حضرت ابی رزین عقیلی رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فر ماتے ہو ئے سنا : باپ جنت کے دروازوں میں سے بہتر ین دروازہ ہے ۔ چنا نچہ تمہیں اختیا ر ہے خو اہ ( اس کی نا فر مانی کر کے اور دل دکھا کے ) اس دروازہ کو ضائع کردو یا ( اس کی فر ما نبر داری اور اس کو راضی رکھ کر ) اس دروا زہ کی حفا ظت کرو ۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کسی ایسے آدمی کو نہیں دیکھا جو عادات کے لحاظ سے فا طمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتا ہو ۔جب وہ آپ ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ، ان کا بو سہ لیتے اور انہیں اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تووہ آپ ﷺ کے لئے کھڑے ہو جاتیں ،آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑتیں ، آپ ﷺ کا بو سہ لیتیں اور آپ ﷺ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
ان احادیث سے ایک والد کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے باپ ایک سایہ ہے جو دھوپ میں ایک درخت کی طرح آپ پر چھاؤں کرتا ہے۔۔ ہر دکھ درد تکلیف میں آپکو سنبھالتا ہے ۔ خود تکلیف اٹھا کر اولاد کو ہر غم سے محفوظ رکھتا ہے۔ باپ کی محبت ایک بیٹی کے لیے لازوال ہوتی ہے۔ وہ شفقت کا لمحہ وہ ہاتھوں کا لمس ساری زندگی رہتا ہے۔ ایسی لازوال محبت مجھے بھی میرے والد سے تھی ان کا آخری لمس انکی آنکھوں کی نمی آج بھی میری آنکھوں میں قید ہے مجھے نہیں لگتا کوئی لمحہ ایسا ہے جب ان کی یاد سے میرا کوئی بھی پل گزرا ہو۔۔
آج محسوس ہوتا ہے کہ ایک وقت ہے جو گزر نہیں رہا ایک لمحہ ہے جو رک گیا ہے۔ ایک چھت ہے جو گر گئی ہے، ایسے لگتا ہے سورج سر پر ہے مگر پھر بھی رات ہو گئی ہے ایسی رات جس کی کبھی صبح نہیں ہوتی۔
4 ستمبر کو ایک انسان پیدا ہوا جس کے پیدا ہونے پر والدین نے خوشیاں منائیں، انکا نام فضل الرٰحمن سندھو رکھا گیا ایک سکول ٹیچر ماسٹر دین محمد کے گھر ایک ایسا چراغ پیدا ہوا جس کے دم سے بہت سے گھروں کے چراغ روشن ہوئے ۔چھوٹی عمر میں ہی والد کا انتقال ہو گیا اور سارے گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آگئی لیکن انہوں نے اس ذمہ داری کو ایک فرض بن کر نبھایا 7 بہنوں اور 2 بھائیوں کو اپنی اولاد کی طرح پالا ان کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں، اپنا حصہ تک ان کو دے دیا کبھی اف تک نہیں کی جتنا ہو سکا اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھا کبھی ان کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دی ۔ اس کے بعد اپنی اولاد کی ہر خواہش کا خیال رکھا ۔ ایسے انسان تھے کہ اولاد کے ساتھ ہمیشہ دوستوں کی طرح رہے ہر خواہش پوری کی۔ باپ سے بڑھ کر دوست تھے۔
ایسے انسان جو جہاں بیٹھتے محفل کی جان بن جاتے ایسے دوست جو دوست کی خاطر جان دینے سے گریز نہیں کرتے تھے اتنے شفیق کہ راہ چلتے بچوں کو بھی اٹھا کر پیار کرتے ، جو ایک بار ان سے مل لیتا وہ کبھی بھولتا نہیں تھا ۔ مجھ میں جان بستی تھی ان کی مجھے آج بھی وہ پل یاد ہے جب میں ہاسٹل میں تھی اور وہ بکرا لے کر میرے ہاسٹل پہنچ گئے کہ اس کو ہاتھ لگاؤ صدقہ دینا ہے ۔۔ وارڈن سمیت تمام ہاسٹل کی لڑکیاں ہنس رہی تھیں کہ یہ کیا تمہارے پاپا بکرا لے کر ہاسٹل پہنچ گئے ۔ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں مشکل میں ہوں اور اس لیے وہ اٹھتے ہی میرے پاس آگئے یہ ان کی محبت تھی ، روز مجھے کچھ نہ کچھ کھانے کو دینے آتے تھے کیونکہ میرے بنا وہ رہ نہیں سکتے تھے لیکن یہ بات ظاہر نہیں کرتے تھے ۔
بہت سے لوگوں کی مدد کرتے تھے اور کسی کو بھی پتہ نہیں تھا بہت سے گھروں کے چولہے ان کی مدد سے چل رہے تھے اور یہ سب ان کے جانے کے بعد پتہ چلا۔۔ ایک نیک صفت انسان جس کی تعریف ہر بندہ کرتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی اولاد اپنے والدین سے کیسے بدگمان ہو جاتی ہے میں نے تو اپنے والد کو جتنا جانا پھر بھی کم ہی جانا۔۔ انہیں میری دوستوں تک کا احساس تھا ۔ میری ایک دوست کی شادی تھی تو مجھے کہتے اس سے پوچھ لو کیا چاہیے اور ہر طرح سے اس کی شادی میں حصہ لیا جس طرح اپنی بچی ہو۔ اپنی بہنوں اور بھائیوں کی شادی دھوم دھام سے کی۔۔ لیکن اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنا نصیب نہ ہوئیں۔۔انکی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھ کر اچھے مقام پر پہنچیں ۔۔ جب مجھے دیکھتے تو بہت خوش ہوتے لوگوں کو بہت فخر سے بتاتے میری بیٹی پروڈیوسر ہے چینل پر ان کی وہ خوشی جو ان کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی وہ میں آج تک نہیں بھولی۔ کہتے تھے میرا ایک بیٹا سول انجینئر بن رہا ہے ایک بیٹا سوفٹ ویر انجینئر بن رہا ہے اس وقت جو نور جو معصومیت جو خوشی ان کے چہرے پر ہوتی تھی وہ میری آنکھوں میں کہیں تھم سی گئی ہے آج اس مقام پر میں سوچتی ہوں تو تکلیف ہوتی ہے اپنی ساری زندگی لوگوں کے لیے وقف کر دی پہلے بہن بھائیوں کو پالا انکی شادیاں کیں، انکے بچوں کی شادیاں کیں ۔
پھر اپنے بچوں کو پالا انکی شادیاں کیں انہوں نے کبھی اپنے لیے تو جیا ہی نہیں جب اپنے لیے جینے کا موقع ملا تو سانسوں نے مہلت ہی نہیں دی، میری انکے ساتھ اس طرح دوستی تھی کہ کبھی لگتا ہی نہیں تھا ہم باپ بیٹی ہیں ، کبھی ایسا ہوتا سگریٹ پیتے مجھے کہنا پینی ہے اور میں نے ان کے ہاتھ سے پکڑ لینی۔۔ کوئی چیز پسند آنی تو میرے کہنے سے پہلے وہ میرے پاس ہوتی۔ مجھے انکے الفاظ یاد ہیں بیٹا عیش ہمیشہ باپ کے پیسے پر ہوتی ہے اپنے پیسوں سے بس ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہ درست کہتے تھے اب صرف ضرورتیں پوری ہوتی ہیں میرے پرانے چینل پر میرا نام مہوش سندھو چلتا تھا تو انہیں بہت تکلیف ہوئی کہ میرا نام ہٹا دیا وہ غلطی سے ہوا تھا لیکن میرے پاپا کو دکھ ہوا اس کے بعد میں نے ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ انکا نام لکھا اور 4 ستمبر انکی سالگرہ ہے اور یہ میرے پاپا کو ایک خراج ہے میں آج جو ہوں جس مقام پر ہوں ان کے دم سے ہوں۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو اکیلے کہیں جانے آگے بڑھنے کی آزادی نہیں دیتے میرے پاپا نے مجھے بیٹوں سے زیادہ آزادی دی ۔ زندگی جینا کیا ہوتا ہے یہ پاپا کے ساتھ پتہ چلتا تھا اب تو بس سانسیں لے رہے ہیں زندگی تو کہیں رک سی گئی ہے۔۔ کاش وہ دن آیا ہی نہ ہوتا جب میں نے اپنے پاپا کو کھو دیا۔
اکثر سنتے ہیں ایک بیٹے نے باپ کو مار دیا ، ایک بیٹے نے تشدد کیا میرے خیال میں ایسے لوگوں کو بیچ سڑک پھانسی دینی چاہیے ایک باپ کس طرح اپنی اولاد کی حفاظت کرتا ہے، کس طرح سر د گرم سے محفوظ رکھتا ہے یہ ایک باپ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا ، کبھی سڑک کنارے فروٹ بیچتے، گلی گلی جا کر سامان بیچتے ، غبارے بیجتے ایک بوڑھے باپ کی آنکھوں میں وہ بے بسی دیکھنا جو اپنی اولاد کے لیے یہ تکلیف برداشت کر رہا ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنے بچوں کی روئی پوری کر سکوں۔
ایک باپ کا پیار ہر لڑکی محسوس کر سکتی ہے جو اپنے والد کو سمجھتی ہےکیونکہ باپ ہمیشہ اپنی بیٹی سے زیادہ پیار کرتا ہے اپنی بیٹی کو وہ چلنا سکھاتا ہے، اپنی بیٹی کی زندگی کا واحد مرد اسکا باپ ہوتا ہے خدا سب کے والدین کو سلامت رکھے اور میرے والد کی مغفرت فرمائے انکے درجات بلند کرے آمین !کبھی کسی کے باپ کو کچھ نہ ہو ورنہ بیٹیو ں کی زندگی امتحان بن جاتی ہے۔۔
وہ آخری لمحہ ، وہ شدت غم ، وہ آنکھوں کا دھندلا پن
اک لمس جو چھن جائے تو اندھے ہو ہی جاتے ہیں۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔