شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 51
کچھ دور پر مجھے دونوں سپاہیوں کی توڑے دار بندوقیں زمین پر پڑی ملیں ..... ذرا اور آگے مختلف سامان ادھر ادھر نظر آیا جو گاڑی سے گر گیا ہوگا ..... میری بندوق بھی ایک جگہ پڑی ملی جو میں نے اٹھالی ..... بحمداللہ وہ بھی بخیریت تھی ..... ظاہر ہے کہ ڈر کر بھاگے ہوئے بیل ..... پتھریلے جنگلی راستے پر اچھلتی کودتی گاڑی سامان تو سب ہی گر گیا تھا ..... تقریباً آدھے میل پر پہنچا تھا کہ لالن کی آواز آئی ..... ’’جناب عالی ..... ہم ادھر ہیں ..... ‘‘
میں آواز کی سمت گیا ..... لالن اور ممتاز دونوں ایک درخت کی بلند شاخ پر بیٹھے تھے ..... ’’ہائیں تم لوگ وہاں کیا کر رہے ہو ..... ؟ ‘‘ میں نے پوچھا
’’ہم لوگ ..... ہم لوگ تو آپ کو ڈھونڈھنے اور دیکھنے کے لیے درخت پرچڑھے ..... ‘‘ممتاز نے جواب دیا .....
میں ہنسا ..... کس صفائی سے جھوٹ بولا گیا تھا .....
’’کیا شیر بھاگ گیا ..... ؟‘‘اس نے پوچھا
’’ہاں ..... ‘‘ میں نے جواب دیا .....
’’اچھا ..... ‘‘
چنانچہ وہ دونوں نیچے اتر آئے ..... میں نے گھوم کر دیکھا تو بیل گاڑی بھی کچھ فاصلے پر نظر آگئی ..... اور جنگی بھی ..... وہ بھی غالباً درخت سے اتر کر آرہا تھا .....
’’جنگی..... ‘‘میں نے پکارا
’’جی صاحب جی ..... ‘‘
’’گاڑی واپس لاؤ ..... سب سامان گر گیا ہے اٹھا کر رکھو ..... ‘‘
’’جناب گاڑی کا دھرا ٹوٹ گیا ..... ‘‘
’’بیل کہاں ہے ..... ؟‘‘میں نے پوچھا
’’وہ تو ادھر ہی ندی کے کنارے باندھ دیئے ہیں میں نے ..... ‘‘
’’خیر ..... تو پھر تم تینوں چلو اور سامان اٹھاؤ ..... ‘‘میں نے حکم دیا .....
اب ہم چاروں پھر واپس ہوئے اور ایک ایک کر کے ان لوگوں نے سب سامان اٹھایا ..... اتفاق کی بات .....
جس وقت ہم لوگ وہاں پہنچ رہے تھے ،اس وقت ریچھ نے درخت سے اترنے کا دوبارہ ارادہ کیا تھا کہ ہم لوگ فوراً نمودار ہوئے .....
ادھر ممتاز اور لالن نے ایک چیخ ماری ..... ’’ریچھ ‘‘ ..... او رچاند قدم پیچھے ہٹے ادھر ریچھ بے چارہ گھبرا کر دوبارہ درخت پر چڑھ گیا.....
مجھے ان دونوں سپاہیوں نے بڑا مایوس کیا ..... وہ تو اپنے کو شکاری اور شکاروں کا منتظم کہتے تھے اور شیر کو اکثر دیکھتے رہتے تھے ..... غالباً سب جھوٹ تھا ..... ! جنگلی البتہ نڈر ثابت ہوا ..... !
ابھی تک ان لوگوں نے شیر کو نہیں دیکھا تھا .....
’’ریچھ ہی ہے ..... ‘‘میں نے ان سے کہا .....
’’اور ..... چھوٹا ریچھ ہے ..... ‘‘
’’ہم ..... مگر ..... ‘‘
’’ تم دونوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں ..... بہادر جوان مرد ہو ..... لیکن اس قدر خوف .....‘‘ان کے سر جھک گئے .....
میں ادھر چلا جدھر شیر پڑاتھا .....
وہ تینوں میرے پیچھے ..... چند قدم چل کر ہی ان کی نظر شیر کی لاش پر پڑی ..... غالباً وہ تینوں ہی ٹھٹھک کر رہ گئے ہوں گے ..... جنگی بڑھ کر شیر کے پاس چلا گیا ..... اس کو دیکھ کر دونوں سپاہی بھی ہمت کر کے شیر تک آئے ..... ایک نے اس کے ٹھوکر ماری.....
’’یہ تو میرے پیچھے دوڑا تھا ..... ‘‘
میں نے اس کو مجبوراً مارا تھا ..... اگر وہ ہمارے تعاقب میں نہ آیا ہوتا تو ہرگز اس شیر کو نہ مارتا اب جو دیکھا تو وہ شیرنی تھی ..... مادہ ..... مجھے افسوس ہوا کہ اس غریب کی جان لی ..... لیکن اس نے میرے لیے کوئی چارہ کار نہیں چھوڑا تھا.....
سامان سب گاڑی میں رکھا گیا ..... ان علاقوں کی بیل گاڑیوں کے دُھروں کو ٹوٹنے کی عادت ہوتی ہے اس لیے جس طرح موٹر کاروں میں اضافی ٹائر کا وجود لازمی ہے ..... اس طرح بیل گاڑیوں میں اضافی دُھرا ضرور ہوتا ہے ان تینوں نے مل کر گاڑی کا دُھرا بدلا ..... پھر ہم چاروں کی مشترکہ کوشش سے بمشکل شیرنی کو گاڑی پر لادا گیا ..... اس دوران بیل دور رکھے گئے تھے ..... شیرنی کو لادنے کے بعد اس کی لاش کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا گیا تب بیل لا کر لگائے گئے ..... اس عرصے میں ریچھ بھی درخت سے اتر کر کسی طرف بھاگ لیا تھا ..... !
ہم لوگ بڑے گاؤں سے بچتے ہوئے سیدھے بھگت گڑھ ہی پہنچے ..... عصر کا وقت ہورہا تھا ..... ہمارا وہاں پہنچنا ایک اور اتفاق ..... بلکہ حادثے ..... کے بلا فاصلہ بعد واقعہ ہوا ..... ابھی گاڑی دور ہی تھی کہ کسی عورت کے رونے کی آواز ..... اور ساتھ ہی کئی آدمیوں کی بہت بلند آواز سے باتیں کرنے ..... یا ڈانٹنے کی آوازیں ..... میں نے دل میں سوچا کہ گاؤں والے یقیناًپھر کسی سے ہاتھ دھو بیٹھے..... بھوت نے ایک اور انسان شکار کر لیا ..... !
ّ(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)