیتال ‘‘ کوئی بدروح یا بھوت ہے ..... جس کا کھیل یہ ہے کہ رات کے وقت بڑے میدانوں یا ویرانوں میں لوگوں کو راستہ بھلا دے ..... گویا خواجہ خضر راستہ دکھاتے ہیں ..... اور’’اگیا بیتال ‘‘ راستہ بھلا دیتا ہے ..... مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ اس قصے میں حقیقت ہے کہ نہیں تو میں یہی کہوں گا کہ نیکر کے میدان میں اس رات مجھے ہر طرف کچھ دیر جو روشنی نظر آکر غائب ہوجاتی تھی وہ اگر ’’اگیا بیتال ‘‘ نہیں تھی تو پھر کیا تھی ..... !‘‘
میری تو کوشش رہی کہ کسی بھوت یا جن سے مڈبھیڑ ہو ..... بچپن سے ہی میں اس کوشش میں رہا لیکن کبھی کامیابی نہیں ہوئی ..... مجھے جس علاقے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہاں جن ہیں ..... بھوت ہیں یا چڑیل ملتی ہیں ..... میں وہاں ضرور گیا ..... بار بار گیا ..... راتوں کو وہاں ٹھہرا رہا ..... کئی جگہ ساری رات انتظار میں گزار دی لیکن کسی سے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا .....
امریکہ میں بھی ELGINکے قریب اور اوکلا ہوما اور KANSASاسٹیٹ لائن کے قریب جوشکار گاہ ہے اس میں پہاڑی کے اوپر ایک قبر ہے جس کے لیے کسی نے چبوترہ بنا کر اس کے گرد لکڑی کے باڑ بنا دی ہے ایک طرف دروازہ یا پھاٹک بنا ہے ..... ممکن ہے کوئی اس احاطے کے اندر آتا جاتا ہو.....لوگ اس احاطے اور قبر کے آس پاس جانے سے احتراز کرتے ہیں ..... دن کے وقت بھی کوئی ادھر نہیں جاتا ایک امریکی نے مجھے خاص طور سے منع کیا کہ ادھر نہ جاؤن وہ اچھی جگہ نہیں ہے .....
’’کیوں ..... کیا خرابی ہے ..... ‘‘ اس نے ایک لمحہ سوچا .....
’’تم کو میں ڈرانا نہیں چاہتا ..... ‘‘
’’مجھے بہت خوشی ہوگی اگر تم براہ کرم مجھے ڈرا دو ..... ‘‘
’’وہاں بد روح ہوتی ہے ..... ‘‘
’’اچھا ..... واقعی ڈرنے کی بات ہے ..... لیکن وہ کیا کرتی ہے ..... ‘‘
’’ .... ڈراتی ہے ..... یکبارگی سامنے آجاتی ہے ..... ہنستی ہے ..... کبھی دھمکاتی ہے ..... ‘‘
’’تم نے خود دیکھا ہے ..... ‘‘
’’نہیں ..... سنا ہے ..... ‘‘
’’اچھا ..... ہوگی ..... ‘‘
’’میں تم کو نصیحت کر رہا ہوں ..... ادھر مت جانا ..... ‘‘
’’اوکے ..... ‘‘
لیکن دوسرے دن ..... میں اس قبر کی طرف خاص طور سے گیا ..... گہری اندھیری رات تھی اس لیے کہ شام سے ہی بادل خوب چھا گئے تھے ..... میں سوا تین بجے رات کو اس قبر کے احاطے کے پاس پہنچا اور اسی احاطے کے پھاٹک کی سڑھیوں پر طرف پشت اورسامنے کی طرف منھ کئے بیس منٹ بیٹھا ..... پھرساڑھے پانچ بجے صبح تک اسی جگہ کے آس پاس رہا ..... صبح کے قریب اسی جگہ ..... احاطے کے چبوترے کی دیوار کے ساتھ چھوٹا سا گڑھ کھود کر ..... گڑھے کو مٹی سے پاٹ دیا ..... پانی ساتھ تھا ہی ..... اللہ خیر صلا ۔
بھگت گڑھ کے لوگوں کو بھی بھوت کے بارے میں سوچنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا ..... ظاہر ہے کہ تین انسانی جانیں اور کئی بھیڑوں کی گمشدگی کسی بھوت کے سر منڈھ دینا آسان تھا۔بھگت گڑھ کے بھوت کی خبرعظمت خاں کو پہنچانا دشوار نہیں تھا ..... اس قسم کے واقعات جہاں انسانی جان کا اتلاف شامل ہو کسی کی کوشش کے بغیر وہ خبریں پھیل جاتی ہیں..... اس معاملے میں تو بھوت کا تذکرہ بھی تھا ..... ان دنوں ایک انگریزی اخبار امرت بازار پتریکا..... شائع ہوتا تھا ..... یہ یاد نہیں کہ کس شہر سے شائع ہوتا تھا ..... لیکن اٹارسی ‘ ناگپور اور بھوپال تک پہنچتا تھا ..... اس اخبار نے پولیس رپورٹ کے حوالے سے تین گمشدگیوں کی خبر شائع کی ..... اردو اخبارات نے اس کے بعد اس خبر پر توجہ دی .....
اردو اخبار کاقصہ بھی خوب ہوتا ہے 1947ء میں ..... میں جبکہ میں پاکستان میں تازہ وارد ہواتھا ..... حیدرآباد میں ہی ایک عزیز ملک شریح الدین کے گھر قیام ہوا..... میں اپنے ایک بزرگ عزیز ..... سید مسعود علی نقوی صاحب کے ساتھ پاکستان آیا تھا اور ان ہی کے ساتھ قیام تھا .....
شریح الدین صاحب کے دو عدد تروکہ گھر قبضے میں کیے تھے ..... ایک سے ان کا کام اس لیے نہیں چل سکتا تھا کہ اس زمانے میں ان کی دو عدد بیویاں تھیں ..... چنانچہ دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ گھر بھی ضروری تھے ..... لیکن دونوں گھر اس طرح متصل تھے کہ بیچ کی دیوار میں دروازہ تھا ..... جس گھر میں ان کی بڑی بیگم رہتی تھیں اس میں نو وار دان کا خاصا اجتماع تھا .....
سید مرحوم علی نقوی بمعہ بیگم اور دو عد بچے .....عبدالوحید بمع بیگم اور چارعد بچے ..... شریح الدین کی بڑی بیگم اور ان کے چند بچے..... اور ان میں ہی میں ..... یہ مفصل ذکر میری کتاب’’پانچواں درویش ‘‘ میں آئے گا .....
بہرحال ..... ایک روز میں پیرآباد کے مشہور بازار ..... گھنٹہ گھر کے قریب سے گزر رہا تھا ..... کتابوں کی ایک دکان..... رفیق بکڈپو کے مالک ..... رفیق احمد سے ملاقات اور بات چیت ہوئی ..... انہوں نے مجھے نواب صاحب لوہارو کے بھائی کا نام اور پتہ دیا..... ان کا دفتر قریب ہی تھا ..... ان کے اپنے روزنامہ اخبار کے لیے ایک آدمی کی ضرورت تھی جو ریڈیو پر مختلف ملکوں سے خبریں سن کر اردو میں ترجمہ کر کے اخبار کے لیے لکھتا رہا ہے .....
میں اخبار کے ایڈیٹر سے ملا ..... پرانے تجربہ کار اخبار نویس تھے ..... بزرگ آدمی ..... بڑی لمبی داڑھی ..... اور موٹے شیشوں کی عینک ..... ذرا دیر بعد مجھے انہوں نے امتحان کے لیے ریڈیو کے سامنے بٹھا دیا ..... میں خبریں سنتا گیا اور لکھتا گیا ..... خبریں ختم ہونے کے بعد میں نے ان خبروں پر مبنی ..... کئی خبریں مفصل لکھ کر ان کو دکھائیں ..... میرا کام ان کے لیے تسلی بخش تھا ..... لہٰذا میرا تقرر ہوگیا ..... بعد میں رفیق بک ڈپو نے میری کتاب ..... ’’منظور حیات قائداعظم ‘‘ بھی شائع کی .....
اس اخبار کے پاس خبر رسانی کا واحد یہی ذریعہ تھا ..... ریڈیو سن کر خبریں لکھی جاتیں ..... میں ان خبروں کو نہایت کامیابی کے ساتھ تصنیف فرماتا ..... اور مبالغہ آرائی بھی کرتا تھا .....
نواب لوہارو ..... غالباً خود بھی تقسیم کے بعد نوابی سے محروم ہوچکے تھے ..... ان کے بھائی کی مالی حالت بھی مضبوط نہیں تھی ..... اس لیے یہ اخبار ..... جسے خریدتا تو کوئی بھی نہیں تھا ..... زیادہ عرصہ نہیں چل سکا ..... عظمت میاں نے ان خبروں کو اہمیت نہیں دی ..... وندھیا چل اور ست پوڑا کے علاقوں میں اس طرح انسانوں کا شکار ہونا..... جانوروں کی خوراک بن جانا ..... عام بات کی ..... ان علاقوں میں زندگی کی قیمت اس طرح ادا کی جاتی ہے ..... اس کے باوجود ان کی جان کے اتلاف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا .....(جاری ہے )